ٹیکنالوجی سے لے کر نظریاتی محاذوں پر سوویت یونین اور امریکہ کی جنگ بیسویں صدی میں کی بڑی ہائی لائیٹ تھی۔ اس کا ایک باب چاند پر پہنچنے کی دوڑ تھی جس میں امریکہ نے فتح حاصل کی۔ اگر آپ پچاس اور ساٹھ کی دہائی میں ہوتے تو آپ شاید اس دوڑ کے جیتنے پر سوویت یونین پر شرط لگاتے۔ سوویت یونین خلائی دوڑ میں ہر لحاظ سے آگے تھا۔ سب سے پہلے خلا میں بھیجے جانا والا سیٹلائیٹ سپوٹنک اول تھا۔ اس کے بعد چاند کی طرف کئی مشن روس نے بھیجے۔ 1959 میں لونا 3 جو نے چاند کے گرد مدار میں رہا اور چاند کی دوسری طرف کی تصاویر پہلی مرتبہ ہم تک پہنچائیں۔ 1961 میں خلا میں جانے والے ووسٹوک اول نے پہلی مرتبہ انسان کو خلا میں پہنچا دیا۔ جب کینیڈی نے 1962 میں کی گئی اپنی مشہور تقریر میں اعلان کیا کہ “ہم چاند پر جائیں گے” تو سوویت یونین کا جواب صرف خاموشی تھا۔ خردشیف کی پہلی ترجیح انسان کو چاند پر پہنچانا نہیں بلکہ بین البراعظمی میزائل تھے۔ لیکن سوویت یونین میں وہ لوگ تھے جو چاند پر جانے کا پلان کر رہے تھے۔ ان میں وہ بھی تھے جن کا نام ریاستی راز تھا۔ یہ سرجئی پاولووچ کورولیوف تھے۔ خلائی ایجنسی کے محدود لوگوں کے علاوہ ان کو صرف “چیف ڈیزائنر” کے نام سے یا پھر اپنے نام کے مخفف SP کے نام سے جانا جاتا تھا۔
کورولیوف سوویت یونین کے خلائی مشن کی کامیابیوں کا راز تھے اور ڈیزائن بیورو کے سربراہ کے طور پر انہوں نے سپوٹنک اور انسانی خلائی مشنز کے ڈیزائن کی نگرانی کی تھی۔ خلائی مشنز کے معاملے میں ان کو مکمل اتھارٹی تھی۔ ان کے گروپ نے مریخ اور زہرہ کے مشنز پر کام کیا۔ مواصلاتی، جاسوس اور موسمیاتی سیٹلائیٹ ڈیزاین کئے۔ بین البراعظمی میزائل بنائے اور سوویت چاند کے مشنز کا ڈئزائن بھی ان کے پاس تھا۔ ناسا میں کسی کے پاس اس قدر اختیار نہیں تھا۔ لیکن اپنے اثر کے باوجود ان کو مخالف ڈیزائن گروپس سے مسلسل لڑائی کرنا پڑتی تھی۔ کورولیوف چاند پر انسان پہنچانے کا مشن بھی خود چاہتے تھے لیکن پہلے یہ پراجیکٹ ان کے حریف ولادیمیر چلومی کے حوالے کر دیا گیا۔ چلومی کی ناتجربہ کاری کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس پر پیش رفت سست رفتار رہی۔ سوویت اپنے ڈیزائن کے پلان بنا رہے تھے۔ ایک وقت میں لانچر اور خلائی جہاز کے تیس ڈیزائن بنائے جا چکے تھے۔ خوردشیف کے بعد برژنیف آ گئے۔ انہوں نے اپنے فیصلے میں چاند پر پہنچائے جانے والے مشن کو 1964 میں کورولیوف کے سپرد کر دیا اور ان کے ڈیزائن پر کام کرنے کا فیصلہ کی یاا۔ اس کے لئے ٹارکٹ 1967 کا رکھا گیا۔ یہ اکتوبر کے انقلاب کی گولڈن جوبلی کا سال تھا۔ اس ٹارگٹ نے ایک مسئلہ کھڑا کر دیا۔ 