صدیوں سے آباد ملٹس کی آبادی ایک لاکھ تک پہنچ چکی تھی۔ یہ شہر دولت اور امارت کا مرکز تھا اور آئیونیا کے شہروں میں سب سے زیادہ خوشحال۔ ایجین سے ملٹس کے لوگ مچھلیاں اور سمندری خوراک حاصل کرتے۔ زرخیز مٹی سے جو اور انجیر حاصل کرتے۔ باغوں سے زیتون جس کو کھانے کے علاوہ اس سے تیل مل جایا کرتا۔ زیتون کا تیل پکانے کے لئے، ایندھن کے طور پر اور جسم پر لگانے کے لئے استعمال ہوتا۔ سمندر کے قریب ہونے کی وجہ سے یہ تجارت کا اہم مرکز بن گیا۔ السی، لکڑی، لوہا اور چاندی درجنوں کالونیوں سے آتیں جو ملٹس کے شہریوں نے قائم کر لی تھیں اور مصر تک پھیلی تھیں۔ ہنرمند برتن، فرنیچر اور نفیس اون بناتے جو تجارت کے لئے بھیجی جاتی۔
لیکن ملٹس صرف اشیا کے تبادلے کی جگہ نہیں تھی۔ خیالات کے تبادلے کا مرکز بھی تھا۔ شہر میں درجنوں کلچرز کے لوگوں کی ملاقاتیں اور بات چیت ہوا کرتی تھی۔ شہری دور دراز کے سفر بھی کیا کرتے تھے اور مختلف زبانوں اور کلچرز سے واقف تھے۔ اور جس طرح مچھلی کی قیمت پر سودا بازی ہوا کرتی، ساتھ ہی روایتیں روایتوں سے ملتیں۔ کہانیاں کہانیوں سے۔ اور اس سے فکر کی آزادی اور وسعت، جدت کا کلچر وجود میں آیا۔ سوال کرنے کا کلچر۔ ملٹس کی دولت نے آسائش پیدا کی۔ آسائش کے ساتھ وقت جس میں اپنے وجود اور کائنات کے بارے میں فکر کی جا سکتی ہے۔ موافق حالات کے سبب ملٹس ایک کاسموپولیٹن سکالرشپ کا مرکز بن گیا۔ جس میں تمام فیکٹر موجود تھے جو فکر کا انقلاب لا سکیں اور اس ماحول نے انقلابی مفکر پیدا کئے، جو اپنے وقت کے ابنِ رشد، کاپرنیکس یا گلیلیو تھے۔ یہ فلسفے اور سائنس کے بانیوں میں سے تھے۔
ارسطو کے مطابق ان میں سے ایک شخص طالیس تھا جس کی پیدائش 624 قبلِ مسیح میں ہوئی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ زیادہ تر یونانی فلسفی غربت کی زندگی گزارتے تھے۔ (سڑک کنارے زیتون بیچنا زیادہ خوشحال بنا سکتا ہے اور آج بھی ایسا ہی ہے)۔ لیکن طالیس ایک استثنا تھے۔ ایک چالاک اور امیر تاجر تھے جو تجارت کا فن بھی اچھا جانتے تھے اور شہر کی سیاست کا بھی حصہ تھے اور شہر کے حکمران تھراسبلس سے بھی اچھے مراسم تھے۔
طالیس نے اپنی دولت سفر کرنے کے لئے استعمال کی۔ انہیں معلوم ہوا کہ اگرچہ مصریوں کے پاس پیرامڈ بنانے کا فن تو ہے لیکن اونچائی معلوم کرنے کا طریقہ نہیں۔ انہوں نے ریاضی کے بڑے پیچیدہ اصول بنا لئے تھے جو زمین کا رقبہ معلوم کر سکتے تھے جو انہیں ٹیکس لگانے کے لئے درکار تھے۔ طالیس نے جیومیٹری کی ان مصری تکنیک کو آگے بڑھاتے ہوئے اونچائی معلوم کرنے کا طریقہ نکالا اور پھر اسی طریقے سے وہ سمندر میں بحری جہازوں کا فاصلہ ناپ سکتے تھے۔ اور اس نے انہیں قدیم مصر میں مشہور کر دیا۔
