وہ اسکی ٹانگوں پر چابک برساتے تھے اور سفید گھوڑا الف ہوجاتا تھا۔
سوار نے رکابوں کو گھما کر سیدھا کرتے ہوئے اٹھایا اور کاٹھی میں اڑس لیا۔
جب گھوڑا دلکی چال چلا تو اسی کی پچھلی ٹانگوں کے بیچ لٹکی ہوئی بھری بھری نیلی تھیلی آگے پیچھے جھولنے لگی۔ اکھاڑے کے چھوکرے اس کی پچھلی ٹانگوں پر مسلسل چھڑیاں برسارہے تھے۔
پھر وہ تن کر کھڑا ہوگیا۔ ایک چھوکرے نے اس کی لگام تھامی اور کھینچا ہوا آگے لے گیا۔ سوار نے ایر لگائی، آگے جھکا اور خونخوار بیل کے سامنے اپنا نیزہ لہرایا۔ گھوڑے کی اگلی ٹانگوں کے درمیان سے خون جاری تھا۔ وہ پریشان حال ڈگمگا رہا تھا اور بیل اس پر حملہ کرنے کے لئے کسی طور پر آمادہ نہ ہوتا تھا۔
~~~~~
ہوٹل میں صرف دو ہی امریکی باشندے ٹھہرے ہوئے تھے۔
کمرے سے لے کر سیڑھیوں کے راستے تک ان کی کسی سے شناسائی نہ تھی۔
دوسری منزل پر ان کا کمرہ، سمندر کے رخ پر تھا۔ اس کے سامنے باغ عامہ اور جنگ کی یاد گار نصب تھی۔ باغ میں اونچے تاڑ کے درخت اور ہرے رنگ کی نشستیں تھیں۔ خوشگوار موسم میں وہاں اکثر ایک نہ ایک مصور اپنی ایزل کے ساتھ نظر آتا۔
مصوروں کو تاڑ کے درمیانی راستے اور سمندر کے رُخ پر، باغ کے سامنے ایستادہ ہوٹل کے نکھرے ہوئے رنگ پسند تھے۔
اطالوی باشندے دور دراز سے جنگ کی اس یادگار کو دیکھنے آتے۔ کانسی سے بنی ہوئی یہ یادگار بارش میں لٹکتی تھی۔
بارش ہورہی تھی۔
بارش کے قطرے تاڑ کے درختوں سے ہوتے ہوئے نیچے گررہے تھے، پتھریلی روشوں کے گڑھوں میں پانی ٹھہر گیا تھا۔
بارش میں، سمندر کی لہریں ایک لمبی لکیر بنا کر ساحل سے ٹکراتی تھیں اور ایک بار پھر ، لکیر کی صورت، ساحل تک آنے کے لئے واپس ہوجاتی تھیں۔ جنگی یادگار کے قریب چور رستے میں کھڑی ہوئی موٹریں اب غائب ہوچکی تھیں۔
چوک کے اس پار، کیفے کے دروازے میں کھڑا ہوا ایک بیرا، ویران چوررستے کو دیکھ رہا تھا۔
امریکن کی بیوی کھڑکی کے پاس کھڑی، باہر کا نظارہ کررہی تھی، باہر عین ان کی کھڑکی کے نیچے ایک بلی دوہری ہوکر ٹپکتی ہوئی ہرے رنگ کی میز تلے دبکی ہوئی تھی اس کی پوری کوشش تھی کہ سمٹ کر بھیگنے سے بچ جائے۔
"میں نیچے جاکر اس بلی کو لاتی ہوں۔" لڑکی نے کہا۔
"میں چلا جاتا ہوں۔" خاوند نے بستر پر لیٹے لیٹے اپنی خدمات پیش کیں۔
"نہیں، میں لے آؤں گا، بیچاری پانی سے بچنے کے لئے میز تلے بیٹھی ہے۔"
خاوند نے مطالعہ جاری رکھا۔ وہ دو تکیوں کا سہارا لیے پائینتی کی طرف لیٹا تھا۔
"بھیگ نہ جانا۔" اس نے کہا۔
اس کی بیوی سیڑھیاں اترتی چلی گئی۔ جب وہ استقبالیہ کے قریب سے گزری تو ہوٹل کا مالک اُٹھ کھڑا ہوا اور اس کی جانب احترام سے جھکا، اس کی نشست کمرے کے دوسرے سرے پر تھی۔ وہ بہت اونچے قد کا بوڑھا آدمی تھا۔
"مزاج کیسے ہیں؟" لڑکی نے کہا وہ اسے اچھا لگتا تھا۔
