کیا آپ نے سیاست پر کبھی گرما گرم بحث کی ہے؟ یا چلیں، کسی بھی موضوع پر کسی اور سے بات کرنے کا تجربہ تو ہوا ہی ہو گا۔ یقیناً، آپ اس بات سے واقف ہوں گے کہ دوسرا کس طرح منطق کو مروڑتا ہے، اپنی مرضی کے حقائق کا انتخاب کرتا ہے یا انہیں بھی تبدیل کرتا ہے اور اپنی پوزیشن کے ہر قیمت پر دفاع کے لئے کس طرح متعصب رویہ اپناتا ہے۔ اب اپنا کان قریب لائیں، ایک بات چپکے سے بتانی ہے۔ “آپ بھی یہی کرتے ہیں”۔
جولیا گیلف لکھتی ہیں، “کچھ انفارمیشن، کچھ خیالات ہمیں اپنے دوست لگتے ہیں۔ ہماری خواہش ہوتی ہے کہ وہ جیت جائیں۔ ہم ان کا دفاع کرنا چاہتے ہیں۔ دوسری انفارمیشن اور خیالات ہمارے دشمن ہوتے ہیں۔ ہم انہیں گولی مار دینا چاہتے ہیں”۔
نفسیات کی سٹڈیز بتاتی ہیں کہ کون کس بات کو کس طریقے سے قبول کرتا ہے، اس کا تعلق اس بارے میں پہلے قائم کردہ خیال کی مضبوطی سے ہے۔ زیادہ تر معاملات میں لوگ نئی انفارمیشن ملنے پر خود کو اپڈیٹ کر لیں گے۔ لیکن اگر ہمیں کسی چیز کے بارے میں اچھی انفارمیشن پہلے سے ہے تو نئی ملنے والی انفارمیشن پر ذہن تبدیل کرنے میں رفتار سست ہو گی۔ نئی انفارمیشن کو پرانی انفارمیشن کی روشنی میں پرکھا جائے گا۔
اور یہ بہت ہی مناسب طریقہ کار ہے۔ یہ بیزین (bayesian) اپروچ ہے اور یہی سائنسی اپروچ ہے۔ مثلاً، میرے اس یقین کو، کہ سورج نظامِ شمسی کا (تقریباً) مرکز ہے، تبدیل کرنے کے لئے بہت ہی باوثوق، بہت ہی ٹھوس بنیادوں پر بہت سی انفارمیشن کی ضرورت ہے جو اس ٹھوس سائنسی انفارمیشن کا مقابلہ کر سکے جس کی بنیاد پر میرا یہ یقین ہے۔ اس کے مقابلے میں اگر کوئی مجھے کسی فنکار کے بارے میں کوئی نئی بات بتا دے جو میں نے پہلے نہیں سنی تو میں اسے بہت جلد قبول کر لوں گا۔ یہی منطقی طریقہ ہے اور ہم اپنی روزمرہ زندگی ایسے ہی گزارتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جہاں یہ طریقہ مفید ہے، وہاں پر یہی ہمارے ذہنی جھکاوٗ اور تعصبات کی وجہ بھی ہے۔ اور یہ تعصبات معقول بات کر رد کرنے کے لئے بھی استعمال ہوتے ہیں۔ اور ایسا اسوقت نمایاں ہو جاتا ہے جب کسی یقین پر ہماری جذباتی سرمایہ کاری ہوئی ہو۔ کوئی چیز ہماری پہچان اور نظریے کا احساس دیتی ہو۔ ہم اس کی نظر سے دنیا کو دیکھتے ہوں۔ اس کو “مقدس گائے” والا علاقہ کہا جاتا ہے۔
ہم سب کے پاس کہانیاں ہیں جس سے ہم اس دنیا کو اور اس میں اپنی جگہ کو سمجھتے ہیں۔ اپنے گروہوں میں ان سے اپنی ممبرشپ بناتے ہیں۔ یہ ہماری بنیادی ضرورت میں سے ہیں۔ جب ان پر کسی بھی طرح کی زد پہنچنے کا خدشہ بھی ہو تو پھر جذبات منطق پر غالب آ جاتے ہیں۔ ہم اپنی جگہ پر پکے ہو جاتے ہیں۔ یہ جذباتی استدلال کی وجہ ہے۔ اور یہ وجہ ہے کہ آپ سے مختلف نظریات رکھنے والے ہمیشہ ہی اتنے نامعقول ہوتے ہیں۔
