مندرجہ ذیل گفتگو کیتھرین ہیہو کی ہے جو ٹیکساس ٹیک یونیورسٹی میں فضائی سائنس کی پروفیسر ہیں، ان کی گفتگو انہی کے اپنے الفاظ میں۔
“امریکہ میں پروفیسر بننے کے بعد پہلے سال میں نے جیولوجی کی ایک کلاس کو لیکچر دیا۔ اس میں کاربن سائکل کی تاریخ کے بارے میں بتایا۔ لیکچر کے آخر میں جو پہلا سوال مجھ سے کیا گیا، وہ یہ تھا کہ، “آپ ڈیموکریٹ پارٹی کو ووٹ دیتی ہیں۔ ہے نا؟”۔ میں نے کہا کہ “نہیں، میں تو کینیڈین ہوں”۔ یہ میرے لئے ایک اداس کر دینے والی حقیقت سے آشنائی تھی۔ آپ سائنس کے بارے میں اور حقائق سے متفق ہونے کی کسوٹی اس چیز کو بناتے ہیں آپ کے نظریات کیا ہیں۔ آپ جتنے بھی سمارٹ ہیں، آب و ہوا کے بارے میں جو بھی جانتے ہیں، آپ کے اس سے اتفاق کرنے کے لئے یہ دیکھتے ہیں کہ میرے نظریاتی حلیف اس بارے میں کیا کہہ رہے ہیں۔ یہ خطرناک ہے۔
کیا تھرمامیٹر کا پارہ اس میں تمیز کرتا ہے کہ آپ لبرل ہیں یا کنزرویٹو؟ ظاہر ہے کہ نہیں۔ اگر پارہ یہ بتا رہا ہے کہ دنیا کے درجہ حرارت میں اضافہ ہو رہا ہے، اس کی وجہ انسانی سرگرمیاں ہیں اور ہمیں توانائی کی متبادل ذرائع جلد سے جلد ڈھونڈنا ہیں تو کچھ لوگ اس بارے میں کسی بھی بات کی مخالفت کرتے ہیں، خواہ اپنی موجودہ زندگی کا طریقہ برقرار رکھنے کی جتنی بھی بھاری قیمت چکانا پڑے۔ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ وہ یہ اعتراف نہیں کرنا چاہتے کہ “ہاں، یہ مسئلہ تو ہے لیکن میں اس کو ٹھیک نہیں کرنا چاہتا” اور اس کے بجائے اس عذر کے پیچھے چھپنا آسان لگتا ہے کہ “نہیں، ایسا تو کچھ بھی نہیں ہے اور اگر ہے تو بس قدرت کے کھیل ہیں۔ یہ سائنسدان جھوٹ کہتے ہیں”۔
اس قسم کے رویے کا تعلق سائنس سے نہیں، ہمارے نظریات اور شناخت سے ہے۔ حقائق کا انکار کرنے والے لوگوں اور سیاستدانوں کے بولے گئے جھوٹ اسی وجہ سے ہوتے ہیں۔
جب ہم عوامی رائے کا ڈیٹا دیکھتے ہیں تو ستر فیصد عوام اس سے متفق ہیں کہ درجہ حرارت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اس سے بھی متفق ہیں کہ اس سے پودوں اور جانوروں کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ اس سے بھی متفق ہیں کہ اس وجہ سے آئندہ آنے والی نسلوں کو نقصان پہنچے گا۔ لیکن جب اس کی کچھ گہرائی میں جائیں تو پتا لگتا ہے کہ مسئلہ کیا ہے۔ ان میں سے صرف ساٹھ فیصد کا خیال ہے کہ یہ صرف دوسروں کا ہی نہیں، ہمارا اپنا مسئلہ بھی ہے اور صرف چالیس فیصد ایسا سمجھتے ہیں کہ ان کو ذاتی طور پر اس سے کوئی فرق پڑ سکتا ہے۔