"ما – ما – مادام مہربانی! بہت خراب موسم ہے۔"
وہ میز کے پیچے کھڑا تھا جو نیم روشن کمرے کے کونے میں تھی، وہ اسے اچھا لگتا تھا خاص طور پر اس کی انتہا کی سنجیدگی۔۔۔ جب وہ شکایات سنتا تھا، اسے وہ انداز پسند تھا، جب وہ کسی قسم کی خدمت بجا لاتا تھا۔ ہوٹل کا مالک ہونے کے ناتے اس کے احساسات کی وہ قدردان تھی، وہ اس کے بوڑھے بھاری چہرے اور بڑے بڑے ہاتھوں کو پسند کرتی تھی۔
محبت میں سرشار، اس نے دروازہ کھولا اور باہر دیکھا اب بارش اور تیز ہوگئی تھی ایک آدمی ربڑ کی برساتی اوڑھے سنسان چوراہے سے ہوکر کیفے کی طرف آرہا تھا۔
بلی داہنی طرف ہوگئی۔ شاید وہ چھجے کے نیچے سے ہوتی ہوئی گزر سکے۔ اس نے سوچا۔ وہ دروازے میں کھڑکی ہی تھی کہ ایک چھتری اس کے عین پیچھے کھلی۔ یہ وہی خادمہ تھی، جو ان کے کمرے کی دیکھ بھال کیا کرتی تھی۔
"بارش میں بھیگ نہ جائیے گا۔" وہ اطالوی زبان بولتے ہوئی مسکرائی، یقیناً اسے ہوٹل کے مالک نے ہی بھیجا ہوگا۔
خادمہ کے ساتھ جس نے چھتری تھام رکھی تھی، وہ کنکریوں سے بنی روش پر چلتی رہی تا وقت یہ کہ اپنی کھڑکی تلے نہ پہنچ گئی۔ میز وہیں رکھی تھی بارش سے دھلی نکھری ہوئی سبز سبز لیکن بلی جاچکی تھی۔ اسے شدید مایوسی ہوئی۔
خادمہ نے اس کی طرف دیکھا، "کیا بات ہے مادام"
"یہاں ایک بلی تھی۔" امریکی لڑکی۔ جواب دیا۔
"بلی؟"
"ہاں۔۔۔ ایک بلی۔"
"بلی۔" ملازمہ ہنس دی۔
بارش میں گھری ہوئی بلی۔"
"جی۔" اس نے کہا۔
"میز کے نیچے تھی، پھر وہ ۔۔۔۔۔۔ وہ مجھے چاہیے تھی۔" وہ جب انگریزی میں بات کرتی تو خادمہ کا چہرہ بھینچ جاتا۔
"آئیے مادام ۔۔۔۔۔ " وہ بولی ۔ "ہمیں اب اندر جانا چاہیے۔ آپ بھیگ جائیں گی۔"
"واقعی" لڑکی نے جواب میں کہا۔
وہ کنکریوں والا راستہ طے کرتی دروازے میں سے گزر گئیں۔ خادمہ چھتری سمیٹنے کی خاطر باہر ہی رک گئی۔ جب وہ استقبالیہ کے سامنے سے گزری تو ہوٹل کا اطالوی مالک اپنی نشست سے جھکا، لڑکی کو اندر ہی اندر بہت چھوٹی لیکن تنی ہوئی کوئی چیز محسوس ہوئی۔
ہوٹل والے نے اسے احساس دلایا کہ وہ بہت ننھی سہی، لیکن ساتھ ہی بہت اہم ہے اسے لمحاتی طور پر اپنا آپ انتہائی اہم محسوس ہوا۔
وہ سیڑھیاں چڑھ گئی۔ اس نے دروازہ بند کیا۔ جارج بستر پر اسی طرح مطالعہ کررہا تھا۔ "بلی مل گئی؟"
اس نے کتاب رکھتے ہوئے پوچھا۔
"وہ جاچکی تھی۔"
"حیرت ہے کہاں چلی گئی؟" اس نے آنکھوں کو آرام دیتے ہوئے پوچھا۔ وہ بستر پر بیٹھ گئی۔
"کتنی خواہش تھی مجھے اس کی۔" اس نے کہا۔
میں خود نہیں جانتی، میں نے ایسا کیوں چاہا۔ میں اس بے چاری کو لانا چاہتی تھی۔ بلی کے لئے باہر بارش میں ہونا کوئی مذاق نہیں ہے۔"
جارج پھر کتاب پڑھنے لگا۔
وہ اُٹھ کر چلتی ہوئی سنگار میز کے آئینے کے ساتھ بیٹھ گئی۔ وہ دستی آئینے میں اپنے آپ کو دیکھ رہی تھی۔