اپنے خیال کا ہر قیمت پر دفاع، منطق کو تہس نہس کرنا، ایسے حقائق کا رد جو اچھے نہ لگیں، ایسے حقائق کی تخلیق جن کی ضرورت پڑے، صرف ان حقائق کا انتخاب جو اچھے لگیں۔ (خیالات میں ربط کی عدم موجودگی اس کی بڑی پہچان ہو گی)۔ یہ وہ طریقہ ہے جس میں انسان بہت مہارت رکھتے ہیں۔
ایسا کیا کیوں جاتا ہے؟ اسکی وجہ لیون فیسٹنگر نے 1957 میں پیش کی۔ یہ نفسیاتی خلش کی وجہ سے ہے جس کی وجہ انفارمیشن کا تضاد ہے۔ اگر ایک چیز پر میرا یقین ہے اور ملنے والی نئی انفارمیشن اس کے متضاد ملی ہے تو دو میں سے ایک چیز درست نہیں۔ یا تو میرا یقین یا پھر نئی انفارمیشن۔ متضاد چیزوں کو بیک وقت سنبھالنا ہر ایک کے لئے آسان نہیں۔ اگر یہ تضاد ایک یا دوسری طرف حل نا ہو تو پھر ہمیں کسی ایک کو رد کرنا پڑے گا۔ اور اگر یہ یقین مضبوط ہو؟ تو پھر اس کو بدلنے کا مطلب ایک بڑے چین ری ایکشن کو شروع کرنا ہے۔
مثال: مجھے کسی کی دیانتداری پر پورا بھروسہ ہے اور مجھے انفارمیشن ملتی ہے کہ اس نے فراڈ کیا ہے۔ دونوں باتیں بیک وقت درست نہیں ہو سکتیں۔ اگر یہ نئی انفارمیشن درست ہے تو مجھے یقین بدلنا پڑے گا۔ لیکن اگر اس کے ساتھ جذباتی وابستگی ہوئی تو پھر یقین بدلنے کا مطلب بہت کچھ بدلنا ہو سکتا ہے۔
دوسری طرف ضروری نہیں کہ یہ انفارمیشن درست ہو۔ لیکن میری پوری خواہش ہو گی کہ یہ غلط نکلے۔ اس انفارمیشن کو پرکھتے وقت اس میں کمزوریاں تلاش کرنے میں میں کتنا وقت لگاوٗں گا؟ اس کا تعلق اس سے ہے کہ جذباتی وابستگی کتنی مضبوط ہے۔
جذباتی لحاظ سے آسان ہے کہ میں نئی انفارمیشن کو دیکھتے ہی رد کر دوں، ذرائع کو چیلنج کروں، اس فراڈ کی توجیہہ کروں یا پھر اس خبر کو سازش قرار دوں۔
ایسی باقاعدہ تحریکیں، تنظیمیں، گروپس ہیں جو جذباتی استدلال پیکج کر کے پیش کرتے ہیں۔ گلوبل وارمنگ ہو، خواتین کے حقوق، ویکسین ہوں یا حتیٰ کہ زمین کی گولائی۔ اس پر پہلے سے پیکج شدہ استدلال مل جائیں گے۔ جس میں زمین گرم نہیں ہو رہی ہو گی، خواتین کے لئے ہر طرف چین ہو گا، ویکسین سے آبادی کنٹرول ہوتی ہو گی اور زمین بے چاری بھی سیدھی سادھی ہو گی۔ واضح حقائق تک کا رد کرنے والے گروہ ہمیں خود کو سمجھنے کے لئے بھی ایک ذریعہ فراہم کرتے ہیں۔
