ہوائی جہاز سفر کرنے کا محفوظ ترین طریقہ ہے۔ ایک جگہ سے دوسری جگہ تک سفر کرنے میں اس چیز کا امکان کہ مسافر گھر سے ائیرپورٹ جاتے ہوئے حادثے میں مارا جائے، اس سے کہیں زیادہ ہوتا ہے کہ وہ جہاز کے حادثے کا شکار ہو۔ طیارے کا حادثہ کہیں پر بھی ہو، صفحہ اول کی بڑی خبر ہوتی ہے۔ ایک خبر جو صفحہ اول پر نہیں لگتی، وہ حادثہ نہ ہونے کی ہے۔ البتہ ایک ایسی خبر 12 جنوری 2009 کی اخبار میں لگی۔ یو ایس اے ٹوڈے میں ایک ہیڈلائن تھی کہ پچھلے دو برس میں امریکہ میں ایک بھی فضائی حادثہ نہیں ہوا۔ (موازنے کے لئے: امریکہ میں روزانہ پروازوں کی تعداد اسی ہزار ہے، جن میں سے تیس ہزار کمرشل فلائٹس ہیں۔ پاکستان میں روزانہ کی تعداد ایک سو ہے یعنی پاکستان میں جتنی پروازیں ایک سال میں ہوتی ہیں، اتنی امریکہ میں ایک روز میں)۔ اس مضمون میں لکھا گیا تھا کہ بڑھتی پروازوں کے باوجود 2007 اور 2008 میں ایک بھی جان لیوا حادثہ پیش نہیں آیا۔ اعداد و شمار کے مطابق فضائی حادثات اتنے نایاب تھے کہ ایک نیا پیدا ہونے والے بچے کا اپنی زندگی میں صدر بننے کا امکان زیادہ تھا بہ نسبت اس کے کہ وہ فضائی حادثے میں مارا جائے۔ (فضائی سفر کچھ جگہوں پر مقابلتاً بہت زیادہ محفوظ ہے)۔
یہ خبر اس لئے بھی غیرمعمولی تھی کہ خبر ہمیشہ کوئی بری چیز بنتی ہے کیونکہ حادثہ نہ ہونا کوئی خبر نہیں۔ (یہی وجہ ہے کہ زیادہ خبریں پڑھنا منفیت کی طرف لے جاتا ہے۔ مین سٹریم میڈیا ہو یا پھر سوشل میڈیا، باخبر رہنے کا شوق کسی کو بھی مایوسی کی طرف دھکیلنے کا باعث بنتا ہے)۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس خبر کی اشاعت سے تین روز بعد 15 جنوری 2009 کو ایک جہاز نیویارک سے سئیٹل جانے کے لئے اڑا۔ اڑنے کے ڈیڑھ منٹ بعد ہی جب جہاز ائیرپورٹ سے ساڑھے چار میل دور تھا، اس کا تصادم مرغابیوں کے ایک جھنڈ سے ہو گیا۔ ٹکرانے کی اونچی آوازیں آئیں، انجنوں سے شعلے بلند ہوئے اور پھر خاموشی۔ دونوں انجن ناکارہ ہو گئے تھے۔ جہاز کے کپتان نے مے ڈے کی کال کی۔ کپتان کو رن وے 13 پر اترنے کا کہا گیا۔ کپتان نے اندازہ لگا لیا کہ وہ واپس پہنچ نہیں پائیں گے۔ کپتان نے پیغام دیا،“ہم دریا میں اترنے لگے ہیں”۔
نوے سیکنڈ بعد کیپٹن سلن برگر جہاز کو دریائے ہڈسن میں اتار چکے تھے۔ 155 مسافروں میں سے تمام زندہ بچا لئے گئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس واقعے کا سہرا کپتان کے سر بندھا اور اس کو ہڈسن کا معجزہ قرار دیا گیا۔ لیکن کیا صرف سپرہیرو یا معجزہ واقعات کی وضاحت کر دیتے ہیں؟
اس میں شک نہیں کہ کپتان نے غیرمعمولی حاضردماغی اور مہارت دکھائی لیکن اس کے پیچھے ہزاروں لوگوں کے کئی دہائیوں میں لئے گئے فیصلوں کی تاریخ بھی تھی۔ اس کے بغیر ان لوگوں کا زندہ بچ جانا ممکن نہیں تھا۔ ان کا محفوظ رہ جانا انسانی ذہانت کے بڑے نیٹورک کی فتح تھی۔ خیالات جو شئیر کئے گئے، کارپوریشنز کی ایجادات، سرکاری فنڈنگ، حکومتی ریگولیشنز۔ ان کو نظرانداز کر دینے سے واقعہ ڈرامائی نظر آنے لگتا ہے لیکن جب تک ہم کہانی کی تہہ تک نہ پہنچیں، اس کے پیچھے نہ جھانکنے کی کوشش کریں، یہ نہیں جان پاتے کہ آخر ترقی کہاں سے ہوتی ہے؟ اس کو تیزتر کیسے کیا جا سکتا ہے؟ پورے پسِ منظر کو سمجھے بغیر اس کا پتا نہیں لگتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کی کہانی کا ایک پہلو مردہ مرغیاں پھینکنے والی بندوق ہے۔ پرندوں سے جہازوں کو خطرہ پرانا ہے۔ اس سے انجن فیل ہو سکتا ہے۔ لیکن فیل ہونا صرف ایک لفظ نہیں۔ اس کے اپنے کئی طریقے ہیں۔ انجن کام کرنا بند کر دے؟ یا یہ ٹوٹ جائے؟ اگر یہ ٹوٹ جائے تو اس کے حصے سٹرکچرل نقصان پہنچا سکتے ہیں جس کے بعد چند سیکنڈ کے اندر جہاز کے پرخچے اڑ سکتے ہیں۔ (عام طور پر پرندوں سے ہونے والا ضرر ایک انجن کو ہوتا ہے اور جہاز دوسرے انجن سے بحفاظت اڑ سکتا ہے)۔ جہاں پر اس بندوق کی ایجاد ایک انوویشن تھی، وہیں اس ٹیسٹ کی اختراع بھی اور ریگولیشن کے ذریعے اس کو لازمی قرار دینا وہ قدم تھا جس نے دنیا کا فضائی سفر زیادہ محفوظ کیا۔
اس طرح محفوظ ڈیزائن کا ایک اور پہلو انجنوں کا ایک دوسرے سے کوئی رابطہ نہ ہونا ہے۔ انجن دو ہوں، یا تین یا چار، یہ بالکل الگ الگ ہوتے ہیں، جن کا اپنا اپنا کنٹرول ہے اور ایک کی خرابی کبھی دوسرے کو متاثر نہیں کرتی۔ یہ جہاز کے لئے ایک اور حفاظتی سسٹم ہے۔ اس فلائٹ کا بڑے جھنڈ سے ہونے والا تصادم جس میں دونوں انجن ناکارہ ہو گئے، ایک بہت ہی نایاب واقعہ ہے۔
کیا پرندوں سے تصادم سے سٹرکچر کا نقصان ہو گا؟ اس کی ٹیسٹنگ ٹینیسی کی آرنلڈ ائیر فورس بیس میں کی جاتی ہے۔ سائنسدانوں اور انجینیرز کی ٹیم ہیلئم گیس کے پریشر والے گن سے جیٹ انجن پر مردہ مرغیاں تیز رفتار سے فائر کی جاتی ہیں۔ اس سے تعین کیا جاتا ہے کہ پرندوں کے ٹکرانے سے یہ انجن محفوظ طریقے سے فیل ہو گا یا نہیں۔ کوئی بھی انجن کا ماڈل اس وقت تک کمرشل استعمال میں نہیں آ سکتا جب تک وہ اس ٹیسٹ کو پاس نہ کر لے۔ ہڈسن کے معجزے والے جہاز میں اگر بڑی تعداد میں ٹکرانے والے پرندوں کے باوجود کوئی سٹرکچرل نقصان نہیں ہوا جس سے جہاز نہیں گرا تھا تو اس کی وجہ کئے جانے والے ڈیزائن اور پاس ہونے والے ٹیسٹ تھے۔ اور یہ انجن اتنے پائیدار تھے کہ بائیں طرف والا انجن کچھ طاقت دیتا رہا تھا۔ یہ محض خوش قسمتی نہیں تھی۔
(انجن پر اس قسم کے بہت سے ٹیسٹ کئے جاتے ہیں۔ فی منٹ ساڑھے چار ٹن پانی۔ توپ سے پھینکی جانے والی برف جو فی منٹ ڈیڑھ ٹن ہوتی ہے۔ انجن کو یہ سب پاس کرنا ہوتا ہے)۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جہاز کے الیکٹرانک اور ہائیڈرولک سسٹم پوری فلائٹ میں کام کرتے رہے۔ یہ فلائی بائی وائر سسٹم تھا جس کی تاریخ 1972 میں شروع ہوتی ہے۔ یہ ناسا کے انجینیرز کا ڈیزائن ہے جو ڈرائیڈن فلائٹ ریسرچ سنٹر میں کیا گیا۔ ڈیجیٹل کمپیوٹر اور دوسری جدید الیکٹرانک کے آلات سے پائلٹ کو جہاز کی کنٹرول انفارمیشن ملتی ہے۔ ناسا کے انجینرز کے کام کو جہازوں کے ڈیزائن میں 1980 کی دہائی میں استعمال کیا جانے لگا۔ ائیربس اے 320 میں فلائی بائی وائر سسٹم 1987 میں تھا۔ (ائر بس اے 320 محفوظ ترین جہاز سمجھا جاتا ہے)۔ اس سے اکیس سال بعد جب کیپٹن سلی اپنا جہاز دریا پر اتار رہے تھے تو ان کا ایک خاموش ساتھی یہ سسٹم تھا۔ یہ سسٹم سالوں کی ریسرچ اور پلاننگ کا نچوڑ تھا۔ ولیم لینگویش اس پر لکھتے ہیں،
