شام میں پچھلے آٹھ برس سے خانہ جنگی کا اکھاڑا سجا ہے۔ ایک مختصر تعارف اس کا کہ اس خانہ جنگی میں فریقین ہیں کون؟ کون لڑ کس سے رہا ہے تا کہ آپ کو اس لڑائی کے کرداروں میں سے اپنی پسند کا انتخاب کرنے میں آسانی رہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بشارالاسد
یاسر عرفات کی قیادت میں تنظیمِ آزادئ فلسطین اردن کی حکومت پر حملہ آور ہوئی۔ اس کا ساتھ شام کی فوج نے دیا۔ اس جنگ میں شام کو شکست ہوئی۔ صورتحال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے حافظ الاسد نے 1970 میں شام کی نامقبول حکومت کا تختہ الٹا کر اقتدار سنبھال لیا اور اگلے تیس سال تک صدر رہے۔ ان کے انتقال کے بعد صدارت ان کے بیٹے بشارالاسد کے حصے میں آئی جو اب پچھلے 19 سال سے صدر ہیں۔ 2011 میں ان کے خلاف بغاوت شروع ہوئی۔ اس اکھاڑے میں ان کی لڑائی ہر اس شخص، گروپ، ملک اور اتحاد سے ہے جو ان کو حکمران نہیں دیکھنا چاہتا۔ تشدد سے لے کر کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال تک ہر حربہ ان کے لئے ٹھیک ہے اور استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ ان کے دوست روس، ایران، لبنان سے تعلق رکھنے والی تنظیم حزب اللہ، اور کچھ ملشیا گروپس ہیں۔ اس جنگ میں ان کا مقصد اقتدار میں رہنا ہے۔
روس
روس اور شام پرانے اور سرد جنگ کے دور سے اتحادی ہیں۔ اس خطے میں روس کا اس سے اچھا دوست کوئی اور نہیں رہا تھا۔ روس کی ایک مستقل عسکری بیس یہاں پر رہی ہے۔ سرد جنگ کے بعد والی دنیا میں روس اپنی اہمیت گنوا بیٹھا تھا۔ اپنے پرانے دوست کی مدد کر کے روس خود ایک عالمی طاقت کے طور پر اپنے آپ کو منوانے کا ایک اچھا موقع بھی سمجھتا ہے۔ اس کا وزن پوری طرح شام کی موجودہ حکومت کے پلڑے میں ہے۔ اقوامِ متحدہ میں اس نے سلامتی کونسل میں اس بارے میں پیش ہونے والی ہر قرارداد کو ویٹو کیا ہے۔ 2015 میں براہِ راست فوجی آپریشن میں شامل ہو گیا۔ فضائی حملے بھی کئے اور زمینی فوج بھی اب شام کے مختلف علاقوں میں موجود ہے۔ اپنے فوجیوں کے علاوہ ایک پرائیویٹ عسکری ادارے، ویگنر کے اڑھائی ہزار کرانے کے فوجی روس کی طرف سے لڑ رہے ہیں۔ اس کا مقصد اس خطے میں اور دنیا میں اپنی اہمیت ثابت کرنا ہے۔
ایران
شامی حکومت کے ایک اور پرانے دوست نے ایران نے شامی حکومت کو اسلحہ اور انٹیلی جنس میں مدد کی۔ اپنے لوگوں کے علاوہ افغانستان، یمن اور پاکستان جیسے ممالک سے بھی رضاکار بھرتی کر کے لڑنے کے لئے بھیجے۔ ایران کے پسندیدہ عسکری گروپس حرکہ حزب اللہ النجباء اور لواء زینبون ہیں۔ یہاں پر جنگ نہ صرف اپنے اتحادی کی سپورٹ ہے بلکہ خطے میں اپنے حریفوں کے پراکسی گروپس سے لڑائی میں کامیابی خطے میں اس کی اہمیت قائم رکھنے میں معاون ہو گی۔ اگر اپنے اس ہمسائے میں اپنی مرضی کے خلاف حکومت آ جائے تو اس کے لئے مسائل کا باعث ہو گی۔ اس کا مقصد ہمسایہ ملک میں اپنے مطلب کے حکمران کو برقرار رکھنا ہے۔
ترکی