اس نے اپنے چہرے کے خطوط کا مشاہد ہ کیا، پہلے ایک طرف سے پھر دوسری طرف سے پھر اس نے اپنے سر، پشت اور گردن کا جائزہ لیا۔
"کیا خیال ہے، کیا یہ اچھی بات ہوگی کہ میں اپنے بالوں کو بڑھنے دوں؟"
ایک بار پھر۔۔۔۔ اپنے خدوخال کا جائزہ لیتے ہوئے اس نے کہا۔ جارج نے نگاہیں اٹھائیں اور اس کی گردن کے پچھلے حصے کی طرف نظر کی بال لڑکوں کی طرح کٹے ہوئے تھے۔
"میں اسی طرح پسند کرتا ہوں، جیسے اب ہیں"
"میں ان سے اکتا گئی ہوں۔" وہ بولی میں لڑکوں کی سی چھب سے اکتا گئی ہوں۔"
جارج نے بستر پر کروٹ لی۔
جب سے لڑکی نے بولنا شروع کیا۔ جارج کی نگاہیں اسی پر جمی ہوئی تھیں۔
"تم خوب صورت دکھائی دیتی ہو۔ بہت عمدہ۔" وہ بولا۔
اس نے آئینہ سنگھار میز پر رکھا اور کھڑکی کی طرف گئی۔ باہر نگاہ کی اب اندھیرا بڑھ رہا تھا۔
"میں چاہتی ہوں کہ اپنے بال خوب کس کر پیچھے کی طرف ہموار کروں۔ اور پشت پر ایک بڑا سا جُوڑا بناؤں۔ جسے محسوس بھی کرسکوں۔" وہ بولی۔
"میں چاہتی ہوں کہ ایک بلی ہو، جو میرے رانو پر بیٹھے اور جب میں اسے سہلاؤں تو آہستہ آہستہ خر، خر بولے۔"
"ہوں" بستر میں جارج نے جواب دیا۔
"اور۔۔۔۔ میں چاہتی ہوں کہ میز پر اپنے چاندی کے چھری کانٹے سے کھانا کھاؤں اور مجھے موم بتیاں چاہیں، اور میں چاہتی ہوں کہ بہار کا موسم ہو اور میں آئینے کے سامنے بالوں میں کنگھی کروں۔۔۔۔۔۔ اور ایک بلی چاہیئے اور کچھ نئے کپڑے۔"
"اوہ ۔۔۔۔۔ بس کرو اور پڑھنے کے لئے کوئی چیز لے لو۔" جارج بولا۔ وہ پھر پڑھنے میں جٹ گیا تھا۔
اس کی بیوی کھڑکی سے باہر دیکھ رہی تھی۔ اب مکمل اندھیرا چھا چکا تھا۔ اور ابھی تک تاڑ کے درختوں میں بارش ہورہی تھی۔
"مجھے ایک بلی چاہیئے اور ابھی چاہیئے، اگر میرے بال لمبے نہیں ہیں، یا کوئی دلچسپی نہیں ہے تو بلی تو لے ہی سکتی ہوں۔"
جارج سنی ان سنی کررہا تھا۔ وہ اپنی کتاب پڑھ رہا تھا۔
لڑکی نے کھڑکی میں سے اس طرف دیکھا جہاں چورستے میں روشنی ہوگئی تھی کسی نے دروازے پر دستک دی۔
"چلے آؤ" جارج پکارا۔
اس نے کتاب سے نظریں اٹھا کر دیکھا، دروازے پر خادمہ کھڑی تھی ، وہ کچھوے کی پشت جیسی رنگت کی بہت بڑی بلی تھامے ہوئے تھی۔ جو سختی سے اس کے ساتھ چمٹی ہوئی آدھی نیچے لٹک رہی تھی۔
معاف کیجیئے گا۔ مالک نے مجھ سے کہا ہے کہ یہ مادام تک پہنچاؤں۔
Original Title: The Cat in the rain
Written by:
Ernest Hemingway (July 21, 1899 – July 2, 1961)
-an American novelist, short story writer, and journalist.
– Winner of Pulitzer Prize for Fiction (1953).
– Winner of Nobel Prize in Literature (1954)
***
عالمی ادب کے اردو تراجم (انتخاب افسانہ)
افسانہ نمبر59 : بارش میں بلی
تحریر: ارنسٹ ھیمنگوے (امریکہ)
مترجم: ڈاکٹر مرزا حامد بیگ