ہماری زمین پر اربوں سال سے ایک جنگ لڑی جا رہی ہے جس سے کھربوں اموات ہر روز ہو رہی ہیں۔ یہ جنگ لڑنے والا ہماری زمین کا سب سے بڑا قاتل ہے، بیکٹیریوفیج۔
فیج ایک وائرس ہے۔ اس کا سر بیس چہروں اور تیس کونوں والے ڈائس کی شکل کا ہے۔ اس میں اس کا جینیاتی مواد بند ہے۔ یہ ایک نالی کے ذریعے باقی جسم سے جڑا ہے جہاں پر اس کی نوکیلی ٹانگیں ہیں۔ دنیا میں فیج اتنے زیادہ ہیں کہ تمام زندگی بشمول بیکٹیریا کی تعداد کو جمع کر لیا جائے تو بھی ان کی تعداد کہیں زیادہ رہے گی اور یہ ہر جگہ ہیں۔ اس وقت بھی آپ کے ہاتھوں پر، پلکوں پر، جسم کے اندر اربوں کی تعداد میں۔ لیکن اس خطرناک قاتل کی وجہ سے ابھی پریشان ہونے کی ضرورت نہیں، کیونکہ اس کا نشانہ آپ نہیں بیکٹیریا ہیں۔ سمندر کے چالیس فیصد بیکٹریا روز یہ فیج مار ڈالتے ہیں۔ یہ قسم قسم کے ہیں اور ہر کوئی کسی خاص قسم کے بیکٹیریا اور اس کے قریبی رشتہ داروں کا سپیشلسٹ۔ ہر فیج ایک کروز میزائیل کی طرح ہے جو سب کو چھوڑ کر بیکٹیریا کے کسی خاص خاندان کا شکار کرتا ہے۔ جب اسے اپنا شکار مل جاتا ہے تو یہ اس کو اپنی دم کے ذریعے ٹیکہ لگاتا ہے اور سر جھٹک کر اپنا جینیاتی مادہ بیکٹیریا کے اندر منتقل کر دیتا ہے۔ چند منٹ میں بیکٹیریا اس کے قابو میں ہے۔ یہ نئے فیج کے پارٹس بنانا شروع کرنے پر مجبور ہو چکا ہے۔ اور یہ نئے فیج اس کے جسم میں بھرتے جا رہے ہیں۔ جب بیکٹیریا کا جسم ان سے بھر گیا تو اس فیج نے اینڈولائسن کا اخراج شروع کر دیا۔ یہ اینزائم بیکٹیریا کے جسم میں سوراخ کر دے گا۔ اب یہ بیکٹیریا اپنے اندر کے تمام فیج باہر کی طرف قے کر کے مر جائے گا۔ نئے فیج یہ چکر دوسرے بیکٹیریا پر جاری رکھیں گے۔
پچھلے کچھ برسوں میں ان فیجز پر اس زمین کے دوسرے سب سے بڑے قاتل کی نظر پڑی ہے، یعنی انسان۔ کیا کچھ ملین فیج ہمارے جسم میں داخل کر کے ہم فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ ہم سے ایک بڑی غلطی ہو چکی ہے اور ہم اپنے لئے انجانے میں انتہائی ملک دشمن تیار کر رہے ہیں (اس کی تفصیل نیچے دی گئی پوسٹ سے)۔ یہ دشمن وہ بیکٹیریا ہیں جن پر دوائیں اثر کرنا چھوڑتی جا رہی ہیں۔
ارتقا کے ہتھیار سے لیس یہ سپربَگ دنیا میں اس وقت پھیل رہے ہیں اور اگر یہ اسی طرح جاری رہا تو اگلے تیس برسوں میں کینسر سے زیادہ اموات انہیں سپربَگ کی وجہ سے ہوں گی۔ صرف امریکہ میں اس وقت سالانہ تئیس ہزار اموات ہماری ادویات کے خلاف مدافعت رکھنے والے بیکٹیریا کی وجہ سے ہو رہی ہیں۔
لیکن یہ فیج ان کے دشمن ہو سکتے ہیں اور انفیکشن کو روک سکتے ہیں کیونکہ وہ بیماری پھیلانے والے جراثیم کو مار دیں۔ انسانوں کو ان سے کوئی نقصان نہیں۔ یہ اربوں کی تعداد میں روزانہ ہمارے پاس چکر لگاتے رہتے ہیں۔
اینٹی بائیوٹک اندھا دھند بمباری کی طرح کام کرتی ہے اور دوست دشمن جراثیم میں تمیز نہیں کرتی۔ فیج گائیڈد میزائیل ہیں اور چن کر نشانہ بناتے ہیں۔
