اظہار رائے پر پابندیاں
اظہار رائے کی آزادی جدید دور کی بہت بڑی قدر ہے جس سے نگاہیں چرانا کسی بھی سماج کے لئے ممکن نہیں رہا۔ آج ہر معاشرے کے لئے لازم ہو چکا ہے کہ اپنے تہذیبی پیرامیٹرز میں رہتے ہوئے اس کی حدود میں وسعت کو یقینی بنائے. جن ممالک میں فرد کے پاس بات کرنے کی اجازت موجود ہے وہ دیگر قوموں کو پیچھے چھوڑ گئے ہیں۔ آزادی اظہار کا علمی ترقی کے ساتھ تعلق اب ایک ثابت شدہ حقیقت بن چکا ہے.
مسلمان ممالک کے لئے ابھی تک یہ ایک اجنبی تصور ہے. ہماری اقدار میں آج بھی خاموشی کو دانائی کا لازمی جزو قرار دیا جاتا ہے. بڑوں سے اختلاف رائے کا اظہار بہت برا سمجھا جاتا ہے. سوال اٹھانے کے رجحان کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے اور زبان بندی کے لئے سو سو جواز تراشے جا تے ہیں۔
سوشل میڈیا نے عام افراد کو ایسا پلیٹ فارم فراہم کر دیا ہے جہاں وہ مختلف معاملات پر اپنی رائے کا اظہار کر سکتے ہیں. وہی لوگ جنہیں ادب آداب کے نام پر گھروں میں اور تعلیمی اداروں میں خاموش کرا دیا جاتا ہے وہ یہاں کھل کر اپنی بات کر رہے ہیں۔ اس کی بدولت لبوں پر پڑے قفل ٹوٹ رہے ہیں، ذہنوں پر جمے جالے صاف ہو رہے ہیں، فکر نو کے خوشگوار جھونکے روح کو سرشار کر رہے ہیں اورتخلیقیت کی دیوی قلوب پر حکمرانی کے لئے پر تول رہی ہے۔
اس آزادی نے مقتدر طبقات اور ان کے گماشتوں کی نیندیں اڑا کے رکھ دی ہیں۔ جنہوں نے پوری قوم کو تقدیس کا نشہ پلا کر پچھلے ستر سالوں سے سلایا ہوا تھا، ان کی حقیقت ایک ایک کر کے سب کے سامنے کھل رہی ہے۔ اپنی اجارہ داری سے محروم ہونے والے یہ لوگ بھرپور کوشش کر رہے ہیں کہ اس آزادی پر کسی طور قدغن لگائی جائے۔
ان طبقات کی ایک بڑی دلیل یہ ہے کہ جو شخص جس شعبے میں مہارت رکھتا ہے اسے صرف اپنے شعبے کی حد تک بات کرنے کا حق ملنا چاہئے۔ اس منطق کے تحت مذہب پر بات کرنے کا حق اسی کو ہے جو اس کے لئے کوالیفائیڈ ہو، سماج کے بارے میں بات کرنے کے لئے سماجیات کا ماہر ہونا لازم ہے اور معیشت پر گفتگو کرنے کا حق صرف اس شعبے میں مہارت رکھنے والے کو حاصل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اگر فزکس کا ایک پروفیسر کسی سماجی مسئلے پر اپنی رائے کا اظہار کرتا ہے تو اس کا مذاق اڑایا جاتا ہے۔
اس سوچ کے حامل افراد کا دعوی ہے کہ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جو زندگی کے ہر شعبے کا احاطہ کرتا ہے۔ اس دعوے کا منطقی نتیجہ یہ ہے کہ اسلامی علوم کا ماہر انسانی زندگی کے ہر پہلو پر بات کرنے کا حق رکھتا ہے۔ چونکہ اسلام سیاست، معیشت، اخلاقیات، عقائد، سماجیات سمیت ہر شعبے میں دائمی رہنمائی فراہم کرتا ہے اس لئے اسلامی علوم کے ماہر کو خودبخود ان امور پر بات کرنے کا حق حاصل ہو جاتا ہے۔ یہ لوگ اپنی دلیل کے لئے جو نتیجہ نکالتے ہیں وہ ان کے اپنے ہی مقدمے کی نفی کرتا ہے۔ اس ساری مشق کا مدعا سوائے زبان بندی کے اور کچھ نہیں۔
اظہار رائے کی آزادی پر کسی قسم کا قدغن اصل میں اجتماعی دانش پر روک لگانے اور معاشرے کو ذہنی طور پر نابالغ رکھنے کے مترادف ہے۔ اصولی طور پر ہر شخص کو بات کرنے کی اجازت ہونی چاہئے، جس کی آواز میں وزن ہو گا، جس کی دلیل طاقتور ہو گی، جس کے الفاظ دل جیتنے والے ہوں گے اور جس کی فکر میں گہرائی ہو گی، وہ سوچ مقبول ہو جائے گی، باقیوں کو سماج رد کر کے تاریخ کے کوڑے دان میں پھینک دے گا۔ یہ بنیادی اصول جب تک ہم تسلیم نہیں کریں گے ہماری عقل و دانش غیر ضروری جھگڑوں میں ضائع ہوتی رہے گی اور ہماری ترقی کی راہیں مسدود رہیں گی۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“