نواز شریف کی اقتدار سے رخصتی جمہوری نظام کی فتح
********************
آئیڈیل جمہوریت ہوتی تو جونہی پانامہ سکینڈل سامنے آیا تھا، میاں نواز شریف اپنے عہدے سے استعفی دے کر خود کو احتساب کے لئے پیش کر دیتے۔ یہ کوئی غیرمعمولی بات نہ ہوتی بلکہ اسے ایک ایسی جمہوری روایت کا تسلسل قرار دیا جاتا جس کی بے شمار مثالیں جدید جمہوری تاریخ میں موجود ہیں۔ ہمارے ملک میں چونکہ ابھی جمہوری نظام نوزائیدہ ہے اور ہم ابھی تک آمریت اور بادشاہت سے متاثرہ معاشرہ ہیں اس لئے میاں صاحب نے اقتدار سے دست بردار ہونے سے انکار کردیا۔ انہیں انتظامیہ پر اپنے کنٹرول، سیاسی عصبیت اور محاذ آرائی کے پرانے تجربات کی وجہ سے یقین تھا کہ وہ اس بحران سے بچ نکلیں گے۔پچھلے کئی برسوں میں انہوں نے اپنی دولت کے بل بوتے پر ایک طاقتور پراپیگنڈہ مشینری تخلیق کر لی تھی جو سچ کو جھوٹ اور سفید کو سیاہ ثابت کرنے پر قادر تھی۔ تمام اہم اداروں کے سربراہان میرٹ کی بجائے میاں صاحب سے وفاداری کی وجہ سے اپنے عہدوں پر فائز تھے۔ نتیجتاً ان اداروں کو وہ آزادی میسر نہیں تھی جو کسی طاقتور شخصیت کے خلاف تفتیش و تحقیق کے لئے ضروری ہوتی ہے۔ میاں صاحب کو علم تھا کہ جمہوری نظام ابھی پوری طرح جڑیں نہیں پکڑ سکا اور آج بھی شخصیات کے گرد گھومتا ہے۔ وہ معاشرے کی اس جہت سے بھی آگاہ تھے کہ یہاں مشکوک دولت رکھنے والے افراد معزز و محترم سمجھے جاتے ہیں۔
لیکن وہ یہ بات نہ سمجھ پائے کہ دو مسلسل انتخابی عمل سے گزرنے کی وجہ سے جمہوری نظام میں کچھ نہ کچھ توانائی آ چکی ہے۔ ایک حکومت نے اپنے پانچ سال پورے کئے اور پھر اقتدار نئی حکومت کے سپرد کر دیا۔ اس پرامن انتقال اقتدار کی وجہ سے برسوں سے خوابیدہ ادارے انگڑائی لے کر جاگنے لگے۔ چنانچہ اس کمزور، ٹوٹی پھوٹی اور لٹی پٹی جمہوریت نے پارلیمنٹ میں بھاری اکثریت رکھنے والی جماعت کی آمریت کے سامنے جھکنے سے انکار کردیا۔ عوامی دباؤ نے وزیر اعظم کو مجبور کیا تو پہلے انہوں نے قوم سے خطاب کر کے اپنی وضاحت پیش کی جسے سماج کے اجتماعی ضمیر نے مسترد کر دیا۔ پھر انہیں 2014 کے دھرنوں والے تجربات یاد آئے تو وہ پارلیمنٹ تشریف لائے اور پانامہ انکشافات کے جواب میں اپنا نکتہ نظر پیش کیا۔ یہاں بھی بات نہ بنی اور دباؤ بڑھتا گیا تو وہ مجبور ہو گئے کہ اس سارے معاملے کو تحقیقات کے لئے عدلیہ کے سپرد کر دیں۔
ماضی کے تجربات کی وجہ سے انہیں یقین تھا کہ عدلیہ تحقیقات کے لئے جن اداروں اور افراد کی مدد مانگے گی، انہیں یا تو خرید لیا جائے گا یا ڈرا دھمکا کر مجبور کر دیا جائے گا کہ وہ شریف فیملی کے حق میں فیصلہ صادر کریں۔ ان کی یہ تمنا پوری نہ ہو سکی اور بدعنوانی سے بھرے نظام میں بھی عدلیہ کو ایسے افراد میسر آ گئے جنہوں نے پوری دیانت داری سے کام کیا اور شریف فیملی کی بزنس ایمپائر کا پورا کچا چٹھا کھول کر رکھ دیا۔ یہ ایک طویل مشق تھی جس میں بہت سے مشکل مراحل آئے۔ عدلیہ کو کھلی دھمکیاں دی گئیں، جے آئی ٹی ممبران پر دباؤ ڈالا گیا، پیسے کے زور پر اپنے حق میں بھرپور پراپیگنڈہ مہم چلائی گئی۔ تاہم یہ سب کاوشیں رائیگاں گئیں اور ایک طویل قانونی عمل کے بعد عدلیہ نے نواز شریف کے خلاف فیصلہ صادر کر دیا جس کے نتیجے میں انہیں اقتدار سے رخصت ہونا پڑا۔
