تقطیع کی تعریف
تقطیع عربی لفظ قطع سے مشتق ہے جس کا لفظی معنی ہے ٹکڑے ٹکڑے کرنا
علمِ عروض کی اصطلاح میں "شعر کا وزن معلوم کرنا اور اسے وزن کے مطابق ٹکرے ٹکرے کرنا" تقطیع کہلاتا ہےـ
شعر کو بار بار پڑھنے سے اس کا آہنگ ذہن نشیں ہو جاتا ہے پھر اس کے مطابق اس کا وزن اور بحر تلاس کر لی جاتی ہے اور اس کے مطابق شعر کی تقطیع کر لی جاتی ہے ـ ابتدا میں مبتدی کو تقطیع کرنے میں وقت پیش آتی ہے مگر مشق اور ریاضت کے بعد تقطیع آسان ہو جاتی ہے ـ تقطیع میں شعر کے اس طرح ٹکرے ٹکرے کئے جاتے ہیں کہ ہر ٹکرا کسی رکن کے ہم وزن ہو جاتا ہے ـ وزن دو کلموں کی تعداد حرکات و سکون میں مساوی ہونے کا نام ہے، حرکت میں مطابقت کے معنی یہ نہیں کہ اگر رکن میں کسی حرف پر ضمّہ ہے تو شعر میں بھی اس رکن کے ہم وزن لفظ ضمّہ ہی ہو بلکہ ہمیں یہ سمجھنا چاہئے کہ مختلف حرکات زبر ، زیر اور پیش (فتحہ، کسرہ، ضمّہ) کی علامتیں ہوں یعنی متحرک کی جگہ پر متحرک اور ساکن کی جگہ پر ساکن ، تقطیع کی غایت یہ ہے کہ اشعار کو متوازن ٹکروں میں تقسیم کرکے دیکھا جائےکہ شعری آہنگ اور ترنم میں کوئی کمی تو نہیں تاکہ شعر کے حسن و قبح کا اندازہ ہو سکے ـ
—————++–**
تقطیع کے اصول
@ 1. جن الفاظ کی تحریری صورت(املا) اور ان کے تلفظ میں فرق ہوتا ہے ایسے الفاظ کو تقطیع کے دوران ہمیشہ تلفظ کے مطابق ہی محسوب کیا جاتا ہے ـ مثلاً
(الف) خوش، خود اور خواب جیسے الفاظ ہمیشہ خش خد اور خاب کے برابر شمار ہونگے ـ
(ب) بالکل اور بالترتیب جیسے الفاظ ہمیشہ بل کل اور بت ترتیب کے برابر شمار ہونگے ـ
@ 2 . ایسے الفاظ جن کا تلفظ ایک سے زیاد طرح سے رائج ہے، تقطیع کے دوران ان کا کوئی بھی تلفظ وزن کے مطابق شمار کیا جا سکتا ہے ـ مثلاً
(الف) آئینہ کا تلفظ .آئی نا، آئی ن، آءِنا تینوں طرح سے درست ہوگا ـ
(ب) کوئی کا تلفظ کوءِ ، کوئی، کئی تینوں طرح سے درست ہوگا ـ
(ج) میرے، تیرے، میرا تیرا اور مرے، ترے، مرا ترا دونوں طرح سے درست ہیں ـ
(د) طرح کا تلفظ ر کے سکون سے اور زبر کے ساتھ دونوں صورتوں میں درست ہوگا یعنی طرْح بروزن فاع اور طرَح بروزن فَعَل
(ہ) اور کو اس کے عام تلفظ کے علاوہ ار کے برابر شمار کرنا بھی درست ہوگا یعنی فاع کے بجائے فع
@ 3. نون غنّہ (ں) ، دو چشمی (ھ) اور یائے مخلوط (ی) تقطیع کے دوران کبھی شمار نہیں کئے جاتے ہیں کیونکہ یہ کسی آواز کی نمائندگی نہیں کرتے ہیں بلکہ جس حرف کے بعد آتے ہیں اس کی آواز کو موڈیفائی کرتے ہیں ـ مثلاً
(الف) چاند، حسیں اور کہوں جیسے الفاظ کا وزن بالترتیب چاد، حسی اور کہو کے برابر شمار کیا جائے گا ـ
(ب) پھول ، جھولا اور ہاتھ جیسے الفاظ کا وزن بالترتیب پول ، جولا اور ہات کے برابر شمار کیا جائے گا ـ
(ج) پیار ،کیوں اور کیا (استفہامیہ) جیسے الفاظ کو بالترتیب پار ،کو اور کا کے برابر شمار کیا جائے گا ـ
@ 4. جب دو الفاظ کے درمیان کسرہء اضافت ہو تو اسے دو طرح سے پڑھا جا سکتا ہے یعنی یہ بھی ممکن ہے کہ اس اضافت کو اختصار (چھوٹا) کرکے پڑھیں اور یہ بھی ممکن ہے کہ اسے اشباع (کھیچ کر) کے ساتھ پڑھیں ـ مثلاً
گلِ تر کو پہلی صورت میں گُ لِ تر پڑھ سکتے ہیں اور دوسری صورت میں گُلے تر پڑھا جا سکتا ہے یہ دونوں درست ہیں ـ
@5. بالکل اسی طرح اگر دو الفاظ کے درمیان واؤ عطف(و) ہے تو اسے چھوٹا کرکے بھی پڑھا جا سکتا ہے اور طول دے کر بھی ـ مثلاً
دل و جاں کو پہلی صورت میں دلُ جاں پڑھ سکتے ہیں اور دوسری صورت میں دلو جاں پڑھا جاسکتا ہے یہ دونوں درست ہیں ـ
