پہلی کہانی
کسی وقت میں دنیا میں گدھے ہوا کرتے۔ ان سے بہت کام لیا جاتا۔ دو گدھے تنگ آ کر ایک دانا آدمی کے پاس گئے اور انہیں اپنی مشکل بیان کی۔ اس نے سوچ کر ایک حل نکالا۔ وہ سفید اور سیاہ رنگ کے ڈبے لے آیا اور ان کو رنگ کر دیا تا کہ وہ پہچانے نہ جائیں۔ پھر ان کا نام زیبرا رکھ دیا۔ اب یہ زیبرے گھاس چرتے اور آرام کرتے۔ دوسرے گدھوں نے دیکھا تو وہ بھی اس دانا کے پاس آئے۔ اس نے قطار بنوائی اور رنگ کرنا شروع کیا۔ کچھ کو رنگ کیا تھا کہ باقی بے صبرے ہو گئے اور قطار توڑ کر لڑنے لگے۔ لڑتے لڑتے رنگ کے ڈبے الٹ گئے اور جن پر رنگ نہیں ہوا تھا، وہ گدھے ہی رہ گئے۔
نتیجہ: بے صبری کرنے والا نقصان میں رہتا ہے۔
دوسری کہانی
ممالیہ کی ارتقائی تاریخ میں آج سے چالیس لاکھ سے ستر لاکھ سال قبل ایکوئس کا ارتقا ہوا۔ زیبرا، گھوڑا، گدھا اس سے نکلی ہوئے وہ شاخیں ہیں جو آج بھی زندہ ہیں۔ افریقہ کے میدانوں میں زیبرے کی پہچان اس کی دھاریاں ہیں لیکن اس ارتقائی سفر میں دھاریاں اس کو کیا فائدہ پہنچاتی ہیں۔ اس پر کئی خیالات تھے۔ اس پر 2015 میں مکمل ہونے والی تحقیق نے ان خیالات میں سے کچھ کو مسترد کر دیا اور اب ہمیں کچھ حد تک اس کے جواب کا علم ہے۔
بہت سے جانوروں کے رنگ ان کو اپنے شکاری سے بچانے کے کام آتے ہیں۔ زیبرے کا شکار کرنے والے شیر یا دوسرے شکاریوں سے بچنے کے لئے زیبرے کے رنگ کام نہیں آتے۔ یہ اسے کچھ اور نمایاں کر دیتے ہیں۔ کیا یہ رنگ شکاریوں کو کنفیوز کرتے ہیں؟ کیا اس کا تعلق ان کی آپس میں معاشرتی یکجہتی یا ایک دوسرے کی پہچان سے ہے؟ اس کے لئے افریقہ میں سولہ الگ جگہوں پر ان کا مطالعہ کر کے ماڈل تیار کئے گیے۔ اس سٹڈی میں 29 ماحولیاتی ویری ایبل رکھے گئے تھے۔ ہر علاقے میں زیبروں کی دھاریوں کے رنگ مختلف تھے۔ اس سے معاشرتی یکجہتی، ایک دوسرے کی پہچان یا شکاری کو کنفیوز کرنے والے خیالات کی تصدیق نہیں ہوئی۔ ان رنگوں کا تعلق علاقے کے موسم سے بہت اچھا نکلتا ہے۔ جہاں گرمی زیادہ ہے، وہاں یہ رنگ گہرے ہیں جبکہ جس طرح افریقہ کے جنوب میں جاتے جائیں اور گرمی کم ہوتی جائے تو یہ رنگ پھیکے پڑتے جاتے ہیں خاص طور پر پچھلی ٹانگوں سے یہ دھاریاں بالکل جنوب میں غائب ہو جاتی ہیں۔ اس کے لئے ساتھ لگی ڈایاگرام دیکھ لیں۔
یہاں پر دو ہی خیالات بچتے ہیں۔ ایک یہ کہ یہ رنگ تھرمو ریگولیشن کے لئے ہیں۔ چرنے والے جانوروں میں زیبرے کو باقی چرندوں کے مقابلے میں زیادہ دیر تک چرنا پڑتا ہے، اس کی وجہ اس کا نظامِ انہضام ہے۔ یہ دھاریاں اس گرمی سے بچنے کے لئے ایڈاپٹیشن ہیں۔ دھوپ سیاہ رنگ کو سفید رنگ کے مقابلے میں زیادہ گرم کر دیتی ہے۔ اس کی وجہ سے دباؤ کے فرق سے ہوا کا ایک چکر سا اس کی جلد کے اوپر چلتا ہے جو اس کو ٹھنڈا کر دیتا ہے۔ ابھی ہمیں اس کی پوری فزکس کا علم نہیں لیکن جب پیمائش کی گئی تو جن زیبروں کی دھاریاں گہری تھیں، ان کے جسم کا درجہ حرارت کم گہری دھاریوں والے زیبروں کے مقابلے میں کم تھا۔
دوسرا خیال یہ ہے کہ یہ مکھیوں سے بچنے کے لئے ہونے والی ایڈاپٹیشن ہے۔ زیبرے کے بال جلد پر کم ہیں اور ان کی موٹائی مکھیوں کو نہیں روک پاتی۔ زیادہ گرم علاقوں میں خون پینے والی مکھیاں، جیسا کہ زی زی مکھی زیادہ ہیں۔ ان مکھیوں پر تجربے نے بتایا کہ یہ سیاہ رنگ پر زیادہ جاتی ہیں، سفید پر کم لیکن جب زیبرے کی طرح کے پیٹرن ہوں تو یہ سب سے کم آتی ہیں۔ خیال ہے کہ اس کی وجہ روشنی کی پولرائزیشن ہے۔ دوسرے جانور اپنے بالوں کی وجہ سے ان سے محفوظ رہتے ہیں جبکہ زیبرا رنگوں سے۔
خلاصہ یہ کہ زیبرے کی دھاریاں اس کے ہاضمے کے نظام، بالوں کی موٹائی، گرمی روکنے اور گرم علاقوں کی مکھیوں کی وجہ سے ہیں، لیکن پہلی کہانی کے برعکس ابھی ہمارے پاس اس کا مکمل، حتمی اور آخری جواب موجود نہیں۔
ان دونوں میں سے کون سے کہانی زیادہ دلچسپ ہے؟ یہ اب اپنا ذوق۔ (اس پر ایک تیسری کہانی بندر اور گدھے کی لڑائی کی بھی ہے، وہ اب خود ڈھونڈیں)۔
آخر میں آپ کے تلاش کرنے کے لئے ایک سوال۔ کیا زیبرے کا رنگ کالا ہے جس پر سفید دھاریاں ہیں یا سفید ہے جس پر کالی دھاریاں ہیں؟ اور اس جواب کا ہمیں علم کیسے ہوا۔ یہ ڈھونڈئے اور اگر جواب مل جائے تو کمنٹ میں لکھ دیں۔