کسی جھگڑے کی وجہ ایک لفظ، ایک رائے، ایک مسکراہٹ، ایک گالی ہو سکتی ہے۔ غصہ بھڑک اٹھتا ہے۔ چاقو نکل آتا ہےِ، خواہ وہ سو روپے کے اوپر ہونے والی لڑائی ہو۔ چھوٹی باتوں پر ریاستوں کے درمیان جنگیں چھڑ جاتی ہیں۔ فٹ بال کے میچ پر ال سلواڈور اور ہنڈرس کے جنگ ہو (تفصیل نیچے لنک سے) یا قومی غیرت کے نام پر برطانیہ کی فاک لینڈ میں۔ ذاتی اور قومی غیرت کے نام پر کی گئی لڑائیاں اتنی غیرمنطقی نہیں ہوتیں کیونکہ کوئی سپرمین کے کان پر چٹکی نہیں کاٹ کر نہیں بھاگتا۔ ہم سپرمین نظر آنا چاہتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
غیرت کے کلچر عالمی انسانی جذبات سے جنم لیتے ہیں۔ فخر، غصہ، خاندانی سے محبت اور انتقام۔ جہاں پر قانون نہ ہو یا قیمتی چیزوں کا چھین لئے جانا آسان ہو، وہاں پر تشدد بڑھ جاتا ہے۔ مثال کے طور پر جانور پالنے والے، کسانوں کے مقابلے میں زیادہ تشدد پسند اس لئے رہے ہیں کہ فصل چھیننے کے مقابلے میں جانور چھیننا زیادہ آسان ہے۔ جواب میں طاقت استعمال ہونے کا خوف نہ ہو تو جانور پالنے والے مشکل میں ہوں گے۔
جہاں پولیس اس کام میں مدد مل جائے تو لوگ اپنا بدلہ اور اپنی لڑائی پولیس کے حوالے کر دیتے ہیں۔ طاقتور پولیس، ریاست کا ایک طریقے کے تحت لیا جانے والا انتقام معاملہ ختم کر دیتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہوبز کے مطابق تشدد اور انتقام کوئی قدیم غیرمنطقی جذبہ نہیں ہے۔ یہ اپنی فلاح لئے سوچنے والے جانداروں کے لئے متحرک معاشرے میں رہنے کے لئے بڑا معقول جذبہ ہے۔ اس کا جواب اور اس سے بچاوٗ کا طریقہ طاقت ہے، جس سے جارح کو اپنے رویے سے فائدہ نہ مل سکے۔ ایک دوسرے سے کئے گئے وعدے اور معاہدے نبھائے جا سکیں۔ صرف لفظ نہیں، تلواریں اور بندوقیں امن قائم کرتی ہیں۔ طاقت کی پشت پناہی کے بغیر کچھ بھی نہیں کام کرتا۔ ریاست کی بے رحم رِٹ ایک معاشرے کے اندر امن قائم رکھنے کا سب سے کامیاب طریقہ رہا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دنیا میں کئی جگہ ایک اور مسئلہ جو پیدا ہو جاتا ہے، وہ پولیس کی پولیسنگ ہے۔ طاقت بہت جلد خراب کر دیتی ہے۔ مسلح افراد، خواہ پولیس کی وردی میں ہوں، قابلِ اعتبار نہیں جب تک کہ ان پر کڑا ریاستی کنٹرول نہ ہو۔ اس کی بدترین مثال کیمرون اس بھگت رہا ہے جہاں پر جرائم ختم کرنے کے لئے بنائے گئے جتھے اس وقت بے قابو ہیں اور ان کا کنٹرول کسی کے بس میں نہیں رہا۔ قانون نافذ کرنے والوں کے بےقابو ہو جانے نے یہاں کا پورا معاشرہ ہی گرا دیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک وقت میں عالمی امن کا قیام بڑا آسان لگتا تھا۔ اور یہ سبق بار بار ملتا رہا ہے کہ امن جنگ سے دور رہنے کا نام نہیں۔ تشدد کا جواب عدم تشدد نہیں ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں امن بڑی حد تک حاصل کیا جا چکا ہے۔ آج کا یورپ صدیوں کے قتلِ عام کے بعد نکلا ہے۔ امریکہ میں تشدد کے استعمال سے۔ آج کا انتہائی پرامن سکینڈے نیویا انتہائی متشدد وائکنگز نے آباد کیا تھا۔ کینیڈا میں چونکہ آبادی ایک ترتیب سے تھوڑے علاقے میں بڑھی تھی تو ریاستی قانون کا نظام نئے آبادکاروں سے پہلے پہنچا تھا۔ تشدد کینیڈا میں اس وجہ سے نہیں رہا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ دنیا میں کوئی بھی تشدد کو پسند نہیں کرتا۔ سوال صرف یہ رہ جاتا ہے کہ امن کس بنیاد پر؟ جیسا چرچل نے کہا تھا، “لوگ کہتے ہیں کہ جنگ بدترین شے ہے۔ نہیں۔ ذلت جنگ سے بدتر ہے۔ غلامی جنگ سے بدتر ہے”۔
