جب ہم انٹرنیٹ پر کوئی ٹی وی سیریز دیکھتے ہیں یا ہائی ریزولوشن تصویر یا ویڈیو ڈاؤن لوڈ کرتے ہیں تو شاید اس چیز سے بے خبر ہوتے ہیں کہ یہ سب ڈیٹا ساری دنیا میں ، خاص کر سمندر کے نیچے سے سفر کرتا ہوا ہماری ڈیوائس تک پہنچتا ہے۔ آج کل دنیا کا 99 فیصد ڈیٹا اسی طرح سفر کرتا ہے۔ سمندر کے نیچے 420 کیبلز ہیں جو باقاعدہ کام کر رہی ہیں۔ ان کیبلز کی لمبائی 7 لاکھ میل یا 11 لاکھ کلومیٹر ہے۔ دنیا میں پہلی بین البراعظمی کیبل 1858 میں آئرلینڈ سے نیوفاؤنڈ لینڈ تک بچھائی گئی تھی۔
اس کی مدد سے برطانیہ اور کینیڈا کے بیچ ٹیلی گراف کمیونی کیشن ممکن ہو سکی تھی۔
اس وقت دنیا کی سب سے زیادہ گنجائش والی زیر آب کیبل 5600 میل(9012 کلومیٹر) طویل ہے جو امریکا اور جاپان کے بیچ بچھائی گئی تھی۔
فاسٹر (FASTER) نام کی یہ کیبل اوریگون، امریکا کو جاپان اور تائیوان سے جوڑتی ہے۔
یہ کیبل گوگل اور کمیونی کیشن کمپنیوں کے ایک کنشورشیم کی ملکیت ہے۔
دنیا میں جس تیزی سے لوگوں اور صنعتی آلات میں انٹرنیٹ کا استعمال بڑھتا جا رہا ہےاس سے نئی انٹرنیٹ کیبلز کی ضرورت بھی بڑھتی جا رہی ہے۔
سسکو کا اندازہ ہے کہ صارفین 2020 تک انٹرنیٹ کا 26 فیصد زیادہ استعمال کریں گے۔
حال ہی میں مائیکروسافٹ اور فیس بک نے بحر اوقیانوس میں 4000 میل (6437 کلومیٹر) طویل انٹرنیٹ کیبل بچھائی ہے۔جب یہ اگلے سال سے کام شروع کرے گی
تو اس سے ایک سیکنڈ میں 160 ٹیرا بٹس فی سیکنڈ کی رفتار سے ڈیٹا بھیجا جا سکے گا۔ اس رفتار پر صارفین ایک ہی وقت میں 71 ملین ایچ ڈی ویڈیوز دیکھ سکتے ہیں۔اس کیبل کو Marea کا نام دیا گیا ہے اور یہ باغ میں استعمال ہونے والے پائپ سے صرف 1.5 گنا ہی بڑی ہے۔
اس کیبل کو ورجینیا بیچ، امریکا سے لیکر کر بلباؤ، سپین تک بچھایا گیا ہے۔
شمالی ورجینا کافی پہلے سے ہی انٹرنیٹ ڈیٹاسنٹر کے لیے ایک بڑے ہب کے طور پر اپنی خدمات فراہم کر رہا ہے۔
یہ تازہ ترین کیبل امریکا سے یورپ کو، پھر آگے افریقا، مشرق وسطیٰ اور حتیٰ کے ایشیا کو بھی ملادیتی ہے۔
مائیکروسافٹ کا کہنا ہے کہ بحراوقیانوس سے گزرنے والی یہ زیرآب کیبل سب سے زیادہ گنجائش والی کیبل ہے۔ یہ اوسط گھریلو انٹرنیٹ کنکشن سے 16 ملین زیادہ تیزرفتار ہے۔
مشہور ٹیلی کام پروائیڈر ٹیلی فونیکا(Telefónica) کی ذیلی کمپنی Telxius تیسرے شراکت دار کے طور پر مائیکروسافٹ اور فیس بک کی اس کیبل کو بچھائے اور آپریٹ کرے گی۔Telxius کا کہنا ہے کہ یہ کیبل صارفین کو کم قیمت میں تیز رفتار انٹرنیٹ فراہم کرے گی اور اس کی وجہ سے آلات کو اپ گریڈ کرنا آسان ہوگا۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ٹیک کمپنیاں اپنی الگ کیبل کیوں بچھانا چاہتی ہیں۔ روایتی طور پر تو ٹیلی کمیونی کیشن کی کمپنیاں زیرآب کیبل بچھانے میں سرمایہ کاری کرتیں ہیں۔
تاہم اس وقت فیس بک، مائیکروسافٹ اور گوگل جیسی بڑی کمپنیاں اس میدان میں بھی اپنی سرمایہ کاری کو بڑھا رہی ہیں۔فیس بک نے موجودہ پراجیکٹس میں سرمایہ کاری کرنے یا دوسری کمپنیوں کی کیبل استعمال کرنے کی بجائے کیبل بچھانے کے حوالے سے پہلی بار اتنا اہم کردار ادا کیا ہے۔
پچھلے سال ایمزون ویب سروسز(اے ڈبلیو ایس) نے بھی Hawaiki Submarine Cable میں بھاری سرمایہ کاری کی ہے، جس سے کمپنی کے کلاؤڈ کسٹمرز کی کارکردگی بڑھے گی۔
یہ کیبل جون 2018 میں کام شروع کرے گی۔ یہ امریکااور آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے بیچ سب سے تیزرفتار اور سب سے بڑی کیبل ہوگی۔
ٹیکنالوجی کمپنی اس وقت بڑے پیمانے پر بینڈوڈتھ استعمال کرر ہیں ہیں۔ ٹیلی جیوگرافی کے اندازے کے مطابق مواد فراہم کرنے والی کمپنیاں عالمی بینڈوڈتھ کا 38 فیصد استعمال کرتیں ہیں۔
اگر یہ کمپنیاں اپنی کیبل بچھائیں گی تو پھر وہ انہیں اپنی مرضی کے مطابق استعمال کر سکیں گی۔
دوسرا بہت سی نئی عالمی کمپنیاں سوچتی ہیں کہ دوسروں کو کیبل استعمال کرنے کا کرایہ دینے کی بجائے وہ اپنی کیبل ہی بچھا لیں۔
کیبل کو سمندر کے نیچے بچھانے کے ساتھ ساتھ ان کی حفاظت بھی اہم ہوتی ہے۔ اس کام کے لیے مخصوص جہاز ایک دن میں 100 سے لیکر 150 کلومیٹر تک کیبل بچھا لیتے ہیں۔ فائبر آپٹک کیبل چونکہ بہت نازک ہوتیں ہیں، اس لیے انہیں ٹیوبز یا سٹیل میں محفوظ کر کے بچھایا جاتا ہے تاکہ انہیں نقصان نہ پہنچ سکے۔
سمندر کے نیچے کیبل کو شارک مچھلیوں سے نقصان پہنچ سکتا ہے۔
اس کے علاوہ بحری جہاز بھی انہیں نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ جہازوں کے لنگر انٹرنیٹ کیبل خراب کر سکتے ہیں۔
اگرسمندر میں کیبل خراب ہوجائے تو سب سے پہلے پتاچلایا جاتا ہے کہ یہ کہاں سے خراب ہوئی ہوگی۔
اس کے بعد غوطہ خور خراب خراب کیبل کو سطح تک لے آتے ہیں، سطح پر ہی اس کی مرمت کرتے ہیں اور پھر اسے سمندر کے نیچے پہنچا دیتے ہیں۔