ہمارے جسم میں کام کرنے کے لئے مختلف طرح کی پروٹینز ہیں لیکن ان سب کا منیجر ہمارا ڈی این اے ہے۔ سب سے پہلے فروری 2001 میں انسان کے جینیاتی سیکوئنس کو ریلیز کیا گیا جو کہ زندگی کی زبان ہے۔ یہ زندگی کو سمجھنے کے لئے ایک بہت بڑا سنگِ میل تھا۔ ہمارا ڈی این اے چار حروفِ تہجی پر مشتمل ہے جو بار بار دہرائے جاتے ہیں۔ ہم اپنے والد اور والدہ دونوں سے تین تین ارب حروف وراثت میں لیتے ہیں جن سے بننے والے تین ارب جوڑے ہمارے زندگی کا سکرپٹ ہیں۔ ان چھ ارب میں سے ایک کے بھی خراب ہونے سے جسم میں اہم خرابی ہو سکتی ہے۔ لیکن جینیات میں ان سے آگے بھی ہے جو ہے بائیولوجی کا نیا شعبہ، ایپی جینیٹکس۔
پہلے کچھ دلچسپ حقائق۔
میملز کے برعکس کئی رینگنے والے جانوروں میں مادہ اور نر کے ڈی این اے میں فرق نہیں۔ مثلا، مگرمچھ کے مادہ یا نر ہونے کا تعلق اس کے انڈے کے درجہ حرارت سے ہے۔ ڈی این اے دیکھ کر تعین نہیں کیا جا سکتا کہ یہ نر کا ہے یا مادہ کا۔ گرم ہوتا ماحول ان کے نر اور مادہ کے تناسب پر اثرانداز ہو گا۔
شہد کی مکھی میں مکھی کے کوئین یا ورکر ہونے کا تعلق صرف اس کی ابتدائی خوراک سے ہے۔ اس کے علاوہ کوئی فرق نہیں۔ دونوں کا لاروا بالکل ایک ہی ہوتا ہے۔ مگر اس کے باوجود کوئین کا نہ صرف رول بالکل مختلف ہوتا ہے بلکہ اس کی زندگی ورکر کے مقابلے میں بیس گنا زیادہ ہے۔
ہمارا جسم ایک خلیے کی تقسیم سے شروع ہوتا ہوا سات سو کھرب خلیات تک جا پہنچا ہے جو خود دو سو سے زائد قسموں کے ہیں۔ مدافعتی نظام کو چھوڑ کر باقی تمام خلیے جینیاتی سطح پر بالکل ایک ہیں جن کے ڈی این اے کوڈ میں کسی قسم کا فرق نہیں۔ مگر دل کے خلیے، گردے یا جلد کے خلیے سے بالکل مختلف اور پوری عمر مختلف رہتے ہیں۔
آپ اپنی اگلی نسل کو جو خصوصیات وراثت میں دیتے ہیں، صرف وہ نہیں جو آپ نے اپنے والدین سے لیں۔ اپنے ماحول اور عادات سے ہونے والے اثرات بھی آپ اپنی نسل کو منتقل کرتے ہیں۔ (یہ جملہ اس بارے میں عام سمجھ سے مختلف ہے)
اگر کسی کا بچپن پرتشدد ماحول میں گزرے تو اس کے لئے زندگی میں کامیابی حاصل کرنے کے امکان پر برا اثر پڑتا ہے۔ ایسے ماحول سے نکلنے کے بعد بھی تمام عمر خوف اور سٹریس برقرار رہتے ہیں۔ اس کی وجہ اندرونی فزیکل تبدیلی ہے۔ مطمئن اور خوش زندگی گزارنے کا بڑا تعلق خوشگوار بچپن سے ہے۔
اب چلتے ہیں بائیولوجی کے سب سے اہم سوال کی طرف۔ ایک ہی ڈی این اے جینوم کوڈ کے ساتھ مختلف نتائج کیوں؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کوڈ میں اضافی نوٹ لگے ہیں جو ان سے حاصل ہونے والا نتیجہ تبدیل کر دیتے ہیں۔ ساتھ لگی تصویر ہمارے ڈی این اے کی ہے جو ہمارے خلیوں میں ہے۔ یہ لمبائی میں نہیں، یہ پروٹین کے آٹھ مالیکیولز سے گھرا ہے جو اسے مٹھی کی شکل بنائے جکڑے ہیں۔ ہر پروٹین مالیکیول کی اپنی دم سی نکلی ہے۔ یہ ایک تصویر بنانے کے لئے بہت سے سائنس دانوں کی برسوں کی محنت اور کئی ملین ڈالر لگے ہیں۔ (دوسری تصویر اس کے ماڈل کی)۔ ہم اپنے ماحول اور عادات سے ان پروٹینز کے دم والے حصے پر کچھ انفارمیشن بدلتے ہیں۔ جسم کے مختلف حصوں سے موصول ہوتے سگنل ایسا کرتے ہیں۔ یہ ہیں وہ اضافی نوٹ ہیں جن سے جین ایکسپریشن بدل جاتا ہے۔ ان آٹھ مالیکیولز پر ساٹھ مختلف طرح کی معلومات کا اضافہ ہو سکتا ہے جس سے ہر ایک جین صرف آن یا آف نہیں بلکہ سینکڑوں مختلف حالتوں میں ہو سکتی ہے۔ ان میں سے ایک حالت کسی جین کو مکمل طور پر بند کر دینے کی ہے جس سے یہ پھر سکڑ جاتی ہے اور کبھی آن نہیں ہو سکتی۔ یہی راز ہے کہ دماغ کے خلیات میں جو جین ایکسپریشن بند ہیں، ان کی وجہ سے وہ ہوموگلوبن لے جانے والا کام نہیں کر سکتے۔ کیونکہ ان کا یہ سوئچ زندگی کے شروع میں ہی ان پروٹینز نے بند کر رکھا ہے۔ یہ سب ایپی جینیٹک تبدیلیاں ہیں۔ ڈی این اے تو ایک ہی رہا مگر جین ایکسپریشن بدل گیا۔ ان ہونے والی تبدلیوں کا ہماری صحت سے بھی گہرا تعلق ہے۔ اس وقت اربوں ڈالر ادویات کی تحقیق پر خرچ ہو رہے ہیں جو ان میں مطلوبہ تبدیلی لا کر کئی قسم کی بیماریوں کا علاج کر سکیں۔ جب ہم کسی قسم کا لائف سٹائل اپناتے ہیں تو ان پر فرق آتا ہے۔ مثلا، اگر آپ سگریٹ کی عادت اپنا لیں تو اس کو پراسس کرنے کے لئے جسم اپنے سوئچ کی حالت بدل دے گا۔
چوہوں پر کئی گئے تجروں نے ثابت کیا کہ یہ ایپی جینیٹک معلومات صرف فرد تک نہیں رہتی بلکہ اگلی نسلوں تک منتقل ہوتی ہے۔ اس پر ایک تجربے میں کچھ چوہوں کو چیری بلاسم کی خوشبو سنگھائی جاتی اور ساتھ ہی بجلی کا ہلکا سا جھٹکا دیا جاتا جس سے ان کو چیری بلاسم کی خوشبو کے ساتھ خوف بیٹھ گیا۔ ایسے چوہے جو اس خوشبو سے خوفزدہ تھے، ان کی اگلی نسل میں بھی یہ خوف پایا گیا اور وہ بھی خوشبو سونگھتے ہی ری ایکشن دیتے تھے۔ (یہ تجربہ کرنا اتنا آسان نہیں، جتنا سننے میں لگتا ہے)۔ یہ انتہائی اہم تجربہ اور دریافت تھے اور ہماری اس سے پہلے تک کی سمجھ سے مختلف۔ یعنی لامارک کا نظریہ مکمل طور پر غلط نہیں۔
ایپی جینیٹکس پر ہونے والے حالیہ تجربات اس سے بھی زیادہ دلچسپ نتائج دے رہے ہیں جن سے ہمیں زندگی کو مزید بہتر سمجھنے میں مدد ملے گی۔ ایپی جینیٹک کوڈ ہے جس کی وجہ سے کسی جاندار کو کلون کرنا شاید کبھی ممکن نہ ہو اور جب بھی کلوننگ کی جاتی ہے، نئے کلون کی صحت ٹھیک نہیں ہوتی۔ زندگی کا یہ کوڈ صرف پیچیدہ جانداروں سے خاص نہیں۔ یہ نباتات اور سادہ زندگی پر بھی اسی طریقے سے ہی کام کرتا ہے۔ اس بارے میں بننے والی ادویات کی تحقیق میں بڑا مسئلہ یہ ہے کہ بہت ہی زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے۔ ایک ہی تبدیلی جو دل کے خلیے میں ایک چھوٹی سی تبدیلی کر کے بیماری ٹھیک کر سکتی ہے، وہی تبدیلی پھیھڑا کے خلیے میں کینسر کا باعث بن سکتی ہے۔
نوٹ: اس پوسٹ کی معلومات نیسا کیری کی کتاب 'ایپی جینیٹکس ریوولوشن' سے لی گئی ہے جو جینیات میں پوسٹ ڈاکٹریٹ ہیں۔ ان کی دوسری کتاب 'جنک ڈی این اے' ہمارے جینیاتی کوڈ کے اس اٹھانوے فیصد حصے کے کردار کے بارے میں ہے جسے ایک وقت میں بیکار خیال کیا جاتا رہا۔
ایپی جینیٹکس کی اچھی معلومات کے لئے
رینگنے والے جانوروں کی جنس کے تعین کے بارے میں معلومات یہاں سے۔