95 ٹن وزن کو خلا میں بھیجنے کے لئے بہت بڑا راکٹ چاہیے تھا۔ اس کا نام N1 رکھا گیا۔ اتنا بڑا جتنا امریکہ کا سیٹرن پنجم ہے۔ اور اس میں استعمال ہونے والے F1 انجن کی طاقت والے انجن۔ راکٹ ڈیزائن والنٹن گلشکو کے سپرد تھا۔ ان کا ادارہ ہائیپرگولک پروپیلنٹ استعمال کرتا تھا جو ایندھن اور آکسیڈائیز کا مکسچر ہے جو مل کر فوری آگ پکڑ لیتے ہیں۔ کورولیوف کا خیال تھا کہ اپنے کیمیائی فارمولے کی وجہ سے انسانوں والے مشن میں ان کا استعمال خطرناک ہو گا۔ گلشکو کا کہنا تھا کہ مائع آکسیجن اور کیروسین کے استعمال والے انجن پر خرچہ زیادہ آئے گا اور محدود وسائل کے ساتھ وقت پر ایسا راکٹ نہیں بن سکے گا۔ ساتھ ساتھ گلشکو نے نشاندہی کی کہ امریکی ایسا انجن پانچ سال سے بنانے کی کوشش کر رہے ہیں اور ان کو کامیابی نہیں ہوئی۔ کورولیوف اور گلشکو کے آپس میں ذاتی تعلقات بھی خراب تھے۔ گلشکو نے سٹالن کی عظیم پکڑ دھکڑ کے دور میں کورولیوف کو پکڑوایا تھا۔ سوویت بیگار کے کیمپ میں چھ سال گزارنے کے دوران کورولیوف مرتے مرتے بچے تھے۔ دوسری طرف گلشکو کورولیوف کو غیرذمہ دار اور صدی سمجھتے تھے۔
نتیجہ یہ نکلا کہ گلشکو نے کورولیوف کے لئے کام کرنے سے انکار کر دیا۔ یہپروگرام میں تاخیر کا سبب بنا۔ راکٹ ڈیزائن کرنے کا کام اب نکولائی کزنٹسوف کو ملا۔ نکولائی جیٹ انجن بنانے کے ماہر تھے لیکن انہوں نے راکٹ پر اس سے پہلے کام نہیں کیا تھا۔ انہوں نے اس مسئلے کو جیٹ انجن کے مسئلے کی نظر سے دیکھا۔ کام شروع ہو جانے کے بعد وہ بھی ان مسائل میں پھنس گئے جن میں گلشکو پھنسے تھے۔ سوویت یونین کے پاس وہ صنعتی انفراسٹرکچر نہیں تھا جو اتنا بڑا انجن بنا سکے۔ جو حل انہوں نے تلاش کیا وہ نیا تھا۔ اس کے مثبت اور منفی پہلو تھے۔ امریکیوں نے سیٹرن پنجم میں پہلی بوسٹر سٹیج میں پانچ بڑے انجن استعمال کئے تھے۔ سوویت کو تیس چھوٹے انجن استعمال کرنے پڑے تھے۔ ان میں چھ مرکز میں جبکہ چوبیس باہری دائرے میں تھے۔ ان سے مطلوبہ طاقت حاصل کرنے کے لئے ان کا ڈیزائن خاصا ایڈوانسڈ تھا۔ اس کی کلوزڈ سائکل سسٹم کے طریقے کی وجہ سے ایفینشی بہت بہتر تھی۔ امریکیوں کو اس سسٹم کا پتا تھا لیکن ان کے خیال میں اس کو بنانا بہت مشکل ہوتا۔ زیادہ پریشر اور زیادہ درجہ حرارت پر آکسیجن انجن میں آگ لگا سکتی تھی۔ امریکیوں نے اس لئے اوپن سائکل سسٹم استعمال کیا جس کے لئے زیادہ بڑے انجن درکار تھے۔ سوویت یہ اس لئے بنا سکتے تھے کہ انہوں نے سٹین لیس سٹیل کے وہ ایلوائے بنا لئے تھے جن کا امریکیوں کو علم نہیں تھا۔ سوویت N1 راکٹ امریکی راکٹ سے زیادہ طاقتور تھا۔ اس میں ایک مسئلہ یہ تھا کہ اگر ان تیس انجنوں میں سے کوئی ایک بھی فیل ہو جائے تو راکٹ غیرمستحکم ہو جائے گا۔ اس میں ایندھن کی پلمبنگ خاصی پیچیدہ تھی تا کہ تمام انجنوں کو یکساں ایندھن ملتا رہے۔ یہ اس کا نازک حصہ تھا۔
