آج سے ستر سال پہلے فلسفی ہان ریشن باخ نے کہا تھا کہ ہم دنیا کو سمجھنے کیلئے ایک مکمل، معروضی اور سائنسی نقطہ نظر تک پہنچ گئے ہیں۔ آج ستر سال بعد جب ہم یہ جملہ پڑھ کر سوال کرتے ہیں کہ کیا واقعی ایسا ہو چکا ہے؟ نہیں، ابھی تو نہیں۔
اور دیکھا جائے تو ہم بہت دور ہیں۔ کچھ لوگ ایسا ظاہر ضرور کرتے ہیں کہ سائنس سب کچھ جاننے کے قریب ہے۔ شاید کچھ لوگوں کی طرف سے ایسا کہنے کا پریشر پاپولر میڈیا کی طرف سے آتا ہے کہ یوں ظاہر کیا جائے کہ بڑے مسائل حل ہونے کے قریب ہیں۔ لیکن ایسا تو نہیں۔ ابھی تو سوالیہ نشان ہیں۔ تاحدِ نگاہ سوالیہ نشان۔
یہ حقیقت فکری کشادگی مانگتی ہے تا کہ موجودہ حل طلب مسائل کو نئی فکر کے ساتھ دیکھا جا سکے۔ اس کی ایک مثال کوانٹم مکینکس میں مشاہدے کا تصور ہے جو حقیقت کو جنم دیتا ہے۔ لامتناہی حالتوں میں سے کسی حالت کی طرف حقیقت کے سفر کا۔ یاد رہے کہ یہ فزکس کا مکمل طور پر غیر حل شدہ مسئلہ ہے۔ یہاں پر نیوروسائنس اور فزکس کا بہت اہم ملاپ ہو سکتا ہے۔ زیادہ تر سائنسدان ان دونوں کو الگ شعبہ سمجھتے ہیں اور افسوسناک سچ یہ ہے کہ جو سائنسدان اس نظر سے اس مسئلے کو دیکھنے کی کوشش بھی کرتے ہیں، وہ مارجن کی طرف دھکیلے جاتے ہیں۔ کئی سائنسدان تک حقیقت کی کھوج کا مذاق اس قسم کے چست فقروں سے اڑاتے ہیں کہ “کوانٹم مکینکس پرسرار ہے۔ شعور پرسرار ہے۔ اس لئے یہ ایک ہی چیز ہیں۔” اس قسم کی بند سوچ اس وقت نیوروسائنس کے فیلڈ کو نقصان پہنچا رہی ہے۔ یہاں پر یہ واضح رہے کہ اس کا یہ مطلب نہیں کہ کوانٹم مکینکس اور شعور کا لازمی کوئی تعلق ہے۔ صرف یہ کہ اس قسم کے رویہ خود سائنس کے لئے ٹھیک نہیں۔ جب کچھ لوگ اصرار کرتے ہیں کہ دماغ کو کلاسیکل فزکس اور کیمسٹری کی مدد سے ہی سمجھا جا سکتا ہے، ان کا یہ مفروضہ درست ہونے کا امکان تو اور بھی کم ہے۔ اور ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ سائنس کی تاریخ میں ہمیں کوئی بھی معمہ حل کرنے کے دوران یہ علم کبھی نہیں ہوا کہ کونسا ٹکڑا ہمارے ہاتھ میں نہیں۔
