اپریل 2010 میں آئس لینڈ میں آتش فشاں پھٹنے کی وجہ سے چند روز کے لئے اس فضائی روٹ پر پروازیں معطل ہو گئیں۔ اس تعطل نے یہ واضح کیا کہ جدید دنیا کا ہوائی جہاز پر کتنا زیادہ انحصار ہے۔ نہ صرف روزانہ ایک کروڑ لوگ جہاز پر سفر کرتے ہیں بلکہ صرف اس فضائی روٹ کی عارضی معطلی نے عالمی معیشت کی آوٹ پُٹ میں پانچ ارب ڈالر کمی کر دی۔
ہوائی سفر کے لئے کئی ایجادات کی ضرورت تھی۔ جیٹ انجن، ہوائی جہاز وغیرہ کی ہی نہیں بلکہ سفر ممکن اور محفوظ بنانے کے لئے کئی دوسری ایجادات کی۔ اور اس میں سے ایک کی کہانی “موت کی شعاع” (death ray) سے شروع ہوتی ہے۔
نہیں، اس سے نہیں بلکہ اس کو ایجاد کرنے کی کوشش سے۔ یہ 1935 تھا۔ برٹش فضائیہ کو عسکری ٹیکنالوجی میں جرمنی سے پیچھے رہ جانے پر فکر تھی۔ اور موت کی شعاع کا آئیڈیا ان کے لئے دلچسپ تھا۔ جو بھی ایک سو قدم دور ایک بھیڑ کو مار کر دکھا دے، اس کے لئے ایک ہزار پاونڈ کے انعام کا اعلان کیا گیا۔ (یہ انعام آج تک کوئی نہیں جیتا)۔ فضائیہ نے ریڈیو ریسرچ سٹیشن کے رابرٹ واٹ کو کہا اور انہوں نے اپنے ساتھی سکپ ولکنز کے سامنے ایک سوال رکھا۔
فرض کیجئے کہ آپ کے پاس چار لٹر پانی زمین سے ایک کلومیٹر اوپر ہے اور اس کا درجہ حرارت 37 ڈگری ہے اور اس کو 41 ڈگری تک گرم کرنا ہے۔ پانچ کلومیٹر دور سے ریڈیو فریکونسی کی کتنی پاور درکار ہو گی کہ ایسا کیا جا سکے؟
سکپ ولکنز بے وقوف نہیں تھے۔ سمجھ گئے کہ چار لٹر خون انسانی جسم میں 37 ڈگری پر ہوتا ہے اور اگر اسے اتنا گرم کیا جا سکے تو پائلٹ کو ہوا میں مارا جا سکتا ہے۔
اس سوال کے نکالے گئے جواب سے یہ تو پتا لگ گیا کہ یہ ناممکن ہے لیکن اسی دوران انہیں ایک موقع نظر آیا۔ فضائیہ کے پاس تحقیق پر کام کرنے کا بجٹ تھا اور اس کے استعمال سے ایک متبادل مسئلہ حل کیا جا سکتا تھا۔
ولکنز نے جو غور کیا تھا، وہ اس بات پر تھا کہ اگر ریڈیو ویوز کو پھینک کر ان کی گونج سنی جا سکے تو اس سے آنے والے ہوائی جہاز کی جگہ کا اس کو دیکھے جانے سے کہیں پہلے پتا لگایا جا سکے گا۔ واٹسن واٹس نے یہ آئیڈیا پیش کیا۔ فضائیہ کو اس میں بہت دلچسپی تھی۔
سکپ ولکنز نے جو تجویز کیا تھا یہ ریڈار تھا۔ جرمن، جاپانی اور امریکی اس پر الگ کام کرتے رہے تھے لیکن 1940 میں اس پر کامیابی برطانویوں کو ہوئی تھی۔ یہ ریزوننٹ کیویٹی میگنیٹرون (resonant cavity magnetron) تھا۔ ریڈار ٹرانسمٹر جو اپنے پہلے آنے والوں سے بہت طاقتور تھا۔ لیکن برطانیہ کو ایک مسئلہ تھا۔
جرمن طیاروں کی بمباری برٹش فیکٹریاں تباہ کر دیتی تھی۔ اس صورت میں اس نئی ڈیوائس کی پروڈکشن کی نئی سہولت کو سیٹ کرنا ممکن نہیں ہو پا رہا تھا۔ یہ کام امریکہ کی فیکٹریوں میں ہو سکتا تھا۔
اس پر امریکہ کے ساتھ مذاکرات ہوتے رہے کہ اس کے بدلے امریکہ سے کیا حاصل کیا جائے۔ لیکن برطانیہ کی حالت اتنی بری ہو گئی کہ بالآخر چرچل نے نئی حکمتِ عملی اپنائی۔ انہوں نے امریکہ کو صاف بتا دیا کہ ان کے پاس یہ ہے اور وہ مدد کریں۔
اگست 1940 میں ویلز کے فزسسٹ ایڈی براون سیاہ دھات کا بڑا سا صندوق لے کر لندن میں ٹیکسی میں بیٹھے۔ صندوق چھت پر رکھوایا۔ اس میں درجن بھر میگنیٹرون تھے۔ اس کے بعد ٹرین پکڑ کر لیورپول پہنچے۔ یہاں سے بحری جہاز لیا۔ کیا جرمن یو بوٹ اس کو غرق کر دیں گی؟ کیا اس صورت میں یہ میگنیٹرون جرمنوں کے ہاتھ لگ جائیں گے؟ اس سے بچنے کے لئے صندوق میں سوراخ کئے گئے تھے کہ یہ سمندر کی تہہ میں غرق ہو جائے۔ لیکن ایسا نہیں ہوا اور جہاز امریکہ پہنچ گیا۔
