دھماکہ کسی بھی طرح کا ہو، اچھی چیز نہیں سمجھی جاتی لیکن کچن میں خشک مکئی کے دانوں میں ہوتے چھوٹے چھوٹے دھماکوں کی بات فرق ہے۔
سخت خول والا ہر چھوٹا سے دانہ بہت سی کاربوہائیڈریٹ، پروٹین، آئرن اور پوٹاشیم کو پیک کر کے رکھے ہوئے ہیں لیکن ہمیں ان سے فائدہ اٹھانے کے لئے اس کی ہیئت میں تبدیلی چاہئے اور یہ تبدیلی اندر سے آنی ہے۔
اس کے اندر نئے پودے کی زندگی کا بیج ہے اور اس کے آس پاس غذائیت بھرا اینڈوسپرم۔ یہ اس بیج کی خوراک تھی جس سے اس نے زندگی کے ابتدائی مراحل طے کرنے تھے۔ اس میں چودہ فیصد پانی ہے۔
فرائی پین پر رکھے یہ دانے گرم ہو رہے ہیں۔ اندر پائے جانے والا درجہ حرارت بڑھ رہا ہے۔ مالیکیولز کی حرکت تیز سے تیز تر ہوتی چلی جا رہی ہے۔ یہ باہری خول سے ٹکرا رہے ہیں۔ یہ خول کسی بکتربند دیوار کی طرح ان کا مقابلہ کر رہا ہے۔ لیکن فرائی پین سے آتی مزید حرارت سے یہ مزید توانائی پکڑ رہے ہیں۔ یہ بالکل ایک پریشر ککر کی طرح ہے۔ درجہ حرارت بڑھتا ہوا ۱۸۰ ڈگری سینٹی گریڈ تک جا پہنچا ہے۔ اندر بنتا پریشر باہر کے فضائی دباؤ کے مقابلے میں دس گنا ہو چکا۔ اور لیجئے تبدیلی آ گئی۔ باہر کا خول جس کا مقصد بیرونی ضرر سے حفاظت تھا، وہ اس اندرونی بغاوت کا مقابلہ کرنے میں ناکام ہو گیا۔ اور ایک دھماکہ۔
باہری خول کے چٹخ جانے کے بعد اس کے اندر بھرے مواد نے تیزی سے باہر کا سفر شروع کیا۔ یہ اس وقت تک جاری رہے گا جب تک اندرونی دباؤ بیرونی دباؤ کے برابر نہیں ہو جاتا۔ یہ فرق اتنا تھا کہ دباؤ برابر ہوتے ہوتے اس کا والیوم بھی پہلے سے بہت زیادہ ہو گیا اور یہ بالکل ہی الٹ گیا۔
ایک درجہ حرارت پر پہنچ کر ان دانوں کے بھن جانے سے مشین گن کے فائر ہونے جیسی آوازوں کے پیچھے یہ عمل ہے۔
لیکن کچھ دانے بھننے سے رہ گئے۔ یہ وہ تھے جن کے خول میں کہیں کوئی خامی رہ گئی تھی اور کہیں کوئی چھوٹا سا سوراخ تھا جس کی وجہ یہ دباؤ بن ہی نہ سکا۔
مکئی کے علاوہ کسی اور دانے کے ساتھ ایسا کیوں نہیں۔ اس لئے کہ دوسرے دانوں کے خول سوراخ دار ہوتے ہیں۔ جب گرم ہوا کے باہر جانے کے راستے ہوں تو اندرونی دباؤ سے پریشر ککر نہیں بنتے اور اس طرح کے دھماکے نہیں ہوتے۔
چلیں، اب پاپ کارن تیار ہیں۔