زخموں سے چور ہونے کے باوجود وہ دوڑا چلا جا رہا تھا ۔۔۔جب میرے قریب سے گزرا تو اتنی سمجھ آئی ۔۔ پناہ پناہ پناہ۔۔۔۔
وہ ابھی میری آنکھوں سے اوجھل نہ ہوا تھا کہ بہوش ہو کر گر پڑا ۔۔۔۔ میرے اور اسکے بیچ کوئی دو تین سو گز کا فاصلہ ہو گا۔۔۔ لیکن اسے گرتے دیکھ کر مجھے یوں لگا جیسے یہ تین سو گز کا فاصلہ تیس برسوں پہ محیط ہے ۔۔۔ اگر تیس سال پہلے کوئی اسطرح گرتا تو لوگوں کا اک ہجوم اکٹھا ہو جاتا ۔۔ کوئی پانی لاتا کوئی ڈاکٹر کے پاس لے جا کر مرہم پٹی کرواتا ۔۔ تو کوئی اسے اپنے گھر لے جا کر کھانا کھلاتا ۔۔۔
خیر میں سوچتا رہا کہ معاملہ کیا ہے ۔۔ چور ڈاکو اشتہاری یا دہشتگرد تو نہیں ۔۔۔۔آخر کیوں اسکے پاس سے گزرنے والا ہر شخص اسے نظر انداز کر کے گزرے جاتا ہے ۔۔۔ ان دنوں ملکی حالات اتنے بگڑ چکے تھے"کہ جزبہ انسانیت اور احساس نام کی چیزوں کا ذکر صرف ٹی وی ٹاک شوز " سوشل میڈیا "اور گھروں کی بیٹھکوں تک محدود تھا۔۔۔ آئے دن رینجرز اور آرمی کے ہر جگہہ چھاپے پڑتے اور روز ناجانے کتنے جنازے اٹھتے رہتے ۔۔۔
ملک میں خوف ڈر کی ایک لہر سی برپا تھی ۔۔۔ ملکی حالات اور بدامنی کو دیکھتے ہوئے اقوام متحدہ"سپر پاور اور یورپی یونین کا دباؤ دن بہ دن بڑھتے ہی چلا جاتا "کہ (مسٹ سٹاپ ٹیرر ایکٹیوٹیز ان یور کنٹری ادر وائز وی کین ہینڈ اوور )۔۔۔۔ جیسے پیغامات کی بھرمار ملک کے وزیراعظم کو الیکٹرانک پرنٹ اور سوشل میڈیا کے ذریعے ایسے موصول ہوتیں جیسے کسی مریض کو صبح دوپہر شام ہائی پوٹینسی اینٹی بایوٹک انجیکشن زبردستی ٹھوکے جاتے ہیں۔۔۔۔۔
وزیراعظم صاحب اور آرمی کے پاس جو جیسے اختیارات تھے انکا بروقت استمعال ہو رہا تھا۔۔۔ دہشتگردی کی جڑیں کاٹ دی گئیں۔۔۔اب مدارس ۔۔۔ فرقے ۔ مسلک ۔ جماعتیں سب ختم دی گئیں۔۔۔ پھر بھی حالات تھے کہ دن بہ دن بگڑے جاتے تھے ۔۔ روز پارلیمنٹ اور (جی ایچ کیو) میں اجلاس بلائے جاتے اور موجودہ ملکی صورت حال کا جائزہ لیا جاتا اسکے بعد درپیش تمام مسائل کو کنٹرول کرنے کے لیے باقائدہ منظم لائحہ عمل طے کرتے ہی فورا عمل درامد شروع ہو جاتا ۔۔ لیکن حالات تھے سدھرنے کا نام بھی نہ لیتے۔۔
