مارکو پولو نے 750 سال پہلے اپنی کتاب “دنیا کے عجائب” میں چین کے سفر کے بارے میں لکھا ہے۔ اس میں بہت سی چیزیں لکھی گئیں جو مارکوپولو کو غیرمعمولی لگیں لیکن ایک تو اتنی زیادہ کہ نوجوان مارکو کے لئے اس پر یقین کرنا مشکل تھا۔ “میں اسے جیسے بھی بیان کر دوں، آپ اسے سچ نہیں سمجھیں گے۔ یہ بات عقل میں آتی ہی نہیں”۔
مارکو پہلے یورپی تھے جنہوں نے اس ایجاد کا مشاہدہ کیا تھا جس پر آج کاروبارِ دنیا چلتا ہے۔ یہ کاغذ کے نوٹ تھے۔
یا پھر شاید نہیں۔ آج کی کرنسی کاغذ کی نہیں، کپاس کے ریشوں یا لچکدار پلاسٹک سے بنتی ہے۔ اور جس چینی کرنسی نے مارکو پولو کو ششدر کر دیا تھا، وہ بھی کاغذ نہیں بلکہ شہتوت کی چھال کی سیاہ شیٹ تھی جس پر کئی سرکاری اہلکاروں کے دستخط ہوتے تھے اور اس پر چمکدار سرخ مہر تھی، جو چینی بادشاہ چنگیز خان کی اجازت سے تھی۔ مارکو پولو کی کتاب کے اس باب کا عنوان ہے، “خانِ اعظم نے درخت کی چھال کو پوری ملک کی کرنسی کیسے بنا دیا”۔
لیکن اصل نکتہ یہ نہیں۔ یہ نوٹ جس سے بھی بنے تھے، ان کی قدر اس میٹیریل سے نہیں تھی، جیسے سونے یا چاندی کے سکوں کی ہوا کرتی تھی۔ اس کی قدر حکومت کے فرمان سے تھی۔ کاغذ کی کرنسی کو فئیٹ کرنسی کہا جاتا ہے۔ فئیٹ کے معنی لاطینی میں “ہو جا” کے ہیں۔ چنگیز خان نے اعلان کیا تھا کہ شہتوت کی چھال جس پر سرکاری مہر ہو گی، اب کرنسی کا کام کرے گی۔ اور ان کے کہنے سے یہ “ہو گیا” تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس سسٹم کے جینئیس نے مارکو پولو کو حیران کر دیا تھا۔ یہ کرنسی زیرِ گردش ایسے تھی جیسے سونا یا چاندی ہو۔ لیکن سونا جو گردش نہیں کر رہا تھا، وہ کہاں تھا؟ وہ بادشاہ کے پاس تھا۔
مارکو پولو نے یہ کرنسی پہلی بار دیکھی تھی لیکن یہ نیا نہیں تھا۔ چین میں سیچوان میں یہ تین صدیوں پہلے شروع ہوئی تھی۔ سیچوان سرحدی صوبہ تھا اور حملہ آوروں کے نشانے پر رہتا تھا۔ چینی حکام کو یہاں سے سونا اور چاندی دوسرے علاقوں میں چلے جانا پسند نہیں تھا۔ اس لئے انہوں نے سیچوان کو لوہے کے سکے جاری کرنے کا کہا۔
لوہے کے سکے عملی نہیں تھے۔ لوہا سستا تھا۔ دو چاندی کے سکوں کے عوض اتنا لوہا آ جاتا تھا جو کسی شخص کا وزن ہے۔ (نمک کی کرنسی بھی اس سے ہلکی ہوتی)۔ اور بازار سودا لینے جانے کے لئے اس سے زیادہ لوہا ساتھ اٹھا کر لے جانا پڑتا جتنا وزن اس سودے کا تھا۔ اور اس میں کوئی حیرت کی بات نہیں تھی کہ متبادل طریقے آنے لگے۔