ترکی شام کی حکومت کا بڑا مخالف رہا۔ اس نے سب سے پہلے حکومت کے خلاف باغیوں کو تربیت دی اور مسلح کیا۔ اس کا پسندیدہ گروپ فری سیرین آرمی رہا۔ کچھ عرصے بعد اس کی توجہ شامی حکومت سے ہٹ کر داعش کی طرف ہو گئی۔ لیکن اس کا یہاں پرے میں سب سے بڑا دشمن نہ شامی حکومت ہے اور نہ ہی داعش۔ اس کے لئے سب سے بڑا مسئلہ کرد ہیں۔ اس جنگ میں کردوں کے مضبوط ہو جانے کے بعد ترک پالیسی بنیادی طور پر اس مسئلے سے نمٹنے کی ہے۔ یہ شام کے علاقے عفرین پر قبضہ کر کے وہاں کی آبادی کو بے دخل کر چکا ہے۔ اس کا دوسرا مسئلہ شام سے آنے والے پناہ گزین ہیں (جن کو رکھنے کے عوض عالمی برادری ترکی کو پونے تین ارب ڈالر سالانہ دیتی ہے)۔ ان بڑے مسائل کی وجہ سے ترکی بشار الاسد کی حکومت کو اب تسلیم کر چکا ہے۔ ترکی نے ایک تیر سے دو شکار کرنے کی حکمتِ عملی یہ بنائی ہے کہ کردوں کو ان کے علاقے سے بے دخل کر کے ان پناہ گزینوں کو وہاں پر بسایا جائے۔
امریکہ
شام اور امریکہ کے تعلقات تاریخی طور پر کبھی اچھے نہیں رہے۔ سرد جنگ میں شام سوویت یونین کے بلاک میں اور اس کا قابلِ اعتماد دوست تھا۔ امریکہ یہاں پر اس لالچ میں آیا تھا کہ بشار الاسد کی حکومت رخصت ہو جائے گی اور اپنی مرضی کی حکومت بنائی جا سکے۔ سی آئی اے نے حکومت کے خلاف لڑنے والوں کو ہتھیار اور ٹریننگ مہیا کی۔ بشار الاسد کو ہٹاتے ہٹاتے پہلے القاعدہ آ گئی۔ جب تک اس کی پہچان ہوئی، اس وقت تک داعش اُگ آئی۔ اس کی ترجیحات بدلتی گئیں۔ داعش کا مقابلہ کرنے کے لئے کرد جنگجووٗں کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا۔ اس جنگ میں کامیابی ہوئی۔ عراق اور شام میں کنفیوز قسم کی پالیسی جاری تھی کہ سونے پر سہاگہ ہو گیا اور امریکہ میں ٹرمپ صدر بن گئے۔ ان کو یہاں کی سیاست کی جب بالکل ہی سمجھ نہیں آئی تو انہوں نے ایک اور حکمتِ عملی اپنائی۔ ٹوئٹر پر اپنی فتح کا اعلان کیا، بوریا بستر لپیٹا اور یہاں سے چلتے بنے۔
عالمی اتحاد
اس میں 79 ممالک شامل ہیں۔ یہ اتحاد 2014 میں قائم ہوا تھا اور اس کا مقصد شام میں استحکام لے کر آنا تھا۔ اس میں امریکہ یورپی ممالک، ترکی، سعودی عرب، قطر، عراق اور مشرقِ وسطیٰ کے چھ دوسرے ممالک شامل ہیں۔ یہ اتحاد ہے کیوں، کرتا کیا ہے، اس کی سمجھ ابھی کسی کو نہیں۔ اس اتحاد کے شرکاء ایک دوسرے سے متضاد پالیسیاں رکھتے ہیں۔ ایک دوسرے سے پراکسی جنگ میں بھی مصروف ہیں۔ کیا یہ اتحاد ابھی بھی موجود ہے؟ اس کی خبر بھی کم لوگوں کو ہے۔
سعودی عرب اور قطر
تیل کی دولت سے مالامال یہ دونوں ممالک ایک دوسرے کے سخت دشمن ہیں۔ ایک دوسرے سے اس قدر نفرت رکھتے ہیں کہ ایک ملک دوسرے کا دنیا سے زمین رابطہ کاٹ دینے کے لئے ایک مہنگے پراجیکٹ کے ذریعے زمین کو ہی کاٹ رہا ہے، جبکہ دوسرے نے امریکہ کو علاقے کی سب سے بڑی اور شاندار عسکری بیس بالکل مفت بنا کر تحفے میں صرف اس لئے دی ہے تا کہ دوسرے کو جارحیت کا موقع نہ ملے۔ البتہ شام کے معاملے میں دونوں کی پالیسی بالکل ایک ہے۔ دونوں ممالک شامی بغاوت کے لئے اربوں ڈالر خرچ کر چکے ہیں۔ دونوں ممالک کے نجی شہری نصرہ فرنٹ اور دوسرے جہادی گروپس کو خاموشی سے فنڈ دیتے رہے ہیں۔