پھر ایسا دور آن پہونچا کہ اب اپنی ہی حکومت اور فوج ملک کی عوام کے لیے ظالم جلاد سے کسی بھی طور پر کم تھی ۔۔۔۔۔۔ جو کوئی بھی دین کی بات کرتے دیکھا جاتا فورا دھر لیا جاتا ۔۔۔ اول تو اسے مار مار اگلے جہان بھیج دیتے اگر خوش قسمتی سے کوئی بچ بھی جاتا تو ساری زندگی کے لیے کسی نہ کسی طور پر اپاہج ہو کر رہ جاتا ۔۔۔۔ ہاتھ ٹانگ ریڑھ کی ہڈی تک ڈیمج کر دی جاتی۔۔۔ اگر ایسی شدید معزوریوں سے بچ جاتا تو متاثرہ فرد پاگل ہو جاتا ۔۔۔۔ آذان پر پابندی لگا دی گئی۔۔ مساجد کے دروازوں پہ گورئمنٹ کیطرف سے عارضی طور پر تالے لگوا دیئے گئے ۔۔۔۔مزاروں اور امام بارگاہوں پر بلڈوزر پھروا دیئے گئے ۔۔۔۔ گھر گھر کی تلاشی لی گئی۔۔۔ جتنے بھی حدیث و فقہ کے نسخہ جات ملتے اکٹھا کر کے آگ لگا دی جاتی ۔۔۔
ہم لبرلز نے پانچ برس پہلے جو تحریک چلائی تھی کہ ملک میں موجود جتنے بھی مولوی ہیں انکو چن چن کر موت کے گھاٹ اتار دیا جائے ۔۔۔۔۔۔ ہو بہو ایسا ہی ہوا۔۔۔ لیکن ہمارے مطالبات محض اتنے تھے کہ انتشار پسند ملاؤں کو ختم کیا جائے ۔۔ہمیں مغربی دنیا اور نام نہاد متعصب رویوں والے مہابھاشن گیروں کی تعلیمات سے متاثر ہونے کا شدید عارضہ بھی لاحق تھا جسکا علاج کبھی دریافت کرنا گوارہ ہی نہ سمجھا گیا۔۔وہ بھی جانتے تھے ہم لکیر کے فقیر ہیں ۔۔۔ اسلیے انکا اوڑھنا بچھونا انسانیت کا پرچار تھا لیکن مقاصد کچھ اور تھے اللہ جانے وہ کیا مقاصد تھے۔۔۔خیر ہمیں ہر حال دنیا کے سامنے مہان بننا تھا۔۔۔ لحاظہ گونگے بہرے اندھے جیسی تقلید کے قائل تحریک کا حصہ بن گئے ۔۔۔۔
چن چن کر سب کو مارا گیا۔۔۔ کیا نیک "متقی "صالح "صلح جو امانتدار سچے صوفی درویش ویش لبرل سبھی مولویوں کو موت کے گھاٹ اتارا جانے لگا تھا ۔۔۔ ہم چونکہ محتاط تھے اور سوشل میڈیا پہ بھاشن گری کرنا ہمارا کام تھا اسلیے حکومت کی نظروں میں آنے سے ابھی تک محفوظ تھے ۔۔۔۔
میں نے اس زخمی شخص کو اٹھایا اور گھر کے سٹور روم میں کسی سامان کی گٹھری کی طرح پھینک دیا ۔۔۔۔۔ اور خود باہر ٹہلنے چلا گیا ۔۔۔۔ سکون تھا پل بھی میسر نہ تھا ۔۔۔ اس شخص کا کہنا پناہ پناہ پناہ ۔۔۔۔ مجھے پریشان کر رہا تھا ۔۔۔ دو گھنٹوں کے بعد میری واپسی ہوئی تو دیکھا زخمی شخص کو ہوش آ چکا تھا ۔۔۔۔
کون ہو تم " کدھر سے آئے ہو ۔ اور کہاں بھاگے جا رہے تھے ۔۔۔۔بتاتے ہو یا آرمی کو بلواؤں" ( میں نے سخت لہجے میں اس سے پوچھا)۔
مم ۔ میں ۔ میں ۔۔۔ مسلمان ہوں ۔۔۔۔(وہ بولا )
اس ملک میں سبھی مسلمان ہیں" تم ضرور کوئی دہشتگرد ہو ۔۔۔۔ اس بار سوال کرتے ہوئے میرا لہجہ مزید تلخ تھا۔۔
وہ سہما اور ڈرا ہوا تھا" بولا کہ نہیں بھائی میں دہشتگرد نہیں ہوں" ہاں قاتل ضرور ہوں ۔۔۔
دیکھا میں نے تمکو پہچان لیا تھا۔۔۔ دہشتگرد نہیں لیکن قاتل ضرور ہو۔۔۔
کس کو قتل کیا ۔۔ اور کیوں کیا ۔۔۔۔(میں نے اس سے پوچھا)..