اس پراجیکٹ پر کام کے دوران کورولیوف کا 1966 میں انتقال ہو گیا۔ خلائی پروگرام کو ان کی موت سے دھچکا لگا۔ نہ صرف وہ باصلاحیت تھے بلکہ اپنے کنکشنز اور اپنی عزت کی وجہ سے کام نکلوانا بھی جانتے تھے۔ یہ مشن اب واسیلی مشکن کے ہاتھ آیا لیکن وہ اس کا اپنے پیشرو کی طرح سیاسی معاملات کا ادراک نہ تھا اور وہ پاور حاصل نہیں تھی۔
سوویت یونین کے پاس کوئی طریقہ نہیں تھا جس سے وہ ان تیس انجنوں کو راکٹ میں لگانے سے پہلے ٹیسٹ کر سکیں۔ بائیکونور سے لانچ والی جگہ پر اتنے بڑے راکٹ کو ایک ٹکڑے میں کشتی کے ذریعے نہیں لے جایا جا سکتا تھا۔ اس کو الگ الگ ٹکڑوں میں ٹرین کے ذریعے لے جائے جانا تھا، جوڑے جانا تھا اور پھر لانچ پیڈ پر اس کو اسمبل کئے جانا تھا۔ اس کی ناکامی کا امکان زیادہ تھا۔ سوویت یونین نے 14 لانچ پلان کئے۔ پہلے بارہ کسی خلاباز کے بغیر اور آخری دو خلابازوں کے ساتھ۔ 21 فروری 1969 کو پہلا راکٹ لانچ کے لئے تیار ہوا۔ لیکن نہ صرف یہ اس انجن کا پہلا ٹیسٹ تھا بلکہ ہر چھ کے گروپ میں صرف دو انجن تھے جنہیں لگانے سے قبل انفرادی طور پر ٹیسٹ کیا جا سکا تھا۔ اس کے مقابلے میں امریکی اپنے F1 انجن کو مکمل طور پر ٹیسٹ کر سکتے تھے۔ اس کو ایک پیس میں لانچ پیڈ تک ترانسپورٹ کر سکتے تھے۔
پہلا سوویت راکٹ لانچ ہونے کے چند ہی سیکنڈ بعد انجن کنٹرول سسٹم “کورڈ” نے تیس میں سے دو انجنوں کو بند کر دیا۔ ایندھن والے چیمبر میں ہچکولے کھانے والی وائبریشن شروع ہو گئی۔ اس نے ایندھن کے پائپ توڑ دئے۔ آگ لگ گئی اور برقی وائرنگ جل گئی۔ اس کی وجہ سے کورڈ سسٹم نے ایک منٹ اور آٹھ سیکنڈ کے بعد تمام انجن بند کر دئے اور راکٹ لانچ والی جگہ سے 32 میل دور نیچے جا گرا۔
واقعے کی تفتیش اور خرابیاں دور کر لینے کے بعد دوسری فلائٹ 3 جولائی 1969 کو رات گیارہ بجے ہوئی۔ جب راکٹ اپنے ٹاور سے آگے نکلا، آٹھویں انجن میں مائع آکسیجن کا پمپ دھماکے سے پھٹ گیا۔ اس سے لگنے والی آگ کے نتیجے میں کورڈ نے انجن بند کر دئے۔ راکٹ اپنے 2300 ٹن کے ایندھن سمیت واپس لانچ پیڈ پر آ گرا۔ اس سے ہونے والا دھماکہ بہت ہی بڑا تھا اور ایک چھوٹے نیوکلئیر بم جتنا تھا۔ اس سے لانچ کرنے والی کامپلیکس تباہ ہو گئی۔ چھ میل دور تک اس کا ملبہ بکھر گیا۔ یہ دھماکہ بائیس میل دور تک دکھائی دیا۔ اس کے آدھے گھنٹے بعد عملے کو یہاں پر جانے کی اجازت ملی تو یہاں پر ابھی تک ان جلے ایندھن کی بارش ہو رہی تھی۔ بعد میں علم ہوا کہ 85 فیصد ایندھن جلنے سے رہ گیا تھا۔ جس کی وجہ سے دھماکہ اتنا بڑا نہیں ہوا تھا۔
