شمالی کیلیفورنیا کے ساحلی علاقے پر سرخ لکڑی کے عظیم الشان درختوں کا بڑا جنگل اب ریڈ وڈ نیشنل پارک تک محدود رہ گیا ہے۔ ایک ایک درخت دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ بالکل سیدھا اور انتہائی قد آور۔ زمین کا سب سے اونچا درخت جس کی بلندی ۳۸۰ فٹ ہے، وہ یہیں ہے۔ لاہور کی سب سے اونچی عمارت سے بھی پچاس فٹ اونچا۔ اپنے چھ فٹ کے قطر کے تنے کے اندر نئے دائرے ابھی بھی بن رہے ہیں۔ تین سو فٹ کی بلندی پر سدابہار سبز پتے سورج سے توانائی کھینچ رہے ہیں۔
لیکن زندگی کو پانی چاہئے اور وہ زمین کی تہہ تلے ہے۔ درخت نے پانی مسلسل کھینچنا ہے۔ جب سے یہ اپنے بیج سے پھوٹا ہے، یہ عمل بغیر رکے مسلسل جاری ہے۔ رومی سلطنت کے زوال کے دنوں میں اگنے والا یہ درخت اس دھند بھی یہاں تھا جب بارود ایجاد ہو رہا تھا، جب چنگیز خان کی فوجیں ایشیا میں ملکوں کو تاراج کر رہی تھیں، جب گلیلیو اسیر تھا اور جب جنگ عظیم کا طبل جنگ بجا۔ اپنی لمبی عمر کے دوران یہ پانی کی مسلسل سپلائی ایک بار بھی منقطع نہیں ہوئی۔ ہمیں اتنا یقین کیوں ہے کہ یہ تھوڑی دیر کو بھی کبھی منقطع نہیں ہوئی؟ کیونکہ اس کی چالاک پلمبنگ کا نظام ہی ایسا ہے۔ اگر یہ ایک بار رک جائے تو پھر کبھی واپس بحال نہیں ہو سکے گا۔ اس کے زندہ آرکیٹیکچر کی سب سے کمال بات اس کا پانی کھینچنے کا یہ نظام ہے اور اس میں کمال اس کا سائز ہے۔
پانی سیلولوز کی انتہائی باریک پائپ کے ذریعے بہتا ہے۔ یہ پائپ جڑ سے پتے تک ایک مسلسل راستہ دے رہے ہیں۔ لکڑی کا بڑا حصہ یہی ہے۔درخت جس طرح اونچا ہوتا چلا جاتا ہے، لکڑی کا اندر والا حصہ اس کام میں مدد بند کر دیتا ہے کیونکہ کیپلری ایکشن جس سے پودے پانی کھینچتے ہیں، اس کے ذریعے کچھ گز سے زیادہ پانی نہیں کھینچا جاتا۔ اونچے درخت کو کچھ اور بھی کرنا ہے۔ یہ درخت اپنی جڑوں سے بھی پریشر پیدا کرتے ہیں جو پانی کو پھر کچھ گز اور اوپر دھکیل دیتا ہے لیکن سرخ لکڑی کا یہ درخت پانی کھینچنے کی انجینرنگ کا بادشاہ ہے۔
تین سو فٹ اونچائی پر ہوا سے ہلتا پتہ فوٹوسنتھیسز کر رہا ہے۔ اس پتے کے نیچے چھوٹے سوراخوں سے کاربن ڈائی آکسائڈ داخل ہو رہی ہے۔ان سوراخوں کی اندر والی دیوار پر سیلولوز کے ریشوں کا نیٹ ورک ہے اور ریشوں کے بیچ میں پانی سے بھرے راستے ہیں۔ جہاں یہ پانی کے پائپ فضا کو چھوٹے ہیں تو ان کا قطر صرف ۱۰ نینومیٹر ہوتا ہے۔ پانی کے مالیکیول ان پائپوں کی دیواروں میں چمٹے ہوئے ہیں، ان نینو سکیل کی پائپ میں کرو بنائے ہوئے۔ سورج پتے کو اور اس کے اندر کی ہوا کو گرم کر دیتا ہے۔ اس سے دیوار سے مضبوطی سے چمٹا ہوا پانی کا مالیکیول بعض اوقات اپنے ہجوم سے الگ ہو کر اڑ جاتا ہے، لیکن اب یہ نینو ٹیوب کے کٹورے کی سطح کی شکل بگڑ گئی ہے اور درمیان سے گہرا ہو گیا ہے۔ دوسرے مالیکیول اس جگہ کو بھرنے کے لئے پہنچ رہے ہیں لیکن اب اس گمشدہ مالیکیول کی جگہ کو بھرنے سے خلا پیدا ہو گیا ہے۔ اس کو بھرتے بھرتے پانی کا اوپر کی طرف پریشر بنتا جا رہا ہے۔ اس چینل کے انتہائی باریک سائز کا مطلب یہ کہ سطحی ٹینشن پانی پر انتہائی دور تک زور لگا سکتی ہے۔ دس لاکھ مزید پتے مل کر تنے پر یہ زور آزمائی کر رہے ہیں ، اس تمام پانی کو ایک طرف گریویٹی نیچے کھینچ رہی ہے اور دوسری طرف معمولی سی بہت سی قوتیں مل کر اوپر کی جانب۔ یہ جنگ گریویٹی ہار جاتی ہے۔ نہ صرف گریویٹی بلکہ ان پائپوں کی فرکشن کو شکست دے کر پانی سینکڑوں فٹ بغیر اوپر کسی موٹر کے بغیر چڑھ جاتا ہے۔
یہ پائپ ایک انچ میں اڑھائی کروڑ کی تعداد میں ہیں اور اگر ایک بار یہ چینل ٹوٹ جائے تو واپس نہیں جڑ سکتا۔ اس علاقے کی دھند پتوں کو گیلا رکھ کر اس درخت کی مدد کرتی ہے۔
بغیر موٹر کے صرف اپنے سٹرکچر کی مدد پانی کو اتنا اوپر پہنچا دینے کی آخری حد کسی بھی ٹیکنالوجی کی مدد سے یہی ہے جو یہ درخت حاصل کر چکا ہے۔ زندگی کا ہر روپ زبردست ہے۔ فزکس کے اصولوں کے تابع اور ان اصولوں کو اپنے فائدے کے لئے ایکسپلائٹ کرتا ہوا۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