عراق
عراق خود اپنے ملک کے علاقے کو کنٹرول کرنے میں مشکل کا شکار رہا تھا۔ یہ شام میں جا کر کئی مرتبہ فضائی حملے کر چکا ہے۔ اس کی دلچسپی داعش کو ختم کرنے میں رہی ہے کیونکہ داعش عراق کے لئے اس کا اپنا مسئلہ رہا ہے۔
اسرائیل
اسرائیل نے 1967 میں شام سے گولان ہائیٹس کو جنگ میں چھینا تھا۔ تب سے یہ علاقہ اسرائیل کے پاس ہی ہے۔ اس کو اپنے پڑوس میں ہونے والی خانہ جنگی میں اپنے پرانے حریف حزب اللہ کو نشانہ بنانے کا موقع ہاتھ آیا ہے۔ اسرائیل کے مشن کو “اچھے ہمسائے کا آپریشن” کا نام دیا گیا ہے۔ اسرائیلی وزیرِ دفاع کے مطابق یہاں پر دو سو سے زائد حملے شام میں کر چکا ہے۔ اس دوران اس کا ایک ایف 16 طیارہ تباہ ہوا تھا۔ روس اور امریکہ نے 2017 میں شام میں جنگ بندی کے ایک پلان پر اسرائیل سے بات چیت کی تھی۔ اس میں شام کی سرحد کا کچھ علاقہ اسرائیل اور اردن کے کنٹرول میں دے کر “سیف زون” بنانے کا پلان تھا۔ اسرائیل نے اس کو مسترد کر دیا کیونکہ اس کے لئے کوئی بھی معاہدہ قابلِ قبول نہیں جس میں بشارالاسد کی حکومت کو تسلیم کئے جانا شامل ہو۔
حزب اللہ
لبنان میں حزب اللہ 1985 میں قائم ہوئی تھی۔ یہ سیاسی اور عسکری پارٹی ہے۔ اس کا سرپرست ایران رہا ہے اور یہ مدد براستہ شام اسے ملتی رہی ہے۔ یہ گروپ شام میں غیرموافق حکومت کا آ جانا افورڈ نہیں کر سکتا۔ اس جنگ میں یہ تمام ایسے گروپس سے لڑ رہا ہے، جو حکومت کے خلاف ہیں۔ اس کی آجکل روس سے گاڑھی چھنتی ہے۔ فری سیرین آرمی اس کا پسندیدہ نشانہ رہا۔
فری سیرین آرمی
بغاوت کی تحریک شروع ہونے کے بعد 2011 میں یہ ان باغی فوجیوں کی طرف سے بنایا گیا تھا جنہوں نے شام کی فوج سے علیحدگی اختیار کر لی تھی۔ ایک وقت میں یہ طاقتور گروپ تھا۔ امریکہ، ترکی، خلیجی ممالک کا پسندیدہ گروپ ہوا کرتا تھا۔ ان سے مدد لیتا تھا۔ ان میں سے کچھ سب گروپس کا اتحاد القاعدہ سے رہا۔ حلب اور حمص پر ان کا قبضہ تھا۔ حکومت اس سے یہ علاقے حاصل کر چکی ہے۔ روسی فضائیہ ان پر بمباری کرتی رہی ہے۔ کردوں سے بھی جنگ رہی ہے۔ اس کے اپنے اندر کئی دھڑے ہیں اور کوئی یکجا سیاسی اور عسکری مقصد نہیں۔ یہ شامی حکومت سے لڑتے ہیں اور فارغ وقت میں ایک دوسرے سے۔ یہ اب زیادہ اہم نہیں رہے۔
جبهة النصرة
اس گروپ نے شامی حکومت کے خلاف ابتدا میں تیزی سے کامیابی حاصل کی۔ یہ پہلے القاعدہ کا شامی چپٹر بن گیا۔ پھر اس کے اپنے اندر پھوٹ پڑ گئی۔ احرار الشام کے نام سے بننے والے گروپ سے خونی لڑائیاں ہونے لگیں۔ اس نے اپنا نام جبهة فتح الشام کیا۔ اب یہ چار الگ گروپس سے مل کر هيئة تحرير الشام کہلاتا ہے۔ القاعدہ سے اب ماسوائے نظریات کی مماثلت کے اس کا تعلق نہیں۔ امریکہ نے اس کو سب سے پہلے دہشت گرد تنظیم قرار دیا۔ اس کو مختلف وقتوں میں قطر، ترکی، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی حمایت حاصل رہی۔ قطر کے علاوہ باقی اس سے رابطہ توڑ چکے ہیں۔ کیمرے کے آگے لوگوں کے سر قلم کے لہرانے والوں کا دفاع کرنا آسان نہیں۔ اس گروپ کے پاس اب کوئی علاقہ نہیں۔
