اس زمین پر ڈپلوڈوکس نسل کے ایک ڈائنوسار نے اپنی طبعی عمر پوری کر لی تھی۔ یہ موجودہ شمالی امریکہ کے علاقے وائیومنگ میں رہا کرتا تھا۔ اس کی موت لیٹی ہوئے حالت میں آئی تھی۔ گزرتے وقت کے ساتھ اس کی دبی ہڈیوں کے اوپر زمین پربہت کچھ ہوا۔ ساڑھے پندرہ کروڑ برس کے بعد اسی زمین پر چلنے پھرنے والی ایک اور پرتجسس مخلوق کی آمد ہوئی، جو زمین کے راز جاننا چاہتی تھی۔ اس نے 2008 میں کھدائی کر کے یہاں سے یہ ہڈیاں نکال لیں۔ زمین سے نکالے گئے اربوں فوسلز میں سے یہ بھی ہیں۔ تلاش کرنے والے پیلئنٹولوجسٹس کو نوے فیصد ہڈیاں مل گئیں۔ ہاتھی سے پانچ گنا وزنی اس سبزہ خور جانور پر سائنسی مطالعہ ختم ہونے کے بعد عوام کی دلچسپی کے لئے نمائش پر رکھ دیا گیا۔ یہاں سے ان کو بذریعہ جہاز دبئی مال میں لایا گیا اور ساڑھے پندرہ کروڑ سال پہلے شمالی امریکہ میں ان سوئی ہوئی ہڈیوں کی باقیات اب دبئی کے بازار میں کھڑی ہوئی پوزیشن میں لگی ہیں۔ اس کی اپنی تمام تاریخ اس کے آس پاس لکھی دیکھی جا سکتی ہے۔
یہ نمائش عوام کی دلچسپی کے لئے ہے لیکن سوال یہ کہ آخر یہ سب ہم کرتے ہی کیوں ہیں؟ جو ہوا، سو ہوا۔ یہ سب جاننے کا کیا فائدہ؟
کسی نے کہا تھا کہ مستقبل کو دیکھنے کا صرف ایک ہی طریقہ ہے۔ وہ یہ کہ ماضی کو دیکھا جائے۔ جتنے غور سے اور جتنی دور تک ہم ماضی کو دیکھ لیں گے، اتنا ہی صاف اور دور تک مستقبل کو دیکھ سکیں گے۔ زمین کی تاریخ بھی اسی لئے پڑھی جاتی ہے۔
کیا ڈائنوسار ناکام تھے؟ نہیں۔ فنا تو ہر زندگی کا اصول ہے لیکن ڈائنوسارز نے ساڑھے سولہ کروڑ سال اس دنیا پر حکومت کی ہے۔ (آج بھی پرندوں کی شکل میں ایوین ڈائنوسارز کی نسلوں کی انواع کی تعداد ممالیہ سے زیادہ ہے) اور ان کی ایڈاپشنز کی ورائٹی حیرت انگیز ہے۔ انسان کا اس زمین پر دورانیہ اس عرصے کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں۔ ان کو انتہائی بھاری بوجھ مشکل سطحِ زمین پر اٹھا لینے میں مہارت تھی۔ زبردست قدرتی کولنگ سسٹم میں ساروپوڈ ماہر تھے۔ یہ اس زمین کی سب سے بڑی معدومیت سے بھی بچ نکلے تھے۔ انہوں نے پندرہ کروڑ سال قبل پروں کی اور اڑنے کی ایڈاپشن اپنا لی تھی لیکن پھر یہ کہاں گئے۔ اس زمین کے حالات سے تو یہ ایڈاپٹ کرنے میں ماہر تھے لیکن پھر ہمیں آج سے پینتیس برس پہلے ہمیں یہ پتہ لگا کہ اس طویل حکمرانی کا خاتمہ خلا سے آئے ہوئے ایک پتھر نے کر دیا۔
انسان کو اپنی بقا کے چیلنج کا سامنا ہے۔ گلوبل وارمنگ، سمندروں کی سطح کا بڑھنا، ماحول کی خرابی، بائیوڈائیورسٹی کا خاتمہ اور دوسرے کئی مسائل۔ یہ سب حقیقی مسائل ہیں۔ ان کا ہمیں علم کیسے ہوا ہے، ان سے بچنے کا اور ان سے ایڈاپٹ کرنے کے ہمارے پاس کیا کیا طریقے ہیں اور ان کی وجہ سے مستقبل کیا ہو گا۔ اس مستقبل کو دیکھنے کا طریقہ ماضی کی عینک سے ہے۔
ہم ان ڈائنوسارز جیسی زبردست بائیولوجیکل ایڈاپشن نہیں کر سکے۔ زندگی میں ہمارا کونہ، ہماری قوت اور سپیشلائیزیشن ہمارا تجسس اور پھر اس تجسس سے حاصل کردہ علم ہے۔ اسی تجسس کے باعث ہم بڑی بڑی لیبارٹریز بناتے ہیں، ان ستاروں اور کہکشاؤں کا بھی مطالعہ کرتے ہیں جن تک کبھی بھی پہنچنے کا کوئی امکان نہیں، نت نئے خیالات پیش کرتے ہیں، تجربات کرتے ہیں، یہاں تک کہ یہ تاریخ جاننے کے لئے زمین کو کھود ڈالتے ہیں اور ان کروڑوں برس پہلے کی نشانیاں نکال لیتے ہیں۔
دبئی کے اس بازار میں لگا یہ ڈھانچہ ہمارے اسی جاننے کے شوق کی ایک نشانی ہے۔ اس کو دیکھنے والے شائقین اور باقی کام چھوڑ اس پوسٹ کو پڑھنے والوں کا محرک بھی یہی تجسس ہے
ڈپلوڈوکس کیا ہے، اس کی انواع کونسی ہیں اور ان کو کہاں کہاں دیکھا جا سکتا ہے
https://en.wikipedia.org/wiki/Diplodocus
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