ان میں سے ایک متبادل جیاوزی تھا۔ لوہے کے سکوں کی ویگن لاد کر دینے کے بجائے ایک مشہور اور قابلِ اعتبار تاجر ایک وعدہ لکھ دیتا کہ وہ ادائیگی کر دے گا۔
اور پھر ایک غیرمتوقع چیز ہونے لگی۔ یہ جیاوزی خود تبادلے کا طریقہ بننے لگے۔
فرض کیجئے، میں نے ایک اچھی شہرت کے حامل ژانگ صاحب کو کچھ بیچا ہے اور انہوں نے اس کے بدلے جیاوزی دے دئے ہیں۔ میں آپ کی دکان پر آتا ہوں تو لوہے کے سکے دینا مشکل ہے۔ یا تو میں خود آپ کو اپنی طرف سے ایک جیاوزی لکھ دوں گا۔ یا پھر اگر ژانگ صاحب کی شہرت اچھی ہے تو ان کا لکھا جیاوزی آپ کو دے دوں گا۔ ہم دونوں جانتے ہیں کہ ژانگ اپنے لکھے جیاوزی کی پاسداری کریں گے۔
میں نے، آپ نے اور ژانگ صاحب نے ابتدائی کاغذی کرنسی تخلیق کر لی ہے۔ یہ وعدہ اب ایک سے دوسرے شخص کے پاس گھوم پھر سکتا ہے۔
وعدوں کے تبادلے کا یہ نظام ژانگ صاحب کے لئے بہترین خبر ہو گی کیونکہ انہیں کبھی بھی لوہے کے سکے اپنے پاس رکھنے کی ضرورت نہیں۔ وہ کبھی بھی کاغذ لکھ کر کرنسی تخلیق کر سکتے تھے۔
چینی حکومت نے پہلے جیاوزی کو جاری کرنے ریگولیشن کی۔ قوانین بنائے گئے کہ ان کی شکل و صورت کیا ہو گی۔ پھر وقت کے ساتھ ساتھ نجی جیاوزی ممنوع قرار پائے اور یہ سب چینی حکومت کے پاس آ گیا۔ سرکاری جیاوزی بہت ہی کامیاب ہوئے۔ یہ ایک علاقے سے دوسرے میں جانے لگے۔ ان کی بنیاد پر تجارت ہونے لگی۔ پھر یہ بین الاقوامی تجارت میں بھی استعمال ہونے کی کرنسی بن گئی۔ سونے اور چاندی کے سکوں کو اس نے بے کار کر دیا۔ کیونکہ ان کا اٹھایا جانا بہت سہل تھا۔
ابتدا کی کرنسی میں حکومت کے جاری کردہ جیاوزی کے عوض سکے لئے جا سکتے تھے۔ ویسے ہی جیسے نجی جیاوزی کے عوض۔ یہ سسٹم کاغذ کے وعدے کو اصل سے تبادلے کا نظام تھا۔ پھر یہ آہستہ آہستہ فئیٹ سسٹم پر منتقل ہو گیا۔ آپ پرانا جیاوزی لے کر حکومت کے پاس آئیں۔ اس کو قبول کر لیا جائے گا اور اس کے عوض میں آپ کو ایک نیا کڑکتا ہوا جیاوزی مل جائے گا۔
چین اس جدت میں دنیا بھر سے آگے تھا۔ یہ بہت ماڈرن قدم تھا۔ آج مرکزی بینک جو کرنسی جاری کرتے ہیں، وہ یہی ہے۔ اس میں حکومت کا وعدہ صرف یہی ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ پرانے نوٹ کے عوض نیا نوٹ جاری کر دے گی۔ اور ہم کرنسی کی اس صورت تک پہنچ گئے جس میں کرنسی حکومت کی طرف سے ایک وعدہ ہے اور یہ وعدہ کسی بھی چیز کا نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حکومتوں کے لئے فئیٹ منی ایک لالچ بھی تھا۔ حکومت اپنی ادائیگیاں نئی کرنسی جاری کرنے سے کر سکتی ہے۔ اور اگر وہ ایسا زیادہ کر دے تو اس کا نتیجہ ہر چیز کی قیمت اوپر جانے کی صورت میں نکلتا ہے۔ لیکن یہ لالچ کئی بار روکنا مشکل ہو جاتا ہے۔ اپنے جاری ہونے کے بعد سرکاری جیاوزی چلتا رہا۔ گیارہویں صدی کی ابتدا میں یہ ڈی ویلیو ہو کر اپنی اصل قیمت کا دس فیصد رہ چکا تھا۔