اس سے 17 روز بعد نیل آرمسٹرانگ چاند پر قدم رکھنے والے پہلے انسان بن چکے تھے۔ اپالو 11 کامیاب ہو گیا تھا۔ چاند تک پہنچنے کی دوڑ جیتی جا چکی تھی۔ انسانیت کے لئے یہ بڑا سنگِ میل عبور کرنے کا اعزاز ناسا کے پاس آیا تھا۔
سوویت پروگرام نے اپنی کوشش ترک نہیں کی۔ لیکن دھماکے کی وجہ سے دو سال کی تاخیر ہو گئی۔ نیا لانچ کامپلیکس بنایا گیا۔ راکٹ میں مزید تبدیلیاں کی گئیں۔ تیسری کوشش نومبر 1971 کو کی گئی۔ یہ بھی کامیاب نہ ہو سکی۔ اس بار وجہ راکٹ کی بیس پر بننے والے ایڈی اور کاونٹر کرنٹ تھے۔ اس کی وجہ سے راکٹ قابو سے باہر ہو کر گھومنے لگا اور بالآخر سٹریس کی وجہ سے ٹوٹ گیا۔ اس کے ایک سال کے بعد نومبر 1972 میں چوتھا لانچ کیا گیا جو ایک مرتبہ پھر ناکامی کا شکار ہوا۔ اس مرتبہ لانچ ہونے کے 107 سیکنڈ کے بعد پروگرام بند ہو جانے کی وجہ سے چھ مرکزی انجن بند ہو گئے۔ اس کی وجہ سے ہائیڈرالک شاک ویو نے ایندھن کے پائپوں میں آگ بھڑکا دی۔ اس کی مین سٹیج کچھ دیر بعد ہی پھٹ گئی۔
چار ناکامیوں کے باوجود سوویت اس پر اچھی پیشرفت کر چکے تھے۔ غلطیوں کو ٹھیک کر کے اپنا ڈیزائن ٹھیک کر چکے تھے۔ اگست 1974 میں پانچواں لانچ پلان تھا۔ جب اس کی باری آئی تو برژنیف نے چاند کا پورا مشن کینسل کر دیا۔
اس وقت تک امریکی چھ مرتبہ چاند پر کامیابی سے جا چکے تھے۔ چاند پر پہنچ جانے کے بارے میں جوش و خروش ماند پڑ رہا تھا اور لوگوں کی اب اس میں خاص دلچسپی نہیں رہی تھی۔ ایک خیال یہ ہے کہ اگر پانچواں لانچ کامیابی سے کر لیا جاتا تو اس پروگرام کو جاری رکھنا پڑتا۔ اس کو منسوخ کر دینا ایک بہت مہنگے پروگرام سے جان چھڑوانا تھا۔ وسیلی مشکن کو عہدے سے ہٹا دیا گیا۔ گلشکو واپس آ گئے۔ لیکن 1976 میں N1 راکٹ کا پروگرام ہی بند کر دیا۔ راکٹوں کو تلف کر دیا گیا تا کہ اپنی ناکامی چھپائی جا سکے اور اس کو منسوخ کرنے کا کوئی باضابطہ اعلان نہیں کیا گیا۔
گورباچوف کے گلاسناسٹ کے دور میں اس کہانی سے پردہ اٹھا۔ اور اس راز سے کہ کوئی سوویت خلاباز چاند پر قدم کیوں نہیں رکھ سکا۔
لیکن اس کہانی کے آخر میں ایک عجب موڑ ابھی باقی تھا۔ NK43 راکٹ جو N1 کے لئے ڈویلپ کئے گئے تھے، بہت ایفیشنٹ، قابلِ اعتبار اور طاقتور راکٹ تھے۔ کریملن سے ان کو تباہ کر دینے کا حکم جاری ہونے کے باوجود ان کو ضائع نہیں کیا گیا تھا۔ بیس برس بعد ساٹھ راکٹ دوبارہ ڈھونڈے گئے اور امریکہ کو بیچے گئے۔ امریکہ نے ان کی قیمت گیارہ لاکھ ڈالر فی راکٹ ادا کی۔ اس ٹیکنالوجی کی بنیاد پر RD180 روس میں بنایا گیا۔ امریکہ کی ایٹلس پنجم لانچ وہیکل میں یہی راکٹ استعمال ہوئے ہیں۔