دنیا کا مہنگا ترین شہر
غیر ملکیوں کے لئے سب مہنگے شہروں میں ٹوکیو، ہانگ کانگ، جینیوا، نیویارک یا سنگاپور جیسے ترقی یافتہ شہروں کا تصور آتاہے اور یہ سب دنیا کے دس مہنگے ترین شہروں میں ہیں لیکن دنیا میں سب سے زیادہ مہنگا شہر ان میں سے نہیں۔ یہ لوانڈا ہے اور یہ شہر انگولا کا دارالحکومت ہے۔
لوانڈا ایک جدید شہر ہے۔ ہر طرف نئی اور شاندار عمارتیں بن رہی ہیں۔ برسوں جاری رہنے والی خانہ جنگی سے شکستہ ملک کا یہ دارالحکومت اب دیکھنے میں دنیا کے کسی بھی جدید شہر سے کم نہیں۔ یہاں پر دو بیڈروم کا اپارٹمنٹ سات لاکھ روپے ماہانہ کرائے پر ملے گا۔ مک ڈونلڈ کا بگ میک سوا دو ہزار روپے میں اور ایک مہینے کا انٹرنیٹ چالیس ہزار روپے ماہانہ پر۔ افریقہ کی پہلی ارب پتی خاتون کا تعلق انگولا سے ہے۔ یہاں پر اب یورپ سے سیاح آنا شروع ہو چکے ہیں۔ اکیسویں صدی میں آمدنی میں ہونے والی تیزترین ترقی پوری دنیا میں اس ملک کی ہے۔ کیا برسوں کی خانہ جنگی کے بعد یہ ملک غربت کو شکست دے چکا؟ نہیں۔ سب جانتے ہیں کہ یہ تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے اور وینیزیولا کی طرح جلد ہی اس کی یہ چکا چوند ماضی کی یاد رہ جائے گی۔ ایسا کیوں؟ اس کے لئے ایک تصویر ملک کی آبادی کی اور پھر ملکی تاریخ کی۔
اس کی آدھی آبادی کے پاس صاف پانی تک رسائی نہیں۔ دو تہائی بچے غذائی قلت کا شکار ہیں۔ ہر چھ میں سے ایک بچہ پانچ سال کی عمر سے پہلے زندہ نہیں رہے گا۔ ملک کی 80 فیصد سے زیادہ آبادی غربت کی لکیر سے نیچے رہتی ہے۔ (پاکستان میں غربت کا شکار آبادی کا تناسب 39 فیصد ہے)۔ کرپشن کے حساب سے اس کا نمبر دنیا میں دسواں ہے۔ (پاکستان کا نمبر پچاسواں ہے)۔
ہیروں کی دولت سے مالامال اس ملک کو 1975 میں آزادی ملی لیکن انتقالِ اقتدار پرامن نہیں تھا۔ پرتگال کے جانے کے بعد ملک میں خانہ جنگی شروع ہو گئی جو پچیس سال تک جاری رہی۔ سرد جنگ کے دور میں ملنے والے اس آزادی میں ایک طرف یونیٹا گروپ تھا جس کو امریکہ، چین اور جنوبی افریقہ کی سپورٹ تھی۔ دوسری طرف انگولا کی پیپلز لبریشن موومنٹ جس کو سوویت یونین اور کیوبا کی۔ کیوبا کے تیس ہزار فوجی یہاں پر لڑنے آئے اور ان کی مدد سے پیپلز لبریشن موومنٹ نے ملک کے بڑے حصے پر قبضہ کر لیا۔ اس کے لیڈر ڈوس سانٹوس تھے۔ جب سوویت یونین ٹوٹا اور سرد جنگ کے تنازعوں سے دنیا کی توجہ ختم ہو گئی تو اس کمیونسٹ پارٹی نے خود کو آزاد جمہوری پارٹی کا نام دے دیا۔ 2002 میں جنگ بندی ہوئی اور خانہ جنگی جیتنے والی پارٹی کے لیڈر انتخابات جیت کر وزیرِ اعظم بن گئے۔ اسی سال انگولا کے ساحل کے قریب تیل کے بڑے ذخائر دریافت ہوئے۔ اگلے صرف پانچ سال میں ملک کی معیشت 4 گنا بڑھ گئی۔ اس تیزی سے اضافے کی نظیر دنیا میں کہیں نہیں۔ یہ اب چین اور امریکہ کو بڑی مقدار میں تیل برآمد کرتا ہے۔ پندرہ سال تک گوریلا کمانڈر کے طور پر ملک چلانے والے کمیونسٹ راہنما ڈوس سانٹوس، اس سے اگلے پندرہ برس 2017 تک جمہوری وزیرِاعظم رہے۔ ان کی بیٹی افریقہ کی امیر ترین خاتون ہیں۔ پچھلے سال اپنی بڑھتی عمر کے باعث تیس سال بعد اقتدار سے علیحدگی اختیار کی لیکن انتخابات میں انہی کی پارٹی نے حکومت بنائی ہے۔ انہوں نے انتخابات میں خانہ جنگی کرنے والی دوسری جماعت کو شکست دی تھی اور ان کا نعرہ ملک سے کرپشن کا خاتمہ ہے۔ انگولا کی برآمدات کا 97 فیصد تیل ہے اور اس تیل کی وجہ سے یہاں پر کوئی بھی اور کاروبار نہیں چلتا۔ امریکہ اور برطانیہ سے جرنلسٹ اور بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیمیں اب یہاں پر نہیں آ سکتیں۔
پانچ لاکھ کی آبادی کے لئے بنائے گئے شہر لوانڈا میں پچاس لاکھ افراد بستے ہیں۔ تیل کی کمپنیوں کی وجہ سے بیرونِ ملک سے کام کرنے کے لئے آنے والے افراد اشیاء کی مہنگی قیمتیں دے سکتے ہیں جبکہ یہاں پر رہنے والے سرکاری ملازمین کسی اور طریقے سے گزارا کر لیتے ہیں۔ تیل کی قیمت نیچے جانے کے بعد یہ ملک اب معاشی بحران کا شکار ہے اور اگر تیل نکلنا کم ہو گیا یا دنیا کا تیل پر انحصار کم ہو جائے تو انگولا میں رہنے والی امیر اقلیت کے لئے بھی یہ ملک وینیزیولا بن سکتا ہے۔
ساتھ لگی تصاویر ایک ہی شہر کی اور ساتھ ساتھ کے علاقوں کی ہیں۔