دولتِ اسلامیہ
داعش کے نام سے مقبول ہونے والے اس گروپ کو البغدادی نے 2013 میں بنایا تھا۔ جلد ہی اس کے پاس عراق اور شام میں اس قدر علاقہ تھا کہ ایک روز البغدادی نے عالمِ اسلامی پر خلافت کا اعلان کر دیا۔ اس نے غلاموں کی منڈیوں سمیت کئی نئے رواج قائم کئے۔ ان کی سب سے اہم آئیڈیولوجی یہ تھی کہ دنیا خاتمے کے قریب ہے۔ ان کی محبت تباہی سے تھی۔ اس کی آمد نے کئی نئے اتحاد بنائے۔ اس خطے میں چلنے والی اس کالی آندھی نے جلد ہی وہ رنگ جمایا کہ القاعدہ اس کے آگے معتدل جماعت لگنا شروع ہو گئی۔ اس گروپ نے یہاں پر لڑنے والے ہر ایک کو متحد کر دیا۔ سب ایک دوسرے سے لڑتے ہیں البتہ داعش سے ہر کوئی لڑتا ہے۔ اس کی سب سے متاثر کن کامیابی یہ تھی کہ اس میں شامل ہونے کے لئے دنیا بھر سے لوگ آئے۔ ایک اندازے کے مطابق اس میں سو ممالک سے تعلق رکھنے والے چالیس ہزار جنگجو شام پہنچے۔ اس میں عرب، ترک، برِصغیر سے تعلق رکھنے والے، یورپ، امریکہ، وسطی ایشیا، افریقہ سبھی شامل رہے۔ یہاں تک کہ چین سے آنے والی ترکستان بریگیڈ جو پہلے القاعدہ کے ساتھ تھی، اس نے اپنے آپ کو داعش کے ساتھ ملا لیا۔ کئی سال تک شام کے سب سے زیادہ علاقے پر ان کا قبضہ رہا۔ 2019 کی آمد تک اس کا تقریباً ہر جگہ سے صفایا کیا جا چکا تھا۔ کئی جنگجو ابھی بھی اس سے وفاداری رکھتے ہیں۔
سیریا ڈیموکریٹیک فورسز
کرد اور عرب جنگجوٗوٗں کا اتحاد جن کی ترجیح داعش کے ساتھ مقابلہ کرنا اور شمالی شام سے انکو نکالنا رہی تھی۔ پہلے ان کو روسی امداد حاصل رہی۔ 2018 میں امریکہ کے ساتھ اتحاد کر لیا۔ امریکہ کے یکایک یہاں سے چلے جانے کے بعد اب انکا اگلا اتحاد بشارالاسد سے ہوا ہے کیونکہ یہ چھڑ جانے والی نئی جنگ میں خود ترکی کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔
ڈیموکریٹک یونین پارٹی
اس نے رہاوا کا نیم خود مختار علاقہ قائم کیا جو کرد اکثریت کا ہے۔ داعش کے خلاف جنگ کا پانسہ بدلنے میں اس گروپ کا اہم کردار تھا۔ اس پارٹی کا تعلق عبداللہ اوچلان سے ہے جو ترکی کے قیدخانے میں دہشت گردی کے الزام میں عمرقید گزار رہے ہیں۔ ترکی اس کو دہشت گرد گروپ کہتا ہے۔ ان کی لڑائی ترکی، شامی حکومت، داعش، فری سیرین آرمی، جبہة النصرہ سے ہوتی رہی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کے علاوہ کچھ کرانے کے فوجی، جیسا کہ یونانی گروپ نافٹومار، کچھ رضاکار گروپ جیسا کہ فری عراق گروپ، کچھ مقامی تنظیمیں جیسا کہ پیپلز پروٹیکشن یونٹ اور بہت سے جرائم پیشہ افراد کے گروپ یہاں پر اس جنگ میں اپنا اپنا حصہ ڈال رہے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پاکستان
