ایک اہم اعتراف
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نائی سے بال کٹوانے اور سبزی لانے کی جلدی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کسی بھی عمل کرنے کے بعد سب سے بڑا کام ، بلکہ عمل کرنے سے بھی زیادہ اس کا اعتراف کرنا ہوتا ہے ،آدمی کو قانون اور لوگوں کا خوف ہوتا ہے کہ نہ جانے میرے اعتراف کرنے سے میرا کیا حشر ہو ، مگر جب وہ دیکھتا ہے نہ تو لوگوں سے خوف زدہ ہونے کی ضرورت ہے اور نہ ہی قانون مجھے سزا دے گا تو پھر وہ بلاِ خوف و خطر اپنے کیے کا اعترف کر لیتا ہے میں بھی اس خوف سے دو چار رہا ہوں مگر اب میں نے محسوس کیا ہے کہ مجھے خوف زدہ ہونے کی ٖضرورت نہیں ہے لہذا میں آپ کے آگئے اعتراف کرتا ہوں
پچھلے دنوں لاہور ہائی کورٹ کے قریب جس لڑکی کو سنگسار کیا گیا ہے وہ میری ہی لڑکی تھی میں ہی اس کا باپ ہوں میں نے ہی اُسے سنگسار کیا ہے ، اس نے محبت کرنے کا جرم کیا تھا اس کی یہی سزا بنتی ہے
اب میں اگر اعتراف کرنے پہ آ ہی گیا ہوں تو چند اور بھی اعتراف آپ کے سامنے کر دوں ،
پچھلے دنوں جن دو لڑکیوں کی لاشوں کےٹکڑے ٹکرے کر کے بوری میں بند کر کے نہر میں بہیا گیا تھا وہ میری ہی بہنیں تھیں میں ہی ان کا بھائی ہوں میں نے ہی ان کی لاشوں کے ٹکڑے کیے تھے ،
پچھلے ماہ جس عورت کے چیرے پہ تیزاب پھینکا گیا گیا تھا وہ میری ہی بیوی تھی ،
یہ جو آپ نے اخبار میں خبر پڑھی ہے کہ ایک لڑکی کے بال اور ناک کاٹ دی وہ میری ہی بتیجھی تھی میں ہی ان کا چاچا ہوں
یہ جن لڑکیوں کو زیادتی کرنے کے بعد آم کے درخت کے تنے کے ساتھ لٹکایا گیا ہے وہ میں نے اور میرے دوستوں نے ہی اُن کے ساتھ زیادتی کر کے ان کو لٹکا یا تھا ،
یہ کام میں آج کا نہیں کر رہا یہ کام میرے آباو اجداد بھی کیا کرتے تھے ہم اپنی بچیوں کو پیدا ہوتے ہیں ان کو زندہ دفن کر دیتے تھے ، یا پھر اگر ہمارا کوئی بھائی وفات پا جاتا تو ہم اُس کی بیوی کو خاوند کی چیتا کے ساتھ ہی جلا دیتے تھے
اج مین اس اعتراف کے ساتھ ساتھ یہ بھی اعلان کرتا ہوں ابھی میری لاکھوں بہنیں اور ہزاروں بچیاں اور بھی ہیں میں ان کو محبت کرنے کے جرم میں ایسے ہی سنگسار کرتا رہوں گا
، میری ہزاروں بہینیں اور بھی ہیں ، نافرمانی پہ میں اُن کی لازشوں کے ٹکڑے کر کے ایسے ہی نہر میں بہتا رہوں گا
جب تک زندہ ہوں آخری دم تک شادیاں کرتا رہوں گا اور اگر کسی نے ذرا بھی حکم ادولی کی تو ایسے ہی ان کے چہرہ تہزاب سے جھلساتا رہوں گا
ہم جس لڑکی کو چائیں گے اپنی ہوس کا نشانہ بنائین گے ہم درخت اُگاتے ہی اس لیے ہیں کہ ہماری ہوس کا نشانہ بننے والی لڑکی اگر چیخ و پکار کرے تو ان کو درختوں پہ لٹکا سکیں ،
مجھے پتہ ہے معاشرہ مجھے کچھ نہیں کہے گا وہ مصروف ہے
میں جب لاہور ہائی کورٹ کے قریب اپنی لڑکی کو اینٹوں سے سنگسار کر رہا تھا تو لوگ دیکھتے ہوئے گزر جاتے تھے ۔ انھوں نے نائی سے بال کٹوانے تھے لہذا وہ جلدی میں تھے وہ مجھے کیوں روکتے
میں جب اپنی بیوی کے بال کھینچ کر گلی میں گھسیٹ رہا تھا تو لوگ سبزی کے تھیلے پکڑے ٹیڑھی آنکھ سے مجھے دیکھتے گزر رہے تھے
میں جب چوک میں اپنی بہن کے بال اور اس کی ناک کاٹ رہا تھا تو لوگ اپنی سائیکلوں کی ٹیوب کے پیکنچر لگوانے میں مصروف رہے ایک جلوس قریب سے گزرا مگر وہ کسی انتخابی پینکچر پہ احتجاج کر رہا تھا میرے خلاف نہیں تھا
میں جب پنچائیت میں بیٹھا گاؤں کی لڑکی کے ساتھ اجتماعی زیادتی کا فیصلہ دے رہا تھا تو لوگ اس اجتماعی زیادتی کے عمل میں شامل ہونے کے لیے سفارشیں کراو رہے تھے
ویسے بھی لوگ مجھے کیوں روکیں گے ایک تو وہ مصروف دوسرا وہ سمجھتے ہیں کہ جس بچی کو میں سنگسار کر ہا ہوں یہ انکی بچی تھوڑا ہی ہے جس لڑکی کے میں نے بال اور ناک کاٹی ہی یہ ان کی بہن تھوڑا ہی ہے ، جس کے چہرے پہ میں نے تیزاب پھینکا ہے ان کی کیا لگتی ہے ، وہ مجھے کیوں روکیں گے لہذا مجھے ان کا کوئی خوف نہیں ہے
قانون ،،، ہاہاہاہاہا ، پہلی بات تو یہ کہ مجھے سزا دینے والوں میں بہت سے ایسے ہیں جنھوں نے یہ کام خود اپنی بیٹیوں ، بہنوں اور بیویوں کے ساتھ کیا ہوا ہے ، مگر وہ پڑھے لکھے ہیں ان کی خبریں باہر نہیں آئیں اور دوسری بات میرے پاس بہت تکڑے وکیل ہیں تھانے میں میرے ہی بھائی بھتیجے بیٹھے ہیں ، میرے اس اعتراف کے بعد بھی کوئی ثبوت نہٰں ملے گا اور اگر مل بھی گیا تو یہ ،، قصاص ،، کا قانون میرے ہی تو کام آئے گا
لہذا میں بلا خوف و خطر اعتراف کرتا ہوں یہ سب میری ہی لڑکیاں میری ہی بہنیں ، میری ہی بھتیجیں اور میری ہی بیوی تھی اور میں نے ہی ان کو سنگسار کیا ان کے چہرے پہ تیزاب پھینکا ان کے بال اور ناک کاٹے ان کی لاشوں کے ٹکڑے کر کے ان کو نہر میں بہیا ان کے ساتھ اجتماعی زیادتی کر کے ان کو آم کے درختوں کے ساتھ لٹکایا اور آئیندہ بھی کرتا رہوں گا کیونکہ کے معاشرے میں ہر کوئی مصروف ہے اور قانوں میرے ساتھ ہے
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“