وہ ۔ وہ ۔۔۔ کہتے ہوئے اس نے چیخیں مار کر رونا شروع کر دیا۔۔۔ایسا رویا ایسی گریہ زاری کی۔۔ کہ مجھ پہ رقت طاری ہو گیا ۔۔۔ وہ بولے جاتا تھا" کہ اس نے اپنے بیٹے" بیٹی" اپنی بیوی اپنی جنت اپنے جنت کے دروازے تک کو قتل کر دیا ۔۔۔۔ وہ روتا اور کہتا کہ مجھے اللہ کبھی نہیں بخشے گا ۔۔ مجھے اللہ کبھی نہیں بخشے گا ۔۔۔۔۔۔
میں چلایا مسلمان ہو کر ایسے کام کرتے ہو ۔۔۔ جانتے نہیں اسلام میں ایک قتل پوری انسانیت کا قتل ہے ۔۔ پھر تم نے پانچ پانچ قتل کیے ہیں ۔۔۔۔ اپنے سگے ماں باپ ۔ بیوی اور اولاد تک کو نہیں بخشا تم نے۔۔۔ تمہیں تو زندہ رہنے کا حق ہی حاصل نہیں ۔۔۔
پانی پانی ۔۔۔ وہ کراہ رہا تھا ۔۔۔
پانی کیا تمہیں تو تھوک بھی چاٹنے کو نہیں ملنی چاہیے ۔۔۔ جانتے ہو" اس ملک کی اور اس ملک کے مسلمانوں کے بدتر حالات تم جیسے لوگوں کی وجہ سے آج اس نوبت کو پہنچے ہیں ۔۔۔۔
وہ چلایا اور پھر سسکیاں بھرتے بھرتے بولا" ان سب کی خواہش تھی کہ وہ مسلمان مریں ۔۔۔۔
مسلمان مریں" یہ کیسی احمقانہ اور بے تکی بات ہے ۔۔۔۔ تمہارے مارنے سے وہ مسلمان مرے ۔۔
ہاں ہاں ۔۔۔ میں جھوٹ نہیں بول رہا ۔۔ انکو مسلمان مرنا تھا " میں نے انہی کے کہنے پہ ان سب کو قتل کیا ۔۔۔۔ وہ پھر سے چلایا ۔۔۔
میرا خیال ہے تم قتل کرنے کے بعد پاگل ہو گئے ہو ۔۔۔۔ میں نے غصے سے اس پہ طنز کیا ۔۔۔
حافظ قرآن تھے۔۔ سب کے سب عالم تھے کبھی مزہبی انتشار نہیں پھیلایا ہمیشہ صلح جوئی امن محبت کا پیغام دیا ۔۔ اتفاق اتحاد کا پیغام دیتے رہے۔۔یہاں تک کسی کے عقیدے پہ چوٹ کیے بن اپنے عقیدوں پہ قائم رہے اور نہ اپنا عقیدہ کبھی کسی پر زبردستی تھوپنے کی کوشش کی۔۔۔۔نہ کنورٹ ہوئے ۔۔
میرے گھر سے ہوتے ہوئے پورے گاؤں میں مزہبی تعصب کا نام و نشان تک نہ ملتا تھا ۔۔۔۔۔۔ میری امی اور میرے بچے شعیہ تھے۔۔ ابو سنی تھے ۔۔۔ میری بیوی وہابی تھی ۔۔۔۔ ایک میں ہوں جسکا کوئی فرقہ مسلک نہیں ۔۔۔۔ میں صرف مسلمان ہوں ۔۔۔۔ سب کے حقوق پوری طرح نبھائے ہیں ۔۔ کبھی لڑائی جھگڑا نہیں کیا نہ جھوٹ بولا نہ خیانت کی ۔۔۔۔۔ وہ بولے جاتا میں سنتا جاتا ۔۔۔ بولتے بولتے وہ پھر بہوش ہو گیا ۔۔۔