اور پھر جب ہم لوگوں سے پوچھتے ہیں کہ کیا آپ کبھی اس ٹاپک پر دوسروں سے بات چیت کرتے ہیں تو اکثریت کا جواب ہوتا ہے، “کبھی نہیں” اور اس سے بھی زیادہ برا یہ کہ جب ہم ان سے پوچھتے ہیں کہ “کیا آپ نے کبھی میڈیا پر اس بارے میں گفتگو سنی ہے؟” تو اس کا جواب کم ہی اثبات میں ہوتا ہے۔ سیارہ گرم ہو رہا ہے۔ بارش کا پیٹرن بدل رہا ہے۔ طوفان شدت اختیار کر رہے ہیں۔ سائنسدان اپنی پیشگوئی کر رہے ہیں۔ اس سے آنکھ بند کرنے والے اپنا رویہ مزید سخت کر رہے ہیں، نئی کہانیاں گھڑ رہے ہیں اور لوگوں کو مزید گمراہ کر رہے ہیں۔ یہ شیطانی چکر توڑا کیسے جائے؟
اس کے بارے میں سب سے اہم چیز جو کی جا سکتی ہے، بالکل وہی ہے جو ہم کر نہیں رہے۔ یعنی اس کے بارے میں بات چیت کی جائے۔ ہو سکتا ہے کہ آپ کہیں کہ “میں تو سائنسدان ہی نہیں۔ میں ریڈی ایٹو فورسنگ یا بادلوں کی پیرامیٹرائزیشن جیسی چیزوں کو نہیں سمجھتا۔ میں کیسے بات کر سکتا ہوں؟” اصل میں ہمیں سائنس کی زیادہ بات کی ضرورت ہی نہیں۔ ہم سائنس کے بارے میں تو ڈیڑھ سو سال سے بات کر رہے ہیں۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ کلائمیٹ سائنٹسٹ ڈیڑھ سو سال پہلے دریافت کر چکے تھے کہ کوئلہ، گیس اور تیل جلانے سے نکلنے والی گیسیں سیارے کے لئے کمبل کا کام کریں گی۔ اور اس بات کو پچاس سال ہو چکے ہیں جب سائنسدانوں نے سیاسی قیادت کو بدلتے موسم کے خطرات سے باقاعدہ طور پر آگاہ کر دیا تھا۔ اور جو بات ہمیں سوشل سائنس سکھا چکی ہے، وہ یہ کہ اگر حقائق مسترد کرنا کسی کی شناخت کا حصہ بن جائے، تو ایسے افراد حقیقت پر بات کرنے کو شخصی حملہ سمجھتے ہیں اور ان کا اس کو رد کر دینے پر موقف سخت تر ہو جاتا ہے۔ ایسا کرنا پُل نہیں بناتا، خندق کھودتا ہے۔
تو پھر اگر ہمیں اس کی سائنس پر بات نہیں کرنی تو پھر کس پر کرنی ہے؟ سب سے ضروری اور سب سے اہم چیز یہ سمجھنے کی ہے کہ وہ بات اثر رکھتی ہے جو دماغ سے نہیں، دل سے کی جائے۔ ڈیٹا سے نہ کی جائے، اپنی مشترک اقدار سے کی جائے۔ ان باتوں کے بارے میں کی جائے، جن کی ہم سب پرواہ کرتے ہیں۔ کیا ہم والدین ہیں؟ کیا ہم ایک کمیونیٹی سے تعلق رکھتے ہیں؟ کیا ہم ایک جیسے شوق پسند کرتے ہیں؟ سائیکل چلانا، مچھلیاں پکڑنا، سیر پر جانا، شکار کرنا؟ کیا ہم معیشت کی اور قومی سلامتی کی پرواہ کرتے ہیں؟ میرے اپنے لئے کسی سے کنکٹ ہونے کا سب سے بنیادی طریقہ اپنی مشترک مذہبی اقدار کے ذریعے رہا ہے۔ بطور کرسچن، میرا ایمان ہے کہ خدا نے اس خوبصورت اور اس شاندار سیارے پر ہمیں بھاری ذمہ داری سونپی ہے۔ یہ ذمہ داری اس پر بسنے والی تمام مخلوقات کی حفاظت کی ہے۔ میرا یہ بھی ایمان ہے کہ یہ ہمارا فرض ہے کہ ہم دوسروں کی پرواہ کریں اور ان سے محبت کریں جو زندگی میں ہمارے جتنے خوش قسمت نہیں۔ وہ جو پہلے ہی بھوک، غربت اور بیماری جیسے چیزوں کی وجہ سے تکلیف میں ہیں۔ موسم اور ماحول کا خراب ہونا سب سے زیادہ ان کو متاثر کرتا ہے۔
