پہلا قتل:
انڈیا کی آزادی کے ہیرو مہنداس گاندھی شام کو برلا ہاؤس کی طرف آ رہے تھے۔ ہجوم سے الگ ہوئے ہی تھے کہ بالکل قریب سے داغی گئی تین گولیاں ان کے جسم کے آر پار ہو گئیں۔ دس روز پہلے ان پر قاتلانہ حملہ ناکام ہو گیا تھا۔ 30 جنوری 1948 کو قاتل کامیاب ہوا۔
جرم
انڈیا کی حکومت نے تقسیمِ ہند کے بعد پاکستان کے فنڈ روک لئے تھے۔ گاندھی نے اس کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے مرن برت رکھا۔ ان کے دباؤ پر فنڈ جاری کر دئے گئے۔ ان کے قاتل گوڈسے کا تعلق انتہا پسند تنظیم ہندو مہاسبھا سے تھا جس کے خیال میں گاندھی کا یہ رویہ قوم سے غداری تھی۔ دشمن سے کوئی معاملہ کرنا ناقابلِ معافی۔ سرحد کے دونوں طرف کے انتہاپسند آج بھی مقتول کو اچھی نظر سے نہیں دیکھتے۔
دوسرا قتل:
قاہرہ میں وکٹری پریڈ کے دوران مسلح لوگوں کا ایک ٹرک صدارتی ڈائس کے آگے رکا۔ لیفٹنٹ خالد اسلامبولی کی قیادت میں مسلح لوگ اترے اور مصر کے صدر انوار سادات کو قتل کر دیا۔
جرم
فوجی حل سے ناامید ہونے کے بعد انوار سادات نے اپنے دشمن اسرائیل سے بات چیت کے ذریعے معاملات طے کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ مصر کی 'اسلامی جہاد' تنظیم نے اس بات چیت اور 1979 میں ہونے والے امن معاہدے کو عربوں کے خلاف غداری قرار دیا۔ دشمن سے کوئی معاملہ کرنا ناقابلِ معافی۔ اس تنازعے کے دونوں طرف کے انتہاپسند مقتول کا کردار اس معاملے میں منفی گردانتے ہیں۔
تیسرا قتل:
اسرائیلی وزیرِاعظم اسحٰق رابین ایک جلسہ ختم ہونے کے بعد اپنی گاڑی کی طرف بڑھ رہے تھے۔ گاڑی کے دروازے کے قریب پہنچے تھے کہ آٹومیٹک پستول سے فائر کی گئی گولیوں کا نشانہ بن گئے۔
جرم
انتہاپسند قوم پرست یگال عامر اسرائیل عرب امن کے لئے ان کے اقدامات سے نالاں تھا۔ خاص طور پر اوسلو معاہدے کے بعد مغربی کنارے سے فوجیں واپس بلانے پر۔ قاتل کی نظر میں اسحٰق رابین 'رودف' یعنی غدار تھے۔ دشمن سے کوئی معاملہ کرنا ناقابلِ معافی۔ تنازعے کے دونوں طرف کے انتہاپسند مقتول کا نام سننا بھی پسند نہیں کرتے۔
یہ تین مثالیں ہیں لیکن صرف تین نہیں۔ دوستی دشمن سے ہی کی جاتی ہے لیکن ایسا کرنے والے کو سب سے زیادہ مخالفت اور خطرہ خود اپنے گروہ سے ہوتا ہے، چاہے وہ کوئی بھی ہو۔
ان تینوں واقعات میں اگرچہ قتل کرنے والے خود زندہ نہیں رہے لیکن اپنے مقصد میں کامیاب رہے۔