میں اسکی باتیں سن کر تزبزب میں تھا ۔۔۔ اسے دو گولیاں بھی لگی ہوئیں تھیں ۔۔ خوف ڈر بھی تھا کہ دہشتگرد نکلا تو میری بھی ساتھ میں جان جائے گی ۔۔۔۔ اسکا رونا چیخنا چلانا اور سسکیاں لینا بار بار مجھے پتھر سے موم کیے جاتا ۔۔۔۔ آخر کار میں جیسا بھی سہی ‛" لیکن میں انسان تھا ۔۔۔ پھر میرے دل کے اندر دور کسی کونے میں ایک مسلمان بھی چھپا بیٹھا تھا ۔۔۔۔ ایسا مسلمان جس کے دل میں فطرتا مسلمان کے لیے ہمدردی پائی جاتی ہے۔۔۔۔۔۔ کافی سوچ بچار کرنے کے بعد بالاخر میں فیصلہ کیا کہ اسکی پوری بات سن لوں ۔۔۔ کیوں اور کس لیے اتنے جنازوں کا گناہ اس نے اپنے سر لیا۔۔۔۔
رات کے کوئی دس بج رہے تھے ۔۔۔ وہ پھر کراہ رہا تھا۔۔۔۔۔ پانی پانی ۔۔
میں نے دوڑ کے بیسن کے نل سے پانی کا گلاس بھرا اور اسکے منہ کو لگایا ۔۔۔ پورا گلاس وہ یوں غڑپ گیا جیسے سالوں سے پیاسا ہو ۔۔۔۔ میں نے پوچھا اور دوں ۔۔۔
اس نے اثبات میں سر ہلایا ۔۔۔ ہاں ۔۔۔۔۔ دوسرا گلاس پینے کے بعد وہ بولا" بس اور نہیں ۔۔۔
میں نے پوچھا کچھ کھاؤ گے ۔۔۔۔۔ اس نے نفی میں سر سے اشارہ کیا نہیں ۔۔۔۔۔
اب اسکی حالت پہلے سے قدرے بہتر تھی ۔۔۔ میں نے بات کو پھر شروع کیا کہ دیکھ تو قاتل ہے ۔۔۔ سزا ملنی چاہیے تمہیں ۔۔۔ میں تمکو فوج کے حوالے کر سکتا تھا ۔۔۔ مگر نہیں کیا ۔۔ مجھے جاننا تھا کہ اپنے خاندان کا قتل کیوں ۔۔۔۔۔۔ جب سبھی معاملات ٹھیک تھے ۔۔۔
اس نے پھر رونا شروع کر دیا ۔۔۔ میں نے کہا رونا بند کرو اور بتاؤ ۔۔
ہاں وہ مسلمان مرنا چاہتے تھے ۔۔۔ سپر پاور اور نیٹو فورسسز ہمارے چاروں اطراف آ پہنچی ہیں ۔۔۔ انکا مطالبہ تھا کہ اس ملک میں موجود جو مسلمان ہیں وہ مسلمان کہلوانا چھوڑ دیں۔۔۔۔۔۔کیونکہ سبھی مسلمان دہشتگرد ہیں ۔۔۔ کبھی نماز روزہ حج زکوت کلمہ نہ پڑھیں ۔۔۔۔ رہا مزہب اسلام تو وہ سلامتی کا مزہب ہے ۔۔ سب کا سانجھا ہے ۔۔۔۔۔ یہاں سرکاری مزہب اسلام ہے مگر اس ملک کے سارے مسلمان دہشتگرد ہیں۔۔۔۔ انسانیت کے قاتل ہیں۔۔۔ لحاظہ مسلمانوں کا خاتمہ ضروری ہے۔۔۔
صاحب میرے خاندان نے کبھی سوئی چبھنے تک کی تکلیف برداشت نہیں کی ۔۔۔ مجھے ہاتھ جوڑ کر انہوں نے رو رو منتیں کیں قسمیں واسطے دیئے کہ ہم تاب نہ لا سکیں گے ۔۔۔ مارے ظلم کے جبر کے بربریت کے ۔۔ ہمیں کافر مرتد ہو جانا منظور نہیں۔۔۔ اور نہ گولیوں کا نشانہ بننا منظور ہے ۔۔ گولیوں بمبوں سے چیتھڑے اڑیں ہمارے" ہمیں بہت خوف آتا ہے۔۔۔۔بہتر ہے ہمیں زہر دے کر مار دو ۔۔۔