پاکستان کی یہاں پر پالیسی کیا ہے؟ پاکستان پالیسی بیان کے مطابق مسئلے کا "پرامن حل" چاہتا ہے۔ (اس اصطلاح کا جو بھی مطلب ہے)۔ ڈالے جانے والے پریشر کے باوجود کسی بھی گروپ کے عسکری سپورٹ سے انکار کیا ہے۔ سفارتی طور پر پہلے پاکستان نے بشارالاسد کو سپورٹ کیا۔ اقوامِ متحدہ میں قرارداد میں روس کی حمایت کی۔ شام کی آئینی حکومت کو غیرجمہوری طریقے سے ہٹا دینے کی کوششوں کی مخالفت کی۔ غوطہ میں شامی حکومت کی طرف سے کئے جانے والے کیمیائی حملے کی مذمت کی۔ ترکی نے جب شام پر “زیتون کی شاخ کا آپریشن” شروع کیا تو اس کے حملے میں بھی نیوٹرل رہا ہے۔ اس تنازعے سے ممکنہ حد تک دور رہا ہے۔
پاکستان کے شہری اس میں اپنے اپنے حساب سے ان پہلوانوں کی حمایت یا مخالفت کرتے رہے ہیں۔ میدانِ جنگ میں بھی جاتے رہے ہیں۔ اس جگہ کی پراکسی جنگوں کی پراکسی کا کچھ حصہ پاکستان میں دسمبر 2015 میں چھلک گیا۔ پاراجنار کی مسجد میں کئے جانے والے دھماکے کا تعلق زینبون بریگیڈ اور دولتِ اسلامیہ کے درمیان شام میں ہونے والی لڑائی سے تھا۔ البتہ، مجموعی طور پر، یہاں سے آنے والا اثر پاکستان میں زیادہ نہیں پہنچا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
موجودہ صورتحال
ساتھ لگی دوسری تصویر میں لگا نقشہ یہ دکھا رہا ہے کہ کونسا علاقہ مارچ 2019 کس کے کنٹرول میں ہے۔ زیادہ حصہ شامی حکومت کے پاس ہے یا کرد فورسز کے قبضے میں۔ اپنی سرحد کے ساتھ اتنا بڑا اور خودمختار کرد علاقہ ترکی کے لئے قابلِ قبول نہیں۔ عفرین پر قبضے کے بعد یہ اپنا علاقہ بڑھانا چاہتا ہے۔ اس وقت کئی سرحدی آبادیوں پر بمباری جاری ہے۔ ترکی نے اس میں جس طاقت سے اتحاد کیا ہے، وہ روس ہے۔ شام کی جنگ میں اس وقت کا یہ سب سے گرم محاذ ہے۔
عملی طور پر بشارالاسد یہ جنگ جیت چکے ہیں۔ ترکی کا نیا حملہ ان کے لئے اچھی خبر ہے۔ کرد شامی حکومت کے دوست نہیں تھے، لڑنا جانتے تھے۔ ترکی کی مدد کے بغیر بشار کے لئے کرد علاقہ حاصل کرنا ممکن نہ ہوتا۔ یہاں پر اب ان کا کوئی متبادل نہیں ہے۔ ان کے اقتدار کو اب خطرہ نہیں۔ بشار دو بار الیکشن لڑے تھے۔ 2000 میں ہونے والے انتخاب میں انہوں نے 99.3 فیصد اور 2007 میں 97.8 فیصد ووٹ لے کر کامیابی حاصل کی تھی۔ اس طرز کے حکمران انتخابات ایسے ہی مارجن سے جیتتے ہیں۔ اگر آئندہ اتنخابات ہو بھی جائیں تو کسی کو توقع نہیں کہ نتائج اس سے مختلف آئیں گے۔ لیکن ابھی بہت سے معاملات طے ہونا باقی ہیں۔ یہ طے ہونا بھی باقی ہے کہ کون کس سے لڑے گا۔ کونسے گروپ واپس آئیں گے۔ کونسی نئی طاقتیں ابھریں گی۔ ابھی جنگ جاری رہے گی۔
اکھاڑے کے ان پہلوانوں میں اپنے پسندیدہ پہلوان کا انتخاب اب آپ خود کر لیجئے۔
اور ہاں، اس سب کے بیچ، اس ملک میں میرے اور آپ جیسے لوگ بھی بستے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ساتھ لگی تصویر میں پہلی آسان طریقے سے یہ بتانے کی کوشش ہے کہ کون کس کا دوست اور دشمن ہے۔
دوسری تصویر مارچ 2019 میں شام کا نقشہ
تیسری تصویر مئی 2017 میں شام کا نقشہ
چوتھی تصویر سمتبر 2015 میں شام کا نقشہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