عزت مآب جناب آصف علی زرداری کی پبلک رپیوٹیشن اتنی کمزور تھی کہ جب بی بی کی وفات ہوئی تو لوگوں کے ذہن و گمان میں بھی نا تھا کہ اب یہ انقلابی پارٹی ایک نیا انقلاب دیکھنے اور دکھانے جارہی ہے جس کی باگ دوڑ ایک ایسے شخص کے ہاتھ میں ہوگی جس کو محترمہ کی سابقہ دونوں حکومتوں کے گرنے کی وجہ بھی سمجھا جاتا ہے۔
گرو اس بات کو بخوبی جانتا اور سمجھتا تھا کہ الیکشن سے پہلے ہر گز کوئی پلان نا بتایا جائے کہ بی بی کا زخم ابھی ہرا ہے اور اسی ہرے پر ہی پی پی ووٹ لے گی۔ گرو نے اعلان کردیا کہ میں الیکشن نہیں لڑونگا چئیرمین بلاول ہوگا اور چونکہ ابھی بچہ ہے اس لئے کئیر ٹیکر کے طور پر جز وقتی سربراہ میں بن جاتا ہوں۔ بات بھی معقول تھی کہ بھٹو کی سیاسی وراثت غیر بھٹو کے ہاتھ نہیں جائے گی اور بلاول ہی لیڈر ہوگا۔ الیکشن ہوئے تو گیلانی کو وزیر اعظم چنا گیا۔ ملکی نظام پارٹی لیڈروں کے ہاتھ آیا تو واہ واہ ہوئی کہ پارٹی نے پرانے ورکرز کو اہمیت دی۔ گرو کی قابلیت اور انصاف کے سب قائل ہوگئے۔ صدارتی انتخاب آیا تو گرو نے اپنی خدمات پیش کر دیں کہ اب خود دل پر ہاتھ کر بتاؤ کہ میں اس عہدے کا اہل ہوں یا نہیں۔
یہ خبر میاں کو ملی تو خوشی ہوئی کہ چلو یہ تجربہ بھی کر گزرتے ہیں کہ ایک ایسا شخص جو خود اپنے لئے اتنی بہتر پلاننگ کر سکتا ہے اگر صدر بن جائے تو ہوسکتا ہے اپنی اس گھائگی کو ملک کے لئے بھی استعمال کرے اور ملک چل نکلے یعنی کبھی امریکہ کو چکر دے، کبھی انڈیا کو اور کبھی انٹروپول کو۔ گرو وصیت کے عین مطابق پارٹی اور ملک کی باگ دوڑ سنبھال چکا تھا اور کسی کو شک تک نہیں ہوا کہ بھائی کی گیم کب شروع ہوئی۔
پانچ سال پورے کرکے گرو نیچے اترا تو سی پیک سائن کر آیا جس کا رولا نون والے ڈالتے ہیں۔ آخری ہفتے میں ایران سے پائپ لائن افتتاح بھی کروا دیا کہ بعد میں آنے والے بھگتیں گے کہ اگلے پانچ سال تو نون لیگ کے ہی ہیں۔ نون کو سی پیک راس آگیا لیکن ایرانی پائپ لائن آگے نا بڑھ سکی۔
اس سیاسمینگی کو چند لوگ ہی سمجھ سکے۔
پی ڈی ایم کے سربراہ کو گرو نے جہاں سٹ ماری ہے وہ اب نا کھرک سکتا ہے اور نا ہی برداشت کر سکتا ہے کہ ابھی چند گھنٹے پہلے تک سب ایک منجی پر تھے اور اچانک گرو کو ایک ضروری کام یاد آگیا۔
گرو کی قابلیت کا اندازہ اس سے لگا لیں کہ استعفے دینا ان کی سندھ حکومت کو بھی چلتا کرتا اور موجودہ باجوہ پی ٹی آئی سیٹ اپ کے ہوتے ہوئے کوئی حقیقی تبدیلی نا ممکن ہے ۔ انتظار بہتر ہے جیسا کہ جنرل راحیل شریف کی رخصتی کے فورا بعد میاں نوازشریف کے جانے کے اسباب خودبخود بن گئے تھے۔ مولانا کو اقتدار سے دور گئے تین سال ہو چلے اور نون لیگ پر کیسز تھمنے کی بجائے مزید بڑھ رہے ہیں اور سوہنا این آر او نہیں دونگا گا گا کر روزانہ ڈراتا ہے۔ سکون میں صرف گرو ہے جو اس کو غارت کرنا عقلمندی نہیں سمجھتا۔ اپوزیشن میں ہے تو سب کے ساتھ بیٹھنا بھی ہے۔
گرو کا پلان انتہائی سادہ ہے کہ خود پر بات آنے ہی نا دو۔ سب سے یہ پوچھو کہ میاں لندن میں کیوں ہے اور مولانا جمہوری طریقے سے حکومت کا خاتمہ کیوں نہیں چاہتے۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...