اس کی مثال کیلئے میں دماغ کی ریڈیو تھیوری پیش کرتا ہوں۔ فرض کیجئے کہ آپ کالاہاری کے قبائلی ہیں اور آپ کو ریت میں ایک ریڈیو پڑا ملا ہے۔ آپ نے اس کی ناب گھمائی اور حیران کن طور پر اس میں سے آواز آنا شروع ہو گئی۔ آپ کے تجسس بھرے سائنسی ذہن نے اس کی وجہ تلاش کرنے کی کوشش شروع کر دی۔ اس کا کور ہٹایا اور اس کے اندر کی تاریں نظر آنا شروع ہو گئیں۔ ان سے کھیل کر آپ نے کچھ نتایج اخذ کئے۔ سبز تار نکالنے سے آواز آنی رک جاتی ہے۔ واپس لگانے سے آنا شروع ہو جاتی ہے۔ کالی تار ہلانے سے اس کے والیوم پر فرق پڑتا ہے۔ سرخ تار سے آواز خراب ہو جاتی ہے۔ یہ سب کمبی نیشن آپ ایک کاغذ پر لکھتے جاتے ہیں اور اس آواز کا تعلق اس سرکٹری سے نکال لیتے ہیں۔
اپنی دریافت پر نازاں آپ اپنی زندگی اس کو سمجھنے میں وقف کر دیتے ہیں کہ تاروں کا کونسا کمبی نیشن یہ جادوئی آواز پیدا کرتا ہے۔ اس دوران ایک نوجوان آپ سے پوچھتا ہے کہ برقی تاروں کے ان گچھوں سے یہ گفتگو اور موسیقی کیسے نکل سکتی ہے۔ آپ تسلیم کرتے ہیں کہ آپ کو اس کا پتہ تو کچھ نہیں لیکن ساتھ یہ اصرار جاری رکھتے ہیں کہ مزید معائنے سے آپ یہ گتھی اسی طریقے سے جلد سلجھا لیں گے۔
آپ کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ آپ کے پاس ابھی الیکٹرومیگنیٹزم کی تھیوری ہی نہیں۔ آپ کو ریڈیو ٹاورز اور ریڈیو ویوز کا علم ہی نہیں۔ روشنی کی رفتار سے آتا پر سفر کرتا یہ سگنل آپ کیلئے اتنا اجنبی ہے کہ آپ نے اس کا تصور نہیں کیا۔ آپ ان کو محسوس نہیں کر سکتے اور ابھی تک آپ کو ضرورت بھی نہیں پڑی کہ ان کے بارے میں تصور بھی کریں اور اگر آپ نے یہ سوچ بھی لیا ہو تو کسی دوسرے کو کیسے یقین دلائیں گے۔ اور ہر کوئی آپ سے ہی کہے گا اور ٹھیک کہے گا کہ اپنے خیال کا کوئی ثبوت دیں۔
اس سب کی وجہ سے آپ یہ نتیجہ نکال لیں گے کہ سب کچھ بس تاروں کا یہ گچھا ہی ہے۔ ہاں، یہ سب تاریں ضروری تھیں اور نتیجہ ٹھیک لیکن آپ ابھی اس بنیادی چیز تک نہیں پہنچے کہ معمے کا ایک بڑا ٹکڑا ابھی آپ کے ہاتھ میں نہیں۔
اس کا یہ مطلب نہیں کہ نیورل سرکٹ ریڈیو کی طرح ہے جو اپنے سگنل کہیں سے پکڑ رہا ہے بلکہ یہ کہ ممکنات ہماری سوچ سے زیادہ ہیں۔ اور موجودہ سائنس میں اس خیال کو رد کرنے کا کوئی طریقہ نہیں۔ ہمارا علم اس بارے میں جتنا کم ہے، ہمیں اپنی الماری میں بہت سے اچھوتے خیال رکھنے کی ضرورت ہے جن کے بارے میں ابھی فیصلہ نہیں کیا جا سکتا۔ ابھی بہت کم سائنسدان اچھوتے خیالات کے گرد اپنے تجربے ڈیزائن کریں گے لیکن نئے خیالات تجویز کرنے، ان کو آگے بڑھانے اور شواہد کی مدد سے سمت کا تعین کرتے رہنے کی ضرورت ہے۔