“جب کپتان نے بائیں طرف موڑ کاٹ کر جہاز کی ناک نیچے کی طرف کی اور گلائیڈنگ سپیڈ کا انتخاب کیا تو اس رفتار کی ٹھیک کیلکولیشن یہ جہاز خود ہی کر چکا تھا اور ان کی سکرین پر سبز نقطے کی شکل میں نظر آ رہی تھی۔ یہ دس سیکنڈ آگے کی کیلکولیشن کر کے کپتان کی راہنمائی کر رہا تھا کہ انہیں کیا کرنا چاہیے۔ زرد اور سبز نقطے سے ملنے والی راہنمائی سے کپتان نے سائیڈ سٹک کو اس نیوٹرل پوزیشن میں لا کر سیٹ کرنا تھا جس پر جہاز کی ناک کا زاویہ تبدیل نہ ہو”۔
وہ لوگ جو پائلٹ نہیں، عام طور پر سمجھتے ہیں کہ جہاز کا ایک موڈ آٹو پائلٹ ہے اور ایک مینوئل جب پائلٹ کنٹرول میں ہوتا ہے۔ فلائی بائی وائر اس سے زیادہ نفیس ہے۔ سلن برگر کنٹرول میں تھے لیکن یہ سسٹم ساتھ ساتھ خاموشی سے کام کر کے راہنمائی کر رہا تھا۔ ٹھیک انتخاب میں مدد کر رہا تھا۔ سٹیو جانسن لکھتے ہیں کہ “یہ غیرمعمولی لینڈنگ پائلٹ کی نشت پر بیٹھے ایک انسان اور ہزاروں انسانوں کے علم کو کشید کر کے بننے والے سسٹم میں گندھے ہوئے نالج کا ملکر گایا جانے والا گیت تھا”۔
کیا اس سسٹم کے بغیر کیپٹن سلی یہ لینڈنگ کرنے میں کامیاب ہو سکتے؟ اس جہاز پر سوار 155 مسافروں کی خوش قسمتی کہ ان کی قسمت کا انحصار اس سوال پر نہیں تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس جہاز کے حادثے میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ لیکن کئی لوگوں کو زخم آئے۔ چار لوگوں کو دو روز سے زیادہ ہسپتال گزارنے پڑے۔ منفی سات ڈگری کے درجہ حرات میں پانی میں وقت گزارنے کی وجہ سے ہائپوتھرمیا ہو جانے سے کچھ لوگوں کو طبی امداد کی ضرورت پڑی۔ فلائٹ اٹینڈنٹ ڈورین ویلش کی ٹانگ میں ایک دھاتی سلاخ کھب گیا تھا جس کی وجہ سے وہ اپنا فضائی کیرئیر جاری نہ رکھ سکیں۔
اگرچہ اس میں جانی نقصان نہں ہوا لیکن اس کی لمبی تفتیش ہوئی۔ یہاں تک کہ اس روز کے بڑے ہیرو کیپٹن سلی کے طرزِ عمل کو باریک بینی سے پرکھا گیا کہ آیا ان کا اس حالت میں لیا گیا یہ فیصلہ درست تھا؟ انہیں اگلی فلائٹ کی اجازت صرف اس وقت ملی جب یہ ثابت ہو گیا کہ اس صورتحال میں یہی فیصلہ مناسب تھا۔ جہاز، ایمرجنسی نظام اور ریگولیشنز کا تفصیلی جائزہ لیا گیا اور فیڈرل سیفٹی ریگولیٹرز نے 213 صفحات پر مشتمل تحقیقاتی رپورٹ 4 مئی 2010 کو جاری کی جس میں کئی ٹیکنیکل اور سیفٹی کی بہتری کی تجاویز تھیں۔ جہاز اور انجنوں کو کیسے پرندوں کے ٹکرانے سے بہتر طور پر محفوظ رکھا جا سکتا ہے۔ ایک اور سفارش ڈورین والش کے زخم کو دیکھ کر کی گئی تھی۔ ائیربس کو ڈئزاین کی تبدیلی کا کہا گیا تھا کہ چھوٹے جہازوں میں اس عمودی سلاخ کی پوزیشن تبدیل کی جائے تا کہ اس طریقے سے آئندہ کسی کے زخمی ہونے کا امکان کم ہو سکے۔ (یہ رپورٹ پبلک ہے اور کوئی بھی دیکھ سکتا ہے۔ رپورٹ کا لنک آخر میں)۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہڈسن کے معجزے پر فلمیں بنیں، کہانیاں لکھی گئیں۔ اس سے پچھلے دو برس کا ریکارڈ اس روز بھی نہیں ٹوٹا۔ اس جہاز پر سوار 155 افراد خوش قسمت رہے۔
لیکن کیا صرف قسمت اس روز ان کے زندہ رہنے کی وضاحت کے لئے کافی ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس پر تفصیل سے پڑھنے کے لئے
Fly by Wire: William Langewiesche
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...