اس کے ساتھ اس سے زیادہ برا ہو چکا ہے۔ ویمار کا جرمنی اور زمبابوے اس کی بدترین مثالیں ہیں جہاں پر سرکار کو کرنسی جاری کرنے کی لگ جانے والی لت نے کرنسی کو بالکل بے وقعت کر کے معیشت تباہ کر دی تھی۔ ہنگری میں 1946 میں قیمتیں ہر روز تین گنا بڑھتی تھیں۔ اگر آپ اس وقت بڈاپسٹ کے کسی قہوہ خانے چلے جاتے تو بہتر تھا کہ ادائیگی پہلے کر دیں۔ کیونکہ قہوے کا آرڈر کرنے اور اس کو پینے کے بعد تک اس کی قیمت شاید بدل چکی ہوتی۔
ایسے واقعات نایاب اور خوفناک ہیں۔ ان کی وجہ سے کچھ ریڈیکل ایسا سمجھتے ہیں کہ فئیٹ منی کبھی مستحکم نہیں ہو سکتی۔ اور گولڈ سٹینڈرڈ ہی ٹھیک ہے۔ جب کاغذ کے پیچھے سونا ہوا کرتا تھا۔ لیکن اکانومسٹ اب اتفاق کرتے ہیں کہ سونے کے ساتھ کرنسی منسلک کر دینا انتہائی برا آئیڈیا ہے۔ ایسا ضرور ہے کہ ہم اپنے مرکزی بینک پر مکمل بھروسہ نہیں کر سکتے کہ وہ نئی کرنسی ٹھیک مقدار میں جاری کرے گا لیکن یہ بھروسہ کرنا کہ کان کن دنیا کی مانگ کے حساب سے بالکل ٹھیک مقدار میں نیا سونا نکال سکیں گے؟ نہیں، ایسا نہیں ہوتا۔ مرکزی بینک کا ڈسپلن رکھنا ہی موثر حل ہے۔
پرنٹنگ پریس کی مدد سے کرنسی جاری کر کے بحرانوں سے نکلنا بہت مفید رہا ہے۔ 2007 کے عالمی مالیاتی بحران میں ایسا کامیابی سے کیا گیا۔ اور یہاں پر پرنٹنگ پریس محاوراتی ہے۔ نئے پیسے کی تخلیق عالمی بینکاری کے نظام میں چھاپہ خانے میں نہیں، کمپییوٹر کے کی بورڈ کے ذریعے ہوتی ہے۔
آج کا مارکوپولو اس نظام کو دیکھ کر حیرت سے پھٹی آنکھوں سے کہے گا، “یہ عظیم مرکزی بنک کمپیوٹر سکرین پر چند اعداد کو سپریڈ شیٹ میں ڈال کر پیسہ تخلیق کر لیتے ہیں!!”۔
ٹیکنالوجی بدل چکی ہے لیکن پیسہ کیا صورتیں اختیار کر سکتا ہے؟ ہماری حیرانی اس بارے میں کم نہیں ہو گی۔
قدیم چین سے نکل کر دنیا بھر میں پھیل جانے والی بڑی ایجادات میں صرف کاغذ ہی نہیں، کاغذ کے نوٹ بھی ایک بہت اہم ایجاد رہے ہیں۔ لیکن یہ ایجاد خود روبہ زوال ہے۔ کمپیوٹر کے اعداد اپنی مختلف صورتوں میں ان کی جگہ لے رہے ہیں۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...