کئی دفعہ یہاں پر اوکم ریزر (خیال کی سادگی) کا ذکر کیا جاتا ہے لیکن یہ جتنی بار کامیاب ہوا ہے، اتنی ہی بار ناکام۔ مثال کے طور پر ہمیں سورج زمین کے گرد گردش کرتا محسوس ہوتا ہے یا ایٹم کا بڑے آبجیکٹ کی طرح خاصیت رکھنا زیادہ سادہ لگتا ہے۔ ان خلافِ عقل لگنے والی سائنس کو رد کرنے لئے بھی اوکم ریزر کی دلیل استعمال کی جاتی رہی ہے۔ اوکم ریزر سے دی گئی دلیل دراصل کوئی دلیل ہے ہی نہیں۔ اگر سائنس کی تاریخ کو مدِ نظر رکھا جائے تو یہ سوچ لینا کہ ہم نے سائنس کو سمجھ لیا ہے، ہمیشہ ہمیں دھوکا دیتا رہا ہے۔
اس وقت سائنس میں مقبول ایک بڑا فلسفہ ریڈکشنزم اور میٹیرئیلزم کا ہے۔ یعنی کل کو اجزاء سے سمجھا جا سکتا ہے۔ انسان کو خلیوں، ہارمونز، خون کی شریانوں یا دوسرے جسمانی فلوئیڈز کی مدد سے سمجھا جا سکتا ہے۔ ہر روز بہت سے نیوروسائنٹسٹ اس مفروضے کے تحت کام کرتے ہیں۔ یہ طریقہ الیکٹرانک ڈیوائس کو ریورس انجینیر کرنے اور فزکس یا کیمسٹری سمجھنے میں کامیاب بھی رہا ہے۔
لیکن ہمارے پاس یہ گارنٹی نہیں کہ یہ طریقہ نیوروسائنس پر کامیاب ہو گا۔ دماغ، اپنے پرائیویٹ اور سبجکیٹو تجربے کے ساتھ ایک اس قسم کا مسئلہ ہے جس کا اس سے پہلے ہم نے کبھی سامنا نہیں کیا۔ اگر کوئی بھی نیوروسائنٹس یہ دعوی کرے کہ اس نے اس مسئلے کے حل کی طرف ریڈکشنزم کا طریقہ استعمال کر کے کوئی بھی قدم آگے بڑھایا ہے تو اسے اس مسئلے کی پیچیدگی کا شاید ادراک ہی نہیں ہوا۔ یاد رہے کہ ہم سے پہلے آنے والی ہر نسل اس سوچ میں مبتلا رہی ہے کہ ان کے پاس کائنات کو سمجھنے کے تمام بڑے آلات آ چکے ہیں اور بلاتخصٰیص، وہ سب غلط تھے۔ ذرا تصور کریں کہ آپٹکس کو سمجھے بغیر کوئی قوسِ قزح کو سمجھنے کی کوشش کرتا یا برقیات کو سمجھے بغیر بجلی کڑکنے کی الجھن سلجھانے کی کوشش کرتا یا پھر نیوروٹرانسمیٹر دریافت ہوئے بغیر پارکنسن کو حل کرنا چاہتا۔ کیا یہ سوچ خود منطقی ہے کہ ہم وہ خاص نسل ہیں جس کے پاس سائنس کا مکمل علم اور سمجھنے کے تمام آلات آ چکے ہیں؟ یا پھر ایسا ہو گا کہ آج سے سو سال بعد والے ہمارے محدود علم اور اسی طریقے پر اڑے رہنے کے اصرار کو اسی طرح دیکھیں گے جیسے ہم اپنے پہلے والوں کو دیکھتے رہے ہیں؟ کسی پیدائشی نابینا کی طرح جسے اپنی بینائی کے نہ جاننے کا علم نہیں۔
