ہم زمین کی کرسٹ اور فضا کے ملاپ پر رہتے ہیں۔ اگر زمین کو کاٹا جائے تو یہ تہوں کی صورت میں نظر آئے گی۔ لیکن ایسا کیوں؟ اس کی وجہ ڈینسیٹی ہے۔ اگر ایک گلاس میں پانی، تیل، مٹی، رکھ دیں اور ہلا کر چھوڑ دیں تو کچھ وقت کے بعد سب کچھ الگ الگ ہو جائے گا۔ کچھ نیچے بیٹھ جائے گا، کچھ اوپر چلا جائے گا۔ اس کی وجہ ڈینسیٹی کا فرق ہے۔ زمین کی تہیں بھی اسی لئے ہیں۔
آج تک ہم صرف زمین میں صرف ساڑھے بارہ کلومیٹر نیچے تک سوراخ کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں جو اس کے اوپر پتلی کرسٹ کا بھی صرف ایک تہائی ہے۔ زمین کا اپنا نصف قطر 6400 کلومیٹر ہے تو یہ ہمیں کیسا پتہ کہ زمین اندر سے کیسی ہے؟ ٹھوس ہے، مائع ہے یا کھوکھلی؟
زمین کبھی ہلتی ہے اور کبھی ڈکار مارتی ہے جسے ہم زلزوں اور آتش فشانی عمل کے ذریعے دیکھ لیتے ہیں اور اس نے ہمیں بہت کچھ بتا دیا ہے کہ زمین اپنے پیٹ میں کیا رکھے ہوئے ہے۔
ڈینسیٹی کے کام تو ہم دیکھتے رہتے ہیں۔ پتھر پانی میں ڈوب گیا مگر لکڑی تیرتی رہی۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے سیارے کا سب سے کم کثیف حصہ جو ہوا ہے، وہ مرکز سے سب سے دور ہے۔ کثافت میں اس سے اگلا نمبر کرسٹ کا ہے جو ہمارے پاؤں تلے ہے۔ آپ مٹی سے کم کثیف ہیں تو اس میں دھنستے نہیں۔ آپ کے سر کے اوپر فضا کا ایک ٹن موجود ہے لیکن یہ اتنا کثیف نہیں کہ آپ اس سے اوپر نکل جائیں۔ جیولوجسٹ اس بنیاد پر زمین کی تہوں کو نام دیتے ہیں کہ وہ کس سے بنی ہیں اور فزیکلی کیسی ہیں۔ اس کی شکل ساتھ لگی تصویر سے لیکن یہ ایسی کیوں؟ اس کے لئے ہمیں کچھ ماضی میں جانا پڑے گا۔ زمین کی پیدائش سے بھی پہلے۔
کائنات جب کم عمر تھی تو ہائیڈروجن یا ہیلئم پر ہی مشتمل تھی۔ ان سے ستارے بنے،ستاروں میں فیوژن ہوئی۔ ستارے عمر پوری کر کے مر گئے۔ انہوں نے موت کے دوران بھاری عناصر کو اُگل دیا جن میں سب سے زیادہ کاربن، آکسیجن یا نائیٹروجن تھے۔ ان کے علاوہ نِکل، سونا اور لوہا۔ بہت سا لوہا۔ (سُپرنووا سے باہر سب سے مستحکم بھاری عنصر لوہا ہے)۔
پھر ہائیڈروجن اور ہیلیم اور سے نئے ستارے بنے۔ بھاری عناصر نے ٹکرا کر دھول اور ملبہ بنا دیا جس نے ان کے ارد گرد گھومنا شروع کیا۔ یہ پروٹوپلینٹری ڈِسک تھی۔ اس ملبے سے سیارے بنے، چاند، شہابیے، دمدار ستارے اور دوسرے فلکیاتی اجسام۔ ہمارا نظامِ شمسی بھی ایسے بنا۔
جب نظامِ شمسی کم عمر تھا اور اندرونی درجہ حرارت زیادہ تو ہلکے عناصر سورج سے زیادہ دور جا کر آپس میں ملے۔ اس وجہ سے پہلے چار سیارے کثیف اور پتھر والے ہیں جبکہ باہری بڑے سیارے گیس جائنٹ۔
جب نوزائیدہ زمین بڑی ہونا شروع ہوئی، ریڈیو ایکٹیویٹی، گریویٹی اور بڑے دھماکوں سے پتھر اور معدنیات کا مکسچر پگھل گیا۔ یہ وہ وقت تھا جب تہیں بننا شروع ہوئیں، ویسے ہی جیسے گلاس میں الگ نظر آتی ہیں۔ لوہا اور نِکل سب سے بھاری تھے۔ وہ مرکز کی طرف چلے گئے۔ ہلکے عناصر جیسا کہ ایلومینیم یا سلیکون مرکز سے دور اور سطح کے قریب۔ اندرونی کور پر پریشر زمین کی سطح کے مقابلے میں تیس لاکھ گنا زیادہ ہے۔ اگرچہ اس کا درجہ حرارت سورج کی سطح کے درجہ حرارت جتنا ہے لیکن یہاں پر پایا جانے والا لوہا ٹھوش شکل میں ہے، مائع نہیں۔ بیرونی کور مائع ہے کیونکہ یہ گرم تو ہے لیکن پریشر اتنا نہیں۔ یہ ہمیں زلزوں سے جمع کردہ ڈیٹا سے پتہ لگتا ہے۔
زلزلے کی کچھ لہریں جب زمین میں سفر کرتی ہیں تو بیرونی مائع کور ان کا راستہ بدل دیتی ہیں۔ ہمیں زلزلے کے لہریں زمین کی بالکل اُلٹی طرف زلزلے کے سائے بنتے ہیں۔ (یہ سائے دوسری تصویر میں)۔ ان سے ہمیں زمین کے اندرونی سٹرکچر کی معلومات ملتی ہے۔
عطارد سورج سے اتنا قریب ہے کہ اس کا فضائی غلاف نہیں بچا لیکن زمین کے اندر پگھلے ہوئے مائع کی کور کی وجہ سے ہماری زمین کا فضائی غلاف محفوظ ہے۔ دھات کی کنوکشن کی حرکت کی وجہ سے مقناطیسی فیلڈ پیدا ہوتا ہے جو زمین کو سولر وِنڈ سے محفوظ رکھتا ہے، ورنہ ریڈی ایشن کے آنے کی وجہ سے زمین پر زندگی نہ ہوتی اور فضائی غلاف بھی اس طرح کا نہ ہوتا۔
زمین ٹھنڈی ہو رہی ہے (بہت آستگی سے اور جیولوجیکل سکیل پر)۔ اندر سے مائع باہر آ رہی ہے۔ زمین کی مائع کور کہ موٹائی کم ہو رہی ہے اور یہ ٹھوس بن رہی ہے۔ ہر زلزلہ جو ہم محسوس کرتے ہیں، یہ اس کے سرد ہونے کی طرف ایک قدم ہے۔ یہ مکمل پتھر بننے کی راہ پر ہے لیکن اس سے بہت پہلے نظامِ شمسی ہی ختم ہو چکا ہو گا۔