جب ایک درخت کی کسی ایک شاخ سے پولن اڑتا ہے تو سب سے زیادہ امکان اس کا ہے کہ وہ اپنے ہی کسی اور ٹہنی میں جا کر گرے گا کیونکہ اپنی ہی شاخیں سب سے قریب ہیں۔ اور اپنی ہی مادہ پھول کو فرٹیلائیز کر دے گا۔ لیکن اگر ایک درخت اپنی سے ہی تولیدی عمل کر کے نسل آگے بڑھائے گا تو اس میں جینیاتی تنوع نہیں آ پائے گا۔ اپنے جینیاتی پول میں تنوع رکھنا جانداروں کے لئے ضروری ہے، خواہ جانور ہوں یا نباتات۔ جانوروں کے لئے اس سے بچنے کا پروگرام ان کے ڈی این اے میں لکھا ہے۔ درخت، جو جگہ سے ہل نیہں پاتے، وہ یہ کام کیسے کر لیتے ہیں؟ اس کے لئے ان کے پاس طرح طرح کے حربے ہیں۔
سفیدے کا درخت اس پر ٹائمنگ پر بھروسہ کرتا ہے۔ ایک درخت میں نر اور مادہ چند دن کے فاصلے سے کھلتے ہیں تا کہ جب مادہ کا پھول کھلے تو اس پر گرنے والا پولن کسی دوسرے درخت سے آیا ہو۔ برڈ چیری کے درخت کیلئے یہ آپشن نہیں ہے کیونکہ اس کا انحصار کیڑوں پر ہے۔ اس کے نر اور مادہ اکٹھے ہی کھلتے ہیں۔ جب مکھی اس کا پولن لے کر جائے گی تو سب سے زیادہ امکان ہے کہ اسی کے کسی مادہ پھول پر بیٹھے گی۔ لیکن برڈ چیری اس کے لئے تیار ہے، اور بھانپ لیتا ہے کہ ان بریڈنگ کا خطرہ ہے۔ جب پولن کا ذرہ اس کے سٹگما پر آ کر گرتا ہے تو جینز ایکٹیویٹ ہوتی ہیں اور ایک نازک سی ٹیوب بنتی ہے جو اووری تک انڈے کی تلاش میں پہنچتی ہے۔ اس عمل کے دوران درخت اس پولن کا جینیاتی میک اپ ٹیسٹ کرتا ہے۔ اگر یہ اپنے سے ہی میچ کرتا ہو تو اس ٹیوب کو بڑھنے سے روک دیتا ہے اور یہ خشک ہو جاتی ہے۔ خود اپنا پولن اپنی اووری تک نہیں پہنچ سکتا۔ نر اور مادہ جب تک الگ درختوں سے نہ ہوں، یہ ملاپ نہیں ہو پاتا۔ برڈ چیری یہ “جینیاتی ٹیسٹ” کرتا کیسے ہے؟ ہمیں ٹھیک سے نہیں پتا۔ ہمیں یہ پتا ہے کہ یہ ٹیسٹ ہوتا ضرور ہے اور درخت اس کو محسوس کر لیتا ہے۔ اس سے ایک دلچسپ سوال پیدا ہوتا ہے۔ کیا درخت فزیکل محبت کے اس عمل کو محسوس بھی کر سکتے ہیں؟ (ابھی یا مستقبل قریب میں اس پر محض قیاس آرائی ہی کی جا سکتی ہے)۔
کچھ انواع کے پاس ان سے زیادہ موثر حربے ہیں۔ یہ جنس کی علیحدگی ہے۔ ہر درخت کی اپنی جنس۔ نر پھول الگ اور مادہ پھول الگ۔ جنسوں کی علیحدگی کے اس طریقے کا مطلب یہ کہ بیدِ مجنوں جیسے درخت خود اپنے سے ملاپ کر ہی نہیں سکتے۔ لیکن ان کا ایک اور مسئلہ ہے۔ اگر ان کو پولینیٹ کرنے والی شہد کی مکھی پہلے مادہ پھول پر جائے اور پھر نر پھول پر تو درخت کو فائدہ نہیں ہے، پولینیشن نہیں ہو گی۔ اس کو طریقہ ڈھونڈنا ہے کہ مکھی پہلے نر کے پاس آئے اور پھر مادہ کی طرف جائے۔ اس کے پاس ایسا کرنے کا طریقہ ہے۔ سائنسدانوں نے دریافت کیا ہے کہ یہ درخت کیڑوں کو لبھانے کے لئے خاص خوشبو خارج کرتا ہے۔ جب یہ مکھی ان کے جھنڈ تک پہنچتی ہے تو لبھانے کا طریقہ بصری سگنلز کے ذریعے ہو جاتا ہے۔ اس کام کیلئے نر درخت محنت کرتا ہے اور اپنے پھولوں کو چمکدار زرد رنگ کا بناتا ہے۔ اس وجہ سے شہد کی مکھیاں پہلے اس کے پاس آئیں گی۔ جب یہ میٹھا رس چوس لیں گی تو پھر جا کر مادہ درختوں کے زیادہ مشکل سے نظر آنے والے سبز پھولوں کے پاس پہنچیں گی۔
ہوا اور کیڑے دونوں لمبا سفر کر سکتے ہیں اور پولن کو دور تک بکھیر سکتے ہیں اور جینیاتی پول تازہ ہوتا رہتا ہے۔ لیکن جس طرح ممالیہ میں ان بریڈنگ ممکن ہے، ویسے ہی ان طریقوں کے باوجود درختوں میں بھی۔ اگر کسی نوع کے تھوڑے سے درخت اکیلے کھڑے رہ جائیں تو پھر جینیاتی تنوع کے گُم ہو جانے کا امکان بڑھ جاتا ہے۔ الگ تھلگ درختوں میں اس تنوع کی کمی ان کو کمزور کر دیتی ہے اور چند ہی صدیوں میں یہ ختم ہو جاتے ہیں۔