اس نے امریکیوں کو حیران کر دیا۔ وہ اس تحقیق میں برسوں پیچھے تھے۔ ایم آئی ٹی میں نئی لیبارٹری بنانے کی فنڈنگ ملی۔ صنعتکار اس میں کام کرنے کیلئے شریک ہوئے۔
یہ لیبارٹری بے حد کامیاب رہی۔ اس میں تحقیق کرنے والے دس لوگوں کے کام کو نوبل انعام ملا۔ اسی میں ریڈار ڈویلپ ہوا جس سے ہوائی جہازوں اور آبدوزوں کو ٹھیک ٹھیک ٹریک کیا جا سکتا تھا۔ اس نے جنگ میں بہت مدد کی۔ 1945 میں جنگ بند ہو گئی۔ جنگ ختم ہونے کے ساتھ اس پر کام بھی ڈھیلا پڑ گیا۔
آسمان میں مسافر ہوائی جہازوں کی تعداد بڑھتی گئی۔ ریڈار ان میں حادثات روکنے میں کام آ سکتا تھا لیکن یہ بہت سست رفتار رہا۔ چند ائیرپورٹس پر یہ نصب ہو گیا۔ زیادہ تر پر نہیں۔ پائلٹ پہلے سے بتا دیتے تھے کہ ان کی فلائٹ کا راستہ کیا ہو گا جس سے دیکھا جاتا تھا کہ یہ کسی اور کا تو نہیں۔ اور ہوا میں تصادم روکنے کا پروٹوکول بس یہی تھا کہ “دیکھو اور خود کو دکھاوٗ”۔
تیس جون 1956 کو لاس اینجلس ائیرپورٹ سے دو مسافر جہازوں نے تین منٹ کے وقفے کے ساتھ پرواز کی۔ ایک نے شکاگو جانا تھا، ایک نے کینساس۔ دونوں کا راستہ گرینڈ کینائیون پر ایک ہی تھا۔ صرف بلندی کا فرق تھا۔ طوفانی بادل آ گئے۔ ایک پائلٹ نے بلندی تبدیل کرنے کے لئے اجازت لینے کے لئے ریڈیو کیا۔ انہیں طوفان سے ایک ہزار فٹ اوپر جانے کی اجازت مل گئی۔۔۔۔
کسی کو ٹھیک معلوم نہیں کہ کیا ہوا۔ اس وقت جہازوں میں بلیک باکس بھی نہیں ہوا کرتے تھے اور اس روز ان دونوں جہازوں میں سے کوئی زندہ بھی نہیں بچا تھا۔ میلوں دور تک بکھرے ملبے سے یہی اندازہ لگا جا سکا کہ جب یہ دونوں ایک دوسرے سے ٹکرائے تو ان کا زاویہ پچیس ڈگری ہو گا۔ مرنے والوں کی تعداد ایک سو اٹھائیس تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حادثات ہوتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ہم کتنا خطرہ مول لینے کے لئے تیار ہیں۔ اس حادثے نے جلد ایکشن پر مجبور کر دیا۔ اگر ٹیکنالوجی موجود ہے تو کیوں نہ اس سے فائدہ اٹھایا جائے۔ اس سے دو سال کے اندر اندر فضائی حفاظت کے قوانین بننے لگے۔ دنیا میں ریڈار نصب ہونے لگے۔ آج دنیا میں فضائی ٹریفک اس وقت کی نسبت بہت ہی زیادہ ہے۔ بڑے ایئرپورٹس پر جہازوں کا اڑنا اور اترنا ہر تیس سیکنڈ کے بعد ہو رہا ہوتا ہے۔ لیکن فضائی تصادم انتہائی نایاب ہیں، خواہ جو بھی موسمی حالات ہوں۔ ان کے پیچھے کئی فیکٹر ہیں لیکن ان میں سے سب سے بڑا ریڈار ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فضا میں حادثات کے بچاوٗ کا سوال آج پھر سر اٹھا رہا ہے۔ مصروف آسمان میں بغیر پائلٹ کے جہازوں کی بھی آمد ہے۔ یہ ڈرون فلم بندی سے لے کر فصلوں پر سپرے تک بہت سے کاموں کے لئے استعمال کئے جا رہے ہیں۔ ایمیزون جیسے کمپنیوں کا خیال ہے کہ ان کی مدد سے لوگوں کے گھروں تک سامان پہنچانے میں بھی مدد لی جا سکے گی۔ ڈرونز میں سینسر کی مدد سے بچنے کی ٹیکنالوجی موجود ہے اور یہ بہت اچھی ہے۔ لیکن کیا یہ کافی ہے؟ کیا محفوظ فضائی سفر کے لئے نئی جدتیں درکار ہوں گی؟
نئی جدتیں، نئی ضروریات، نئی ٹیکنالوجیز، یہ سب ساتھ ساتھ چلتا ہے۔ موت کی شعاع کی تلاش میں بننے والا ریڈار فضائی سفر محفوظ کرنے اور زندگیاں بچانے کے لئے اہم آلہ ہے۔