لیکن اگر ان کو میڈیکل میں استعمال کیا جائے تو کیا بیکٹیریا ارتقا کے ہتھیار کو استعمال کر کے ان کے خلاف ڈھال نہیں بنا لیں گے؟ ہممم۔ لیکن اس مقابلے میں ان کے مخالف یعنی فیج کے پاس بھی یہی ہتھیار ہے۔ اسلحے کی یہ دوڑ اربوں سال سے جاری ہے اور ابھی تک فیج کو شکست نہیں ہوئی۔ یعنی فیج وہ سمارٹ ہتھیار ہو سکتے ہیں جو بیکٹیریا سے نپٹنے کا طریقے میں خود ہی بہتر ہوتے چلے جائیں اور اگر کسی بیکٹیریا نے ان کے خلاف مدافعت حاصل کر بھی لی تو پھر بھی ہم جیت سکتے ہیں۔ فیج سے مدافعت اپنانے کے لئے بیکٹیریا کو اینٹی بائیوٹک والی مدافعت چھوڑنا پڑے گی۔
یہ تجربہ ایک مریض پر ہو چکا ہے جس کا کوئی اور علاج موجود نہیں تھا۔ سوڈومونس آروجنوسا نامی بیکٹیریا نے اس کے سینے کو انفیکٹ کر دیا تھا۔ یہ وہ بیکٹیریا ہے جس کا ہمارے پاس کوئی علاج نہیں۔ سالوں اپنی بیماری سے تکلیف اٹھانے کے بعد تجرباتی طور پر کچھ ہزار فیج جو اس بیکٹیریا سے لڑنا جانتے تھے، ان کو مریض کے سینے میں داخل کیا گیا اور ساتھ ہی وہ اینٹی بائیوٹک جن کے خلاف یہ بیکٹیریا مدافعت ڈویلپ کر چکا تھا۔ چند ہفتوں میں یہ مریض مکمل صحت یاب ہو چکا تھا۔
لیکن ابھی یہ طریقہ علاج صرف تجرباتی طور پر ہے۔ اس پر ہونے والی تحقیق میں اربوں ڈالر کا خرچہ اور تحقیق کے لئے ملنے والی اپروول درکار ہے۔ لیکن اب یہ بدل رہا ہے۔ 2016 میں اس پر سب سے بڑا کلینکل ٹرائل ہوا اور اس کو اب توجہ ملنا شروع ہوئی ہے۔
اینٹی بائیوٹک کے بے اثر ہوتے چلے جانے کے بعد اب اس طرح کے متبادل ڈھونڈنا ضروری ہوتا چلا جا رہا ہے۔ شاید سننے میں عجیب لگے لیکن دنیا کے سب سے بڑے قاتل کو لاکھوں کی تعداد میں اپنے جسم میں داخل کر لینے سے شاید لاکھوں زندگیاں بچ سکیں۔
کیا اربوں سال سے ہونے والی جنگ کا رخ اپنی طرف موڑ کر ہم اس سے فائدہ اٹھا سکیں گے؟ یہ سوال اب میڈیکل سائنس پر ریسرچ کرنے والوں کی طرف۔
پہلی تصویر میں وائرس کا سٹرکچر ہے جبکہ دوسری میں ایک بیکٹیریا جو اپنے ان دشمنوں کے نرغے میں ہے۔
نوٹ: بیکٹیریوفیج کا اس کے علاوہ ممکنہ استعمال پولٹری اور گوشت کی انڈسٹری میں ہے اور بائیولوجیکل ہتھیاروں کے دفاع میں بھی۔ ارتقا اور ایکولوجی کے ماڈل تیار کرنے کے ماڈل آرگنزم میں بھی ان کو استعمال کیا جاتا ہے۔ ان پر ایک نوبل انعام بھی مل چکا ہے۔ پالتو کتوں کی بیماری پر کلینیکل ٹرائل ہو چکے ہیں اور خون کے ٹیسٹ کرنے کی اجازت بھی مل چکی ہے۔ لیکن ان سب میں بہت احتیاط کی ضرورت ہے۔ ان تجربات سے گزر کر ان کے باقاعدہ استعمال میں ابھی بہت وقت درکار ہو گا۔ بیکٹیریوفیج فیمل میں ورائٹی بہت زیادہ ہے۔
اینٹی بائیوٹک بحران پر پہلے کی گئی پوسٹ
https://www.facebook.com/groups/ScienceKiDuniya/permalink/952371758264694/
یہ زیادہ تر اس ویڈیو کا ترجمہ ہے۔ اس ویڈیو میں یہ سب بہت اچھے طریقے سے بتایا گیا ہے۔
https://youtu.be/YI3tsmFsrOg
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