ایک بار پھر۔ یہ کہنے کا یہ مطلب نہیں کہ لازم ہے کہ میٹیریلزم غلط ہو یا میری ایسی خواہش ہے۔ اگر فرض کیا جائے کہ حقیقت اتنی ہی ہے جتنی ہم جانتے ہیں تو یہ خود ہی حیرت انگیز طور پر شاندار ہے۔ صرف یہ تصور کیجئے کہ اربوں سال کے سفر کے بعد اور چناوٗ کی کڑی چھلنی سے گزرنے کے بعد مالیکیولز کی شاہراہیں اور مائع میں پھسلتے کیمیکل ان اربوں محوِ رقص خلیوں میں، کھربوں جوڑ لئے اکٹھے گنگنا رہے ہیں۔ کسی انڈے کی طرح کی فیبرک انتہائی پتلے، باریک اور نفیس سرکٹ میں ایسے الگورتھم چلا رہی ہے جس کا جدید سائنس تصور بھی نہں کر سکتی۔ ان نیورل پروگرامز سے ہمارے فیصلے، محبتیں، خواہشیں، خوف اور خواب نکلتے ہیں۔ میرے لئے تو ہماری یہ سمجھ ہی ایسا زبردست اور روحانی تجربہ ہے جو کسی بھی اور چیز سے بزھ کر ہے۔ سائنس کی موجودہ حد سے پرے کیا ہے، یہ تو اگلی نسلوں کیلئے سوال ہے لیکن اگر یہ سٹرکٹ میٹیرئیلزم ہی نکلتا ہے تو یہ بھی بہت ہے۔
آرتھر کلارک کا کہنا ہے کہ کسی بھی جدید ٹیکنالوجی اور جادو میں کوئی فرق نہیں۔ میں ہمارے اپنے اندر کی بادشاہت کا تاج گرائے جانے پر افسردہ نہں، نازاں ہوں۔ یہی تو اصل جادو ہے۔ ہمارا بائیولوجیکل بیگ جسے ہم “میں” کہتے ہیں، یہ ہماری سوچ سے کہیں زیادہ بڑھ کر ہے۔ یہ ہمارے مراقبوں اور اپنے اندر جھانک کر دیکھنے سے کسی بھی طریقے سے کہیں آگے کی نظر ہے۔ ہم جس بائیولوجیکل سسٹم میں رہتے ہیں، وہ اس قدر پیچیدہ ہے، اس قدر وسیع ہے کہ یہ آرتھر کلارک کے خیال کے مطابق اصل اور بڑا جادو ہے۔
ویسے ہی جیسے یہ آفاق ہماری سوچ سے کہیں زیادہ وسیع ہیں، ہم خود اپنے اندر بھی ویسے ہی ہیں۔ اپنی سوچ سے کہیں زیادہ وسیع۔ ہمیں اپنی اندر کی سپیس کی پہلی جھلک نظر آنا شروع ہوئی ہے۔ یہ ہمارے اندر کے چھپے ہوئے آفاق ہیں، اپنے مقاصد، منطق اور ضرورتیں لئے۔ یہ دماغ، وہ عضو جو اجنبی اور عجیب لگتا ہے، اپنی وائرنگ کے تفصیلی پیٹرنز کے ساتھ ہمارے اندر کی دنیا تراش رہا ہے۔ اور یہ کیا ہی متحیر کر دینے والا شاندار ماسٹرپیس ہے۔ اور ہم کس قدر خوش قسمت ہیں کہ اس نسل سے تعلق رکھتے ہیں جس کے پاس ٹیکنالوجی بھی ہے اور ارادہ بھی کہ اپنی توجہ اس کی طرف کر سکے۔ ہم نے اس کائنات کی سب سے زبردست چیز تلاش کر لی ہے اور وہ ہم خود ہیں۔
نوٹ: یہ حرف بحرف ترجمہ ڈیوڈ ایگلمین کی کتاب انکوگنیو کے آخری چار صفحات کا۔ ایگلمین انعام یافتہ نیوروسائنسٹ ہیں۔ ان کا تعارف یہاں سے