ملک معراج خالد پاکستان کے سیاست دان اور عبوری دور میں نگران وزیر اعظم تھے۔
ملک معراج خالد 20 ستمبر، 1916ء کو لاہور کے قریب،ضلع قصور کے ایک گاؤں کوٹ رادھا کشن میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے قانون کی تعلیم حاصل کی۔ معراج خالد پیشہ کے اعتبار سے وکیل تھے اور لاہور کے نواحی علاقہ برکی کے ایک چھوٹے کاشکار خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ انہوں نے اپنی عملی سیاست کا آغاز 60 کی دہائی میں ایوب خان کے دور میں مسلم لیگ سے کیا اور بعد میں ’ضمیر کے بحران‘ کے عنوان سے ایک پمفلٹ لکھ کر ایوب خان کی حکومت پر تنقید کی جسے بہت شہرت ملی۔
جب ذوالفقار علی بھٹو نے ایوب خان حکومت سے علیحدگی اختیار کی تو وہ لاہورمیں ملک معراج خالد کی بنائی ہوئی ایک تنظیم ایفروایشین پیپلز سالیڈیریٹی کے پلیٹ فارم سے پہلی بار حزب مخالف کے رہنما کے طور پر عوام کے سامنے آئے۔
معراج خالد پیپلز پارٹی میں شامل ہونے والے ابتدائی لوگوں میں شامل تھے اور پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر لاہور سے 1970ء کے انتخابات میں رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔
اس وقت کے آئین کے مطابق ایک رکن قومی اسمبلی کو6 ماہ کے لیے کسی صوبہ کا وزیراعلی بھی منتخب کیا جاسکتا تھا۔ اس شق کے تحت وہ6 ماہ پنجاب کے وزیراعلیٰ رہے اور ان کا اس وقت کے طاقت ور گورنر غلام مصطفے کھر سے اختیارات پر تناؤ رہا۔
بعد میں انہیں ذوالفقار علی بھٹو کی کابینہ میں وفاقی وزیر زراعت بنا دیا گیا اور 1977ء کے متنازع انتخابات کے بعد مختصر مدت تک رہنے والی قومی اسمبلی میں وہ اسپیکر منتخب کیے گئے۔
معراج خالد تحریک بحالی جمہوریت میں بہت متحرک رہے اور انہوں نے کئی بار جیل کاٹی۔ جب بے نظیر بھٹو 1986ء میں ملک واپس آئیں تو معراج خالد کا شمار پارٹی کے ’انکلوں‘ میں کیا جانے لگا جنہیں بے نظیر بھٹو نے آہستہ آہستہ پارٹی کے معاملات سے دور کر دیا۔ 1988ء کے انتخابات کے بعد منتخب ہونے والی پیپلز پارٹی کی حکومت میں بے نظیر بھٹو وزیر اعظم بنیں اور انھوں نے ایک بار پھر معراج خالد کو قومی اسمبلی کا اسپیکر بنایا۔
جب صدر غلام اسحاق خان اور فوج کے سربراہ جنرل مرزا اسلم بیگ نے بے نظیر بھٹو کی حکومت کو رخصت کرنے کا فیصلہ کیا تو وہ در پردہ ملک معراج خالد کو بے نظیر بھٹو کے خلاف عدم اعتماد لا کر وزیر اعظم بننے کی دعوت دیتے رہے جو انھوں نے قبول نہیں کی۔
تاہم ملک معراج خالد کے بے نظیر بھٹو سے اختلافات شدت اختیار کر گئے تھے اور 1993ء کے انتخابات میں پیپلز پارٹی کی سربراہ نے انھیں لاہور سے ان کی روایتی نشست پر انتخاب لڑنے کے لیے پارٹی کا ٹکٹ نہیں دیا۔
اسی دوران میں ملک معراج خالد پیپلز پارٹی کی سیاست سے دور ہو گئے اور انہوں نے اخوان المسلمون نامی تنظیم بنا کر لاہور کے دیہی علاقہ میں اسکول کھولنے اور انہیں چلانے پر توجہ مرکوز کرلی۔ وہ بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کے ریکٹر بھی مقرر ہو گئے۔
جب صدر فاروق احمد خان لغاری نے وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کی دوسری حکومت کو 1993ء میں برطرف کیا تو معراج خالد کو نگران وزیر اعظم مقرر کیا گیا۔ انھوں نے 3 ماہ کی مقررہ مدت میں انتخابات کرواکے اقتدار نوازشریف کے سپرد کر دیا۔
انھوں نے کبھی با ضابطہ طور پر پیپلز پارٹی چھوڑنے کا اعلان نہیں کیا لیکن وہ 10 سال سے اس سے لاتعلق رہے۔
معراج خالد ایک سادہ انسان تھے جنھیں اکثر لاہور کی مال روڈ پر گھومتے ہوئے اور باغ جناح میں سیر کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا تھا۔ جب وہ نگراں وزیر اعظم بنے تو انھوں نے وی آئی پی کلچر کے تحت ملنے والی مراعات کو ختم کرنے کی کوشش کی اور ایئرپورٹ پر عام مسافروں کے راستے کو استعمال کرنا شروع کیا۔
وفات
ملک معارج خالد 13 جون، 2003ء کو لاہور، پاکستان میں انتقال کر گئے۔۔!!!!!!