میں نے انکو زہر دے کر مار دیا ۔۔۔ پھر میں خود مرنا چاہتا تھا لیکن خود کیسے زہر پیتا جبکہ اسلام میں خودکشی حرام ہے ۔۔۔ گھر والوں کو بھی کافر کیوں ہونے دیتا ۔۔۔۔ ان کے چیتھڑے کیوں اڑنے دیتا ۔۔ ساری زندگی اس ملک میں یہی کھیل کھیلا جاتا رہا ۔۔۔ کم از کم اب انکے مکمل جسموں کو مٹی میں دفن کرنے کی تسلی تو ہے مجھے ۔۔۔۔میں جانتا ہوں میں دوزخ میں جاؤں گا ۔۔۔ قتل جو کیے میں نے۔۔۔۔
وہ ہنسا اور زور سے ہنسا ۔۔۔ دوزخ دوزخ ۔۔۔ یہاں بھی اور وہاں بھی ۔۔ تنگی ۔۔ تنگی ۔۔ جبر جبر ۔ ظلم ظلم ۔۔ دونوں جہانوں میں مسلمان کا نصیب ۔۔۔۔۔ ہاہاہا ۔۔ ہاہاہا ۔۔ ہاہاہا ۔۔ وہ ہنستا روتا رہا ۔۔۔ میں اسے تکتا رہا ۔۔۔
میرے دماغ کا میٹر اچانک سے گھوما ۔۔۔ اور بھرپور غصے سے اس بار چلا کر کہا " تم ایسی حالت میں مزاق کر رہے ہو ۔۔ تمہیں شرم نہیں آتی ۔۔۔۔ میں مانتا ہوں ۔۔ عارضی طور پر آذان مساجد بند ہیں ۔۔ خانقاہیں بارگاہیں گرائی گئی ہیں ۔۔۔ لیکن دوبارہ بحال ہونگی یہ سب عالمی حالات کے تناظر اور دباؤ میں کیا گیا ہے ۔۔۔۔پھر مسلمانوں کے چالیس سے زیادہ ممالک ہیں ۔۔ ہمارے ساتھ ایسا کیوں ہونے دیں گے ۔۔۔ رہی بات فرقے مسلکوں کی کتابوں کی" میں کیا تم بھی تو مخالف ہو ۔۔۔۔ ہم صرف مسلمان ہیں ۔۔۔اور مسلمان کے بن اس ملک کا اسلام کیسا ۔۔۔
ایسے وقت میں تم ٹھٹھہ مزاق اور جھوٹ بولے جا رہے ہو ۔۔۔ میں اٹھا اور غصے سے اسے زور کا تھپڑ رسید کیا۔۔۔۔ تھپڑ کی تاب نہ لاتے ہوئے وہ زمین پر گرا ۔۔۔۔ نیچے گرے ہوئے کانپتے لبوں سے بولا صاحب ٹی وی چلاو ۔۔۔۔۔
ٹی وی چلایا تو ویسی خبریں پائیں ۔۔۔۔ مسلمان نہیں صرف اسلام ۔۔ کیونکہ اسلام سب کا سانجھا ۔۔۔۔ اس ملک کے مسلمان کو اب ملے گا چارپائی کا کاندھا ۔۔۔۔۔ ایسی خبریں سنتے ہی میرے پاؤں کے نیچے سے زمین سرک گئی ۔۔۔ میں پھوٹ پھوٹ کر رویا ۔۔۔۔۔ ہم ایک دوسرے کو تسلیاں دے رہے تھے ۔۔۔۔ہم نے سنا باہر سے آوازیں آ رہیں تھیں ہاں صاحب یہی گھر ہے ۔۔۔۔
پھر اچانک سے دروازہ چیرتی ہوئیں گولیاں ہمارے سینے چھلنی کرتے ہوئے سینے میں کب پیوست ہوئیں ہمیں پتا ہی نہ چلا ۔۔۔
نہ ہم ایک دوسرے کو الوداع کہہ سکے نہ ہم نے مزحمت کی ۔۔۔ کیونکہ ہمارا قصور اتنا تھا کہ ہم اس ملک کے مسلمان تھے جسکے خلاف آج پورا عالم اور اسلام کھڑا تھا۔۔۔۔
ٹی وی پر بریکنگ نیوز جاری تھیں ۔۔۔۔ پاک زمین ملک میں آج اسلام کی جیت ہوئی اور مسلمانوں کی ہار ۔۔۔۔۔ دنیا کا ہر فرد بے فکر رہے کیونکہ اب پوری دنیا میں دہشتگردی نہیں ہوا کرے گی۔۔۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...