اگر آپ کو دوسروں کی اقدار کے بارے میں نہیں جانتے تو ان سے بات کریں، ان کو جانیں کہ ان کے لئے کیا اہم ہے۔ پھر اپنی اور ان کی اقدار کے مشترکہ پہلووٗں کے حوالے سے بات کریں۔ پچھلی دہائی میں ہزاروں لوگوں سے بات کرنے کے بعد اب مجھے پورا یقین ہے کہ اس دنیا میں تمام لوگ وہ اقدار رکھتے ہیں جو انہیں اس بدلتے موسم کی پرواہ کرنے پر مجبور کرتی ہیں۔ صرف انہوں نے یہ تمام نقطے نہیں جوڑے۔
مجھے بدلتے ماحول کی پرواہ اس وجہ سے ہے کہ میں ایک ماں ہوں اور مجھے اپنے بچوں کے مستقل کی فکر ہے۔ مجھے یہ پرواہ اس لئے ہے کہ میں جس جگہ پر رہتی ہوں، وہاں پر پانی کی پہلے ہی قلت ہے اور یہ مسئلہ اسے مزید بگاڑ رہا ہے۔ مجھے یہ پرواہ ایک کرسچن ہونے کے ناطے ہے۔ مجھے یہ پرواہ اس لئے ہے کہ میں جانتی ہوں کہ اس سے پیدا ہونے والے مسئلے ہمارے قومی سلامتی کو متاثر کریں گے۔
آپ کو اس پر بات کرنے کے لئے کوئی خاص سیاسی یا سماجی ںظریہ نہیں رکھنا، صرف ایک انسان ہونا کافی ہے۔ کیونکہ آپ جہاں پر بھی رہتے ہیں، جو کچھ بھی کرتے ہیں۔ یہ مسئلہ آپ کا اپنا ہے۔ اگر آپ سمندر کے قریب رہتے ہیں، آپ کو خطرہ سمندر کی سطح بڑھنے سے ہے۔ اگر آپ جنگل کے قریب ہیں تو جنگل کی آگ سے ہے۔ کہیں پر طوفانوں اور سیلابوں سے ہے، کہیں خشک سالی سے ہے۔ ہم سب متاثرین ہیں۔
چلیں تو پھر سب کو ڈرانا شروع کر دیں؟ اس کے لئے تو اب بڑا مواد مل گیا ہے۔ نہیں، نہیں اور نہیں۔
خوف کبھی طویل مدت کی پہلاننگ میں مدد نہیں کرتا۔ کبھی مستقل تبدیلی خوف کے باعث نہیں آتی۔ خوف بھگا دینے یا چھپ جانے میں مدد کرتا ہے یا صرف اپنے آپ کو بچانے کے لئے مفید ہوتا ہے۔ چیزوں کو ٹھیک کرنے کے لئے، طویل مدت کی پلاننگ کے لئے ایک اور جذبہ ہے۔ یہ جذبہ “حقیقت پسند امید” کا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمیں مسائل کا احساس کرنا ہے۔ لیکن ساتھ ایک بہتر مستقبل کی تصویر۔ ایک مستقبل جس میں توانائی کا بحران نہ ہو، جس میں معیشت مستحکم ہو، وسائل ہر ایک کے پاس ہوں، ہمارے زندگی کا معیار آج سے بدتر نہیں، آج سے بہتر ہو۔ اور پھر اس تک پہنچنے کا راستہ دیکھنا ہے۔ عملی، ممکن اور کئے جا سکنے والے حل بھی۔ ہاں، اس تک پہنچنے کا کوئی ایک بڑا حل یا ایک بڑا کام نہیں۔ کرنے کے بہت سے چھوٹے بڑے کام ہیں۔
کئی چھوٹے کام ایسے ہیں، جو ہماری جیب پر بوجھ نہیں ڈالتے، کچھ بچاتے ہی ہیں۔ چیزوں کا بے جا استعمال نہ کرنا، توانائی ضائع ہونے سے بچانا، بجلی کا بٹن بجھا دینا، پانی کے استعمال میں احتیاط برتنا، کھانے میں گوشت کا استعمال کم کر دینا، مقامی اگنے والی چیزوں کا استعمال زیادہ کر لینا۔
