ساتھ لگی تصویر کوکو کے درخت کی ہے۔ یہ ٹراپیکل ماحول میں اگتا ہے اور اس کا پھل خربوزے کے سائز کا ہے۔ عجیب بات یہ ہے کہ یہ کسی شاخ پر نہیں، براہِ راست تنے پر لگتا ہے۔ یہ عجیب لگنے والا پھل دنیا کا بڑا بزنس ہے۔
مائیوسین کے دور میں جنوبی امریکہ میں برِاعظمی پلیٹوں کے ٹکرانے سے بننے والے کوہِ اینڈیز نے اس علاقے کی زندگی پر گہرے اثرات ڈالے۔ ساڑھے گیارہ ملین سال قبل یہاں پر نباتات کی ارتقائی تاریخ کا اہم موڑ آیا۔ کئی نئی انواع ملواسائی سے الگ ہوئیں۔ ان میں سے ایک تھیوبروما بھی تھا جس کا گھر لاطینی امریکہ تھا۔ ٹراپیکل ماحول میں اگنے والا درخت تھیوبروما، کوکو کا درخت کہلاتا ہے۔ پندرہ سے بیس فٹ اونچا درخت اونچے درختوں کے سائے میں اگتا تھا۔ اس پر لگنے والا انتہائی کڑوا پھل، جس میں ہر پھل کے اندر تیس سے چالیس نرم، سفید، بادام کی شکل کے بیج تھے۔ اس کڑوے پھل اور ان کے کڑوے بیجوں کے میٹھے اثرات ابھی دنیا میں آنے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دنیا میں اس سے کہیں دور انسان نے زمین پر قدم رکھا۔ ایشیا کے راستے امریکہ پہنچا۔ یہاں پر اس کی ملاقات اور تعارف اس پھل سے ہوا۔
جس نے بھی یہ پہلی مرتبہ اسے چکھا ہو گا، شاید اس کی کڑواہٹ حلق میں دیر تک رہی ہو، لیکن میسو امریکی باشندوں نے اس کا استعمال شروع کر دیا۔ اولمک اور پھر مایا نے اس سے مشروب بنا لیا اور اس کی کاشت شروع کر دی۔ یہ کئی تقریبات میں استعمال کیا جاتا تھا اور ہاں، اس مقصد کیلئے بھی جو مرد حضرات کے لئے بھی تاریخی طور پر اہم رہا ہے اور حکیموں کی کمائی کا بڑا ذریعہ بھی۔ اس کے بیج یہاں پر کرنسی کے طور پر بھی استعمال ہوتے رہے۔ اس مشروب کو چاکولاٹل کہا جاتا تھا جس کا مطلب “کڑوا پانی” تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہزاروں سال بعد سولہویں صدی میں یورپ سے آنے والے یہاں پہنچے۔ بحری جہازوں پر آئے یہ نوواردوں کی وجہ سے قسم قسم کے پودوں اور جانوروں نے بحرِ اوقیانوس پار کیا۔ یورپ سے جانور اور پودے امریکہ پہنچے۔ امریکہ سے یہ سفر یورپ کی طرف ہوا۔ ان میں کوکو کے بیج بھی تھے اور چاکولاٹل کا مشروب بھی۔
یہاں سے چاکولاٹل لے جانے والے تاجروں نے اسے چائے اور کافی کے مقابلے میں مارکیٹ کرنے کی کوشش کی۔ اس کی کڑواہٹ دور کرنے کیلئے غلاموں کی طاقت سے چلنے والی سستی چینی پہلے ہی یورپ پہنچ رہی تھی۔ چاکولاٹل کامیاب نہیں ہو سکا۔ دو سو سال تک یہ بس چند لوگوں تک محدود ایک ایگزوٹک ڈرنک رہا۔
صنعتی دور آیا۔ اس میں نئے صنعتی پراسس آئے جنہوں نے اس بیج کی قسمت بدل دی۔ سکریو پریس ایجاد ہوا۔ ڈچ چاکلیٹ وان ہیوٹن نے 1828 میں سکریو پریس کی مدد سے اس کا فیٹ الگ کیا اور ان بیجوں کو باریک پیس دیا۔ کوکو کے مشروب کی یہ شکل مقبول ہوئی۔ یہ آج تک استعمال ہوتی ہے اور ڈرنکنگ چاکلیٹ کہلاتی ہے۔
یہ ان بیجوں کی آنے والی مقبولیت، بڑے بزنس اور دنیا کی مٹھاس کی طرف ایک بڑا قدم تھا۔ دنیا میں چاکلیٹ کی آمد کا وقت ہوا چاہتا تھا۔