@6. ایسے الفاظ جن کے آخر میں ہائے مختفی (ہ) صرف حرفِ ماقبل کی حرکت کو ظاہر کرنے کے لئے آتی ہے اس ہائے مختفی کا شمار نہ کرنا بہتر ہے اگر چہ شعراء نے اسے کبھی کبھی شمار بھی کیا ہے ـ مثلاً
کہ، نہ، یہ، وہ، پہ وغیرہ کو بالترتیب کِ، نَ، یِ، وُ، پَ کو وزن پر باندھنا بہتر ہےلیکن ایک سبب خفیف کے برابر بھی باندھنا درست ہےـ
@7. الف سے شروع ہونے والے الفاظ کا الف کبھی کبھی اپنے ماقبل لفظ کے آخری ساکن کے ساتھ ضم ہوکر اسے متحرک کر دیتا ہے ـ مثلاً
(الف) کب آؤ گے کو کباؤ گے بھی پڑھا جا سکتا ہے ـ
(ب) تم اے لوگو کو تُ مَے لوگو بھی پڑھ سکتے ہیں ـ اگر چہ الف کی طرح ع اور ہ کا وصل بھی ممکن ہے اور میں شعراء کے یہاں اس کی مثالیں بھی موجود ہیں لیکن ہمارے روایتی عروض کی رو سے یہ درست نہیں اور ایسے اشعار کو جن میں ع یا ہ کا وصل حرف ما قبل کے ساتھ ہو جاتا ہے ناموزوں قرار دیا جاتا ہے ـ
@8. ایسے الفاظ جن کے آخر میں کوئی لمبا مصّوتہ ہے ( اگر وہ عربی یا فارسی اصل کے نہیں ہیں ) تو اسے حسب ضرورت چھوٹا کیا جا سکتا ہے ـ مثلاً
(الف) ایسا کو اَے سَ کے برابر شمار کیا جاسکتا ہے ـ
(ب) کہاں کو کَ ہَ کے برابر شمار کیا جاسکتا ہے ـ
(ج) چلی کو چَلِ کے برابر شمار کیا جاسکتا ہے ـ
(د) نہیں کو نَ ہِ کے برابر شمار کیا جاسکتا ہے ـ
(ہ) میرے کو مے رِ کے برابر شمار کیا جاسکتا ہے ـ
( و) میں کو مِِ کے برابر شمار کیا جاسکتا ہے ـ
( ز) کہو کو کَ ہُ کے برابر شمار کیا جاسکتا ہے ـ
( ح) سہوں کو سَ ہُ کے برابر شمار کیا جاسکتا ہے ـ
اگر چہ عربی فارسی اصل کی یہ پابندی بےجا ہے اور بڑے بڑے شاعروں نے بھی اس کی خلاف ورزی کی ہے ـ
@9. ایسے الفاظ جن کے شروع میں مصمّتی خوشہ ہوتا ہےاس خوشے کو ایک حرف کے برابر ہی شمار کیا جاتا ہے ـ مثلاً
کرشن، پریم ، پریت ، پلیٹ، بلیک اور وہائٹ جیسے الفاظ کا وزن بالترتیب کشْن، پشیم ، پیت ، پیٹ، بیک اور وائٹ کے برابر شمار کیا جائے گا ـ
@10 . ایسے الفاظ جن کے آخر میں مصمّتی خوشہ اور اس سے پہلے کوئی لمبا مصّوتہ ہو تو اس مصمّتی خوشے کو ایک حرف کے برابر شمار کیا جائے گا ـ مثلاً
(الف) زیست میں ست کو س کے برابر شمار کیا جائے گا ـ
(ب) کاشت میں شت کو ش کے برابر شمار کیا جائے گا ـ
(ج) یافت میں فت کو ف کے برابر شمار کیا جائے گا ـ
(د) ساخت میں خت کو خ کے برابر شمار کیا جائے گا ـ
————-
حقیقی تقطیع اور غیر حقیقی تقطیع :-
حقیقی تقطیع:- کسی بھی بحر کے جائز آہنگ اور وزن کے مطابق درست ارکان کےمقابل شعر کی عبارت کوحسب ضرورت ٹکرے کرکےجو تقطیع کی جاتی ہے اسے حقیقی تقطیع کہتے ہیں ـ
غیر حقیقی تقطیع :- ایسے اوزان سے تقطیع کی جائے جو کسی بحر میں نہیں تو اسے غیر حقیقی تقطیع کہتے ہیں ـ جیسے
ایک مصرع ملاحظہ فرمائیں
مصرع: –
دل سے تری نگاہ جگر تک اتر گئی
تقطیع:-
دل سے ت/ری ن گاہ/ جگر تک اُ /تر گئی
ارکان:- مفعولُ /فاعلاتُ/ مفاعیلُ / فاعلن
بحرِ مزاحف:- بحرِ مضارع مثمن مکفوف محذوف
یہ بحر کے درست آہنگ اور صححیح وزن کے ارکان کے مقابل مصرع کی عبارت سے صحیح تقطیع ہوئی اس لئے یہ حقیقی تقطیع ہے ـ
اور اسے پھر سے دیکھیں
مصرع:-
دل سے تری نگاہ جگر تک اتر گئی
تقطیع:-
دل سے/ تری نگا/ ہ جگر تک/ اتر گئی
ارکان:- فعلن/ مفاعلن/ فعلاتن / مفاعلن
مذکورہ تقطیع کی کیفیت کسی جائز بحر کے مقررہ ارکان کے عین مطابق نہیں ہے یعنی یہ ارکان کسی بھی جائز بحر کے کسی آہنگ اور اوزان میں موجود نہیں اس لئے یہ غیر حقیقی تقطیع ہے ـ