یہ ہمارے جمہوری نظام کی ایک بہت بڑی فتح تھی جس کے نتیجے میں ملک کی ایک طاقتور شخصیت اپنے سیاسی عہدے سے محروم ہو کر احتساب عدالت میں پیش ہونے پر مجبور ہو گئی۔ مستقبل میں مورخ جب اس دور کی تفصیل لکھے گا تو یہ تذکرہ لازمی کرے گا کہ ایک نوزائیدہ جمہوری نظام کو ہائی جیک کر کے اسے سول آمریت میں تبدیل کرنے کی ایک بھرپور کوشش چند ججز اور کچھ دیانت دار بیوروکریٹس نے ناکام بنا دی۔تاریخ کے اس اہم باب کو سمجھنے کے لئے یہ بات ذہن نشین کرنا ضروری ہے کہ اس قسم کے فیصلے صرف جمہوری نظام میں ہی آ سکتے ہیں۔ آمریت اور بادشاہت میں نہ ہی منصفین میں کوئی دم خم ہوتا ہے اور نہ ہی حکومتی اداروں میں حکمرانوں کا احتساب کرنے کی جرات ہوتی ہے۔
آج جمہوری نظام مضبوطی سے قائم ہے، حکمران جماعت نے نیا وزیر اعظم منتخب کر لیا، نئے الیکشن کی تیاری زوروں پر ہے، سیاسی رہنما عوام سے اپنے روابط مضبوط کر رہے ہیں، عوام اپنے نئے حکمران منتخب کرنے کی تیاری کر رہے ہیں۔ ایک بھرپور قسم کی سیاسی سرگرمی کا آغاز ہو چکا،جلسے جلوسوں کی بہار کا موسم آ چکا اور ایک زندہ معاشرہ اپنی جمہوری عید منانے کی راہ پر گامزن ہے۔
ہر معاشرے میں ایسے مریضانہ سوچ والے لوگ موجود ہوتے ہیں جو خوشی کی ہر کوشش میں قنوطیت کا زہر گھولنے کی کوشش کرتے ہیں۔ پاکستان میں بھی ایک طبقہ دانشوراں ایسا ہے جو پانامہ کے اردگرد گھومنے والی ایک صحت مند جمہوری سرگرمی کو اسٹیبلشمنٹ کی سازش قرار دینے پر مصر ہے۔ اگر ان کے دلائل کا تجزیہ کیا جائے تو دو باتیں سامنے آتی ہیں۔ ایک تو یہ طبقہ شخصیت پرستی کے سحر کا شکار ہے جو برصغیر کا خاصا ہے۔ دوسرے نون لیگ کی طاقتور پراپیگنڈہ مشینری کے سامنے ان کی عقل و دانش نے ہتھیار ڈال دیے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ جدید جمہوری تاریخ ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہیں جہاں عوام کے پسندیدہ رہنماؤں کو کرپشن کے الزامات پر اقتدار سے ہاتھ دھو کرجیل جانا پڑا، لیکن وہ اپنی قنوطیت کے محدود دائرے سے باہر آنے کو تیار نہیں ہیں۔
اس طبقے کا ردعمل یہ ظاہرکرتا ہے کہ ابھی تک ہم جمہوری نظام کو اپنی خوبصورت روایات سمیت قبول کرنے سے گریزاں ہیں۔ ہمارے فکری لہو میں ابھی تک آمریت سے متاثرہ جراثیم پھیلے ہوئے ہیں اور ہم شخصیات میں اپنی سماجی فلاح کے خوابوں کی تعبیر تلاش کر رہے ہیں حالانکہ یہ مضبوط اداروں کی تشکیل کے ذریعے حاصل ہو سکتی ہے۔
یہ لوگ میاں صاحب کے حق میں ایک دلیل یہ دیتے ہیں کہ عوام کے منتخب نمائندوں کو رخصت کرنے کا حق بھی عوام کے پاس ہونا چاہئے۔ اس بودی دلیل کے جواب میں ہم یہ سوال پوچھتے ہیں کہ اگر عوام کا منتخب وزیراعظم یہ فیصلہ کرے کہ وہ روزانہ ایک درجن سیاسی مخالفین کو قتل کروا دیا کرے گا تو کیا اس وقت بھی آپ یہی دلیل دیں گے کہ اسے پانچ سال پورے کرنے چاہئیں؟ کسی کو قتل کرنا اور کرپشن کرنا، دونوں ہی ہمارے قانون کے تحت جرائم ہیں۔ اگر کرپشن کا ارتکاب کر کے ایک حکمران اس لئے منصب اقتدار پر فائز رہ سکتا ہے کہ اسے عوام نے منتخب کیا ہے تو پھر قتل و غارت گری کے مرتکب وزیر اعظم کو بھی یہی رخصت ملنی چاہئے۔ برصغیر میں ہزاروں سال سے پھیلی بادشاہت کے اثرات ابھی تک موجود ہیں۔ شاہی نظام کا ایک غلام ذہن یہ تسلیم نہیں کر سکتا کہ بادشاہ سلامت کے گریبان تک ایک قاضی کا ہاتھ بھی پہنچ سکتا ہے۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“