امن کی آرزو دنیا میں سب کا خواب رہی ہے اور ہے۔ ان کی بھی جو جھگڑوں اور جنگوں میں حصہ لیتے ہیں۔ نیوگنی کے مقامی کے مطابق “جنگ میری فصل کو خراب کر دیتی ہے، زمین چھین لیتے ہیں، دوست مار دیتی ہے۔ لیکن میرے پاس کوئی چارہ بھی تو نہیں۔” یا پھر پہلی جنگِ عظیم میں وہ کئی واقعات برطانوی اور جرمن فوجیوں نے خندقوں میں بیٹھے ایک دوسرے پر گولی چلانے سے انکار کر کے اپنے طور پر غیرسرکاری امن کا معاہدہ کر لیا۔ اکٹھے کھانے پینے لگے۔ ایک فوجی افسر جس نے اس طرح امن میں پہل کی تھی، اس کا کہنا تھا، “میں گولی کیوں چلاوٗں؟ یہ سب کچھ آخر کیوں؟”۔
دنیا میں بدترین دشمن ایک دوسرے سے لڑائی میں پیچھے ہٹتے رہے ہیں، صلح کرتے رہے ہیں۔ کیوبا میزائل بحران کے وقت خوردشیف نے کینیڈی کو خط لکھا، “ہم ایک تنی ہوئی رسی کے دو سرے کھینچ رہے ہیں، جتنے زور سے کھینچیں گے، اتنی مضبوطی سے گرہ بندھ جائے گی۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ایسا وقت آ جائے کہ ہم دونوں اس کو کھول نہ سکیں”۔
ان پھندوں کو پہچان لینا، اکٹھے مل کر ان کی گرہیں کھول کر فرار ہو جانا ۔۔۔۔ یہ ایسا کام نہیں جو پہلے نہیں کیا جا چکا۔ گیم تھیوری سے ہمیں پتا لگتا ہے کہ یکطرفہ فیصلے دونوں اطراف کے لئے نقصان دہ ہوتے ہیں۔ (قیدی کے مخمصے کے بارے میں تفصیل نیچے پوسٹ سے)۔ ان سے باہر نکلنے کا واحد طریقہ رُول تبدیل کر دینے کا ہے اور اس گیم سے باہر نکلنے کا راستہ تلاش کرنے کا ہے۔ یہ صرف اکٹھے کیا جا سکتا ہے۔
قوموں میں مصالحت کروانے والے ہوبز کے پھندوں سے نکلنے کے طریقوں کی تلاش میں ہوتے ہیں۔ کئی بار کامیابی بھی ہوتی ہے لیکن یہ آسان نہیں۔ ترکی اور گریس کے درمیان صلح کی کوشش کروانے والے ڈپلومیٹ ملٹن ولکنسن کہتے ہیں کہ “مجھے ہمیشہ کنفیوژن رہی کہ اعتماد کی بحالی کی تمام کوششوں کے باوجود آخر مخالف ایک دوسرے کے خلاف اتنی نفرت کیوں رکھتے ہیں، اتنا پروپیگنڈہ کیوں کرتے ہیں۔ حقائق کو اتنا مسخ کیوں کرتے ہیں۔ ادونوں اطراف سے جو بھی صلح جوئی کی بات کرتا ہے، اسکو غدار کیوں قرار دیتے ہیں۔ ہمارے تمام پلان، کوششیں قومی انا اور خود فریبیوں کی نظر ہو گئیں۔ ان کی تلخیاں ماضی سے تھیں۔ ہم آج کی دنیا کے حساب سے کام کرنے کی کوشش کر رہے تھے”۔
کوگنیٹو سائنس سے ہمیں یہ پتا لگتا ہے کہ نہ صرف ہم سوچ رکھتے ہیں بلکہ سوچ کے بارے میں بھی سوچ رکھتے ہیں اور سوچ کے بارے میں سوچ کے بارے میں بھی سوچ رکھتے ہیں۔ انا اور غیرت غیرضروری نہیں۔ خود کو اور دوسروں کو ان کی نظر سے دیکھنا، اپنی خود فریبی پہچاننے کی کوشش کرنا بھی ضروری ہے۔ تنازعہ حل کرنے والے اور کروانے والے کو انسانی فطرت کا خیال رکھنا ضروری ہے۔
بہت سے دانشور تشدد کی ارتقائی تاریخ سے نظریں چراتے ہیں کہ گویا تشدد کو فطرت تسلیم کر لیا تو تشدد کو قبول کر لیا۔ لیکن اگر تشدد کی منطق نہ سمجھی جائے تو یہ بھی بھول جائیں گے کہ یہ کس قدر جلد بھڑک اٹھتا ہے۔ اگر اس کو بھڑکانے والے حصوں کو نظرانداز کریں گے تو اس کو بجھانے والے حصے تک نہیں پہنچ سکیں گے۔
انسانی فطرت سب مسائل کی جڑ ہے۔ انسانی فطرت ان سب مسائل کا حل ہے۔
اسکو تفصیل سے پڑھنے کے لئے کتاب
The Anatomy of Violence: Adrian Raine