ایسا نہیں کہ اس بارے میں کچھ ہو نہیں رہا۔ امریکہ میں ٹیکساس میں کاربن کا اخراج سب سے زیادہ ہے اور سب سے بڑی تیل کی صنعت ہے لیکن اب اس ریاست میں پچیس ہزار ملازمتیں ہوا سے توانائی پیدا کرنے پر ہیں۔ یہاں پر امریکہ کی فوج کا سب سے بڑا بیس فورٹ ہُڈ شمسی اور ہوائی توانائی کو استعمال کر رہا ہے۔ دنیا کے غریب ترین علاقے سب صحارا کے دیہات میں، جہاں پر مٹی کے تیل کے علاوہ توانائی کا کوئی اور ذریعہ نہیں رہا، اب نئی اور اچھوتی مائیکروفائنس سکیموں کی مدد سے شمسی توانائی متعارف ہو رہی ہے۔ آزوری نامی کمپنی روانڈا سے یوگنڈا تک گیارہ ممالک میں ایک لاکھ کے قریب شمسی یونٹ دے چکی ہے۔ لوگ اپنے موبائل فون سے توانائی خرید کر ادائیگی کر سکتے ہیں۔
برِصغیر اور چین میں ہوا کی کوالٹی اچھی نہیں۔ اس علاقے میں رہنے والوں کو بھی صاف توانائی کی ضرورت کا احساس ہے۔ چین صاف توانائی پر سینکڑوں ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کر رہا ہے۔ اپنی کوئلے کی کانیں بند کر رہا ہے اور شمسی پینل چین کی زمین پر ابھر رہے ہیں۔ ہاں، چین میں کوئلہ اس وقت بھی بہت استعمال ہو رہا ہے لیکن چین نے بیجنگ کے قریب کوئلے سے چلنے والے توانائی کے تمام پلانٹ بند کر دیے ہیں۔ انڈیا تمام بلبوں کو ایل ای ڈی سے بدل رہا ہے۔ گاڑیوں کے دھویں پر اقدامات لے رہا ہے۔ متبادل توانائی میں روزگار پیدا کرنے کے لئے سرمایہ کاری کر رہاہے۔ انڈیا دنیا کا پہلا صنعتی ملک بن سکتا ہے جس کا پرائمری طور پر انحصار فوسل فیول پر نہ ہو۔
دنیا کئی لحاظ سے ٹھیک سمت میں بدل رہی ہے۔ مسئلہ صرف یہ ہے کہ اتنی تیزی سے نہیں جتنی تیزی سے بدلنے کی ضرورت ہے۔ بہت بار اس مسئلے ایسے تصویر پیش کی جاتی جیسے کسی وادی کی تہہ میں بڑا بھاری پتھر ہو جس کو صرف چند ہاتھ اوپر لے جانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ تصویر ٹھیک نہیں۔ یہ پتھر وادی کی تہہ میں نہیں۔ کروڑوں ہاتھ اسے اوپر لے جانے کی کوشش کر رہے ہیں اور کروڑوں (یا شاید اربوں) اسے نیچے دھکیل رہے ہیں۔ اس توازن کو ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے اور یہ اس رفتار سے نہیں ہو رہا جس سے ہونا چاہیے۔ تو پھر اس کو کیسے بدلا جائے؟ جی، آپ نے ٹھیک اندازہ لگایا۔ اس کا نمبر ون طریقہ یہ ہے کہ اس کے بارے میں بات کر کے۔
خلاصہ یہ ہے کہ ماحولیاتی تبدیلی آپ کو اور مجھے متاثر کر رہی ہے۔ اس وقت اور اسی جگہ پر جہاں ہم اس وقت ہیں۔ اور اگر ہم سب مل کر کام کریں تو ہم اس کو ٹھیک کر سکتے ہیں۔ ہاں، یہ ایک بڑا چیلنج ہے۔ بطور کلائمیٹ سائنٹسٹ، مجھے اس کا بہت اچھی طرح پتا ہے۔ لیکن خوف، مایوسی یا پھر انکار اس پر سب سے برا ردِ عمل ہے۔ امید، حوصلہ اور عمل۔ یہ اس کو حل کرنے کے اور ایک بہتر مستقبل کے ہتھیار ہیں۔
یہ شروع کیسے ہو گا؟ چلیں، آب و ہوا کی بات کریں۔
شکریہ۔ “
ان کی گفتگو سننے کے لئے