جذباتی استدلال کو فائدہ اس سے ہوتا ہے کہ زیادہ تر انفارمیشن سبجیکٹو ہوتی ہے۔ کوئی سٹڈی پرفیکٹ نہیں ہوتی۔ کوئی ذریعہ ایسا نہیں جس کی تردید نہ کی جا سکے۔ لوگ غلطیاں کرتے ہیں۔ کئی الگ ذرائع سے ملنے والی انفارمیشن مختلف ہو سکتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فیکٹ سے نتیجہ نکالنے کے کئی طریقے ہو سکتے ہیں، خواہ فیکٹ کے بارے میں کوئی جھگڑا نہ ہو۔ اگر کوئی امیر ہے تو آپ نتیجہ نکال سکتے ہیں (اگر آپ اسے پسند کرتے ہیں) کہ وہ ہوشیار اور کامیاب ہے یا یہ نتیجہ نکال سکتے ہیں (اگر آپ اسے ناپسند کرتے ہیں) کہ وہ لالچی اور کرپٹ ہے۔ کوئی شخص بہادر ہے یا بے وقوف، کوئی ہٹ دھرم ہے یا مستقل مزاج، مضبوط لیڈر ہے یا جابر۔ ایک ہی فیکٹ سے نتیجہ الگ نکال لینا مشکل نہیں۔
سیاست میں ہونے والے جھگڑے کیوں گرما گرم ہوتے ہیں؟ کیونکہ بہت سی آراء “مقدس گائے” والی کیٹگری میں آتی ہیں۔ لوگ سیاسی قبیلے سے اپنی شناخت رکھتے ہیں اور یقین کرنا چاہتے ہیں کہ ان کا قبیلہ نیک ہے اور سمارٹ ہے جبکہ دوسرے قبیلہ میں جھوٹے، مکار اور احمق ہیں۔
ظاہر ہے کہ یہ آن اور آف کے سوئچ نہیں، ایک سپیکٹرم پر ہوتا ہے۔ کچھ لوگ جذبات میں زیادہ شدت رکھتے ہیں۔ آپ اپنے سیاسی خیالات میں صرف تھوڑا سا جھکاوٗ رکھ سکتے ہیں یا یقین کی شدت ہو سکتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ جھکاوٗ خود ہماری رائے بنانے کے کام بھی آتے ہیں۔ ایک سیاسی معاملے پر آپ کیا رائے قائم کرتے ہیں؟ اس کا بہت تعلق اس سے ہے کہ اس پر آپ کی پسندیدہ پارٹی یا لیڈر نے کیا رائے بنائی ہے۔ اپنے گروہ کے خیالات سے اپنے خیالات کا ہم آہنگ ہونا ہمیں سکون کا احساس دیتا ہے۔ (یہ جوناس کیپلان کی 2016 میں کی گی سٹڈی کی نتائج ہیں)۔ ذہن خیالات کی ایکوریسی میں بہت دلچسپی نہیں رکھتا۔
کیا ہم اپنی نظریاتی یقین اور جذبات کو الگ رکھ سکتے ہیں؟ سٹڈیز بتاتی ہیں کہ کہنا آسان ہے، کرنا نہیں۔ لیکن اگر آپ کوشش کریں کہ اس نئی انفارمیشن کو، جو خیالات سے ہم آہنگ ہو، زیادہ تنقیدی نگاہ سے دیکھ سکیں اور اس نئی انفارمیشن کو، جو خیالات سے ٹکراتی ہو، تھوڑا سا شک کا فائدہ دے سکیں تو دنیا کو سمجھنے کی صلاحیت بہت بڑھ سکتی ہے۔ اس کے لئے شعوری پریکٹس کی اور چوکنا رہنے کی ضرورت ہے۔ پھر وقت کے ساتھ یہ آسان ہوتا جاتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہاں پر اپنے آپ کو یاد کروانے کے لئے ایک اور بہت ہی اہم نکتہ ہے۔ وہ لوگ جو ہم سے اختلاف رکھتے ہیں، وہ بھی ہماری طرح کے انسان ہی ہیں۔ کوئی عفریت نہیں۔ ان کا جو بھی یقین ہے، اس کی اپنی وجوہات ہیں۔ جتنا آپ اپنے آپ کو درست سمجھ رہے ہیں، اتنا ہی وہ بھی۔ وہ ہم سے اس لئے غیرمتفق نہیں کہ ہم نیک ہیں اور وہ بد۔ ان کی اس دنیا کے بارے میں کہانی فرق ہے۔
اور نہیں، اس کا یہ مطلب بالکل بھی نہیں کہ ہر قسم کا نکتہ نظر برابر وزن رکھتا ہے۔ صرف یہ کہ اس کی کوشش کرنی چاہیے کہ منطق اور شواہد کو ملحوظِ خاطر رکھا جائے نہ کہ اپنی اخلاقی برتری کے گمان کو۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...