جب طالیس واپس یونان آئے تو مصر کی ریاضی بھی ساتھ لائے۔ اور اس کا ترجمہ یونانی زبان میں کیا۔ طالیس کے لئے جیومیٹری صرف پیمائش اور کیلکولیشن کا ٹول ہی نہیں تھا۔ یہ منطق سے جڑی تھیورم کی کولیکشن تھی۔ انہوں نے پہلی بار جیومیٹری کے سچ ثابت کئے۔ اس سے پہلے نتیجے کو بیان کر دینے کو کافی سمجھا جاتا تھا۔ بعد میں آنے والی عظیم جیومیٹر اقلیدس نے اپنی کتاب “عناصر” میں طالیس کے تھیورم بھی شامل کئے ہیں۔ اگرچہ ریاضی میں ان کا کام متاثر کن ہے لیکن ان کی اصل شہرت فزیکل دنیا کی وضاحت سے ہے۔
طالیس کی نظر میں نیچر کو اساطیر سے نہیں بلکہ اصولوں کے ذریعے بیان کیا جا سکتا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے گرہن کی وجہ سمجھی اور پہلے یونانی تھے جنہوں نے کہا کہ چاند کی روشنی دراصل منعکس ہونے والی سورج کی روشنی ہے۔
اور جب وہ غلط بھی تھے تو ان کی سوچ بہت غیرروایتی اور اوریجنل تھی۔ اس وقت کی سوچ کے مطابق زلزلہ اس لئے آتا تھا کہ پوزائیڈن غضبناک ہو اور اپنا عصا زمین پر مارے۔ طالیس کا خیال تھا کہ ایسا نہیں ہوتا، اس کی کوئی نیچرل وجہ ہونی چاہیے۔ انہوں نے خیال پیش کیا کہ زمین ایک نصف کرہ ہے جو لامحدود پانی میں تیر رہا ہے اور زلزلہ اس وقت آتا ہے جب پانی میں کوئی لہر بنتی ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ وضاحت بالکل غلط تھی لیکن زلزلے کو فطری پراسس کے طور پر بیان کرنے کی ایک کوشش تھی جس کے لئے انہوں نے ایمپیریکل اور لاجیکل دلائل دئے۔ اور سب سے اہم چیز یہ تھی کہ انہوں نے اس سوال پر فوکس کیا کہ “زلزلے آخر کیوں آتے ہیں؟”۔
شاعر رینر ماریا رلکے نے 1903 میں اپنے طلباء کو نصیحت کی جو شاعری اور سائنس، دونوں کے لئے قابلِ عمل ہے۔ “جو دل میں ہے اور حل نہیں ہوا، اس پر صبر کرو، جواب کی جلدی کے بجائے سوال سے محبت کرو”۔ سائنس ہو یا بزنس، ان میں سب سے بڑی مہارت ٹھیک سوال پوچھنا ہے۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ طالیس نے سائنسی سوال پوچھنے کا طریقہ ایجاد کیا۔ وہ جہاں دیکھتے تھے، انہیں فینامینا نظر آتے تھے جو وضاحت طلب تھے اور ان کے وجدان نے انہیں اس پر سوچ بچار کرنے پر مجبور کیا اور ان سوالوں پر ڈالی جانے والی روشنی نے نیچر کے کام کرنے کے بنیادی طریقے آشکار کئے۔ صرف زلزلے نہیں، زمین کا سائز کتنا ہے؟ اس کی شکل کیسی ہے؟ زمین، چاند اور سورج کا رشتہ کیا ہے۔ دن رات کی لمبائی میں فرق کیوں آتا رہتا ہے۔ وہی سوال جو دو ہزار سال بعد نیوٹن کو گریویٹی کی عظیم دریافت اور حرکت کے قوانین تک لے گئے۔
ارسطو اور آئیونیا کے دوسرے مفکرین نے طالیس کو پہلا فزیکوئی کہا ہے۔ فزسس یونانی میں نیچر کو کہا جاتا تھا۔ جو لوگ نیچرل چیزوں کی وضاحت ڈھونڈتے تھے، ارسطو نے انہیں فزیکوئی کہا ہے۔ (آج اس شعبے کو فزکس اور اس میں کام کرنے والوں کو فزسٹ کہا جاتا ہے)۔
ایک اور ریڈیکل گروپ جس کے بارے میں ارسطو کچھ زیادہ اچھا خیال نہیں رکھتے تھے، وہ تھا جو ریاضی کی مدد سے نیچر کو ماڈل کرتا تھا۔ اور اس جدت کے لئے ہمیں طالیس سے چند جنریشن بعد ایجین کے جزیرے ساموس جانا ہو گا۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...