آرام دہ بس سبک رفتاری کے ساتھ گھنے جنگل کے بیچوں بیچ بنی کالی سڑک پر دوڑتی چلی جا رہی ہے۔سرما کا استقبال کرنے کے لیئے خزاں کے زرد سوکھے ہوئے پتے جنگل میں ایک دوسرے کے پیچھے بھاگ رہے ہیں۔ سارے جنگل نے سبز خلعت اتار کرسنہری لبادہ اوڑھ لیا ہے۔ کالی سڑک زرد ذرات سے بھری پڑی ہے۔ میں بس کی درمیانی نشستوں میں بائیں طرف بیٹھا ہوا سنہری ماحول کا نظارہ کر رہا ہوں۔
میری ساتھ والی نشست خالی ہے جس پر میرا سیاہ سفری بیگ رکھا ہوا ہے۔ بس کے بیچوں بیچ گزرگاہ کے دوسری طرف ایک خاتون اپنے شوہر کے ساتھ بیٹھی ہوئی ہے۔ ابھی تک دونوں کے درمیان بہت کم گفتگو ہوئی ہے۔ گندمی رنگت والے دراز قد مرد کی آنکھیں بندہیں۔ اس کی سیاہ چمکیلی زلفیں ڈرائیور کی کھلی کھڑکی سے آتی ہوئی ہوا کی وجہ سے کبھی کبھی لہرانا شروع کر دیتی ہیں۔ اس کے چہرے کی چمکدار مونچھوں اور سیاہ بھنووں نے اس کی وجاہت میں اضافہ کر دیا ہے۔ خاتون مرد کی قربت سے بے نیاز کسی پرانی کتاب کے گہرے مطالعے میں مصروف ہے۔کتاب مجھے کچھ دیکھی بھالی سی لگتی ہے۔ یہ کتاب شاید چیخوف کے افسانوں کی ہے۔اس رومانوی ماحول میں چیخوف جیسے غیر رومانوی اور حقیقت پسند کا مطالعہ خاتون کی بد ذوقی کی علامت معلوم ہو رہا ہے۔
اس خاتون کا نام طاہرہ ہے۔ اس کو آخری مرتبہ میں نے دو سال پہلے دیکھا تھا۔دو سال گزرنے کے باوجود اس کی آنکھوں کی چمک ویسی ہی ہے۔ یہ خاتون کبھی میری شریکِ زندگی ہوا کرتی تھی۔ اس کو دو سال پہلے میں نے گھر سے نکالنے سے قبل خوب مارا تھا۔ میرے غصے سے مرعوب ہو کر وہ خاموشی سے مار سہتی رہی تھی۔ طلاق دینے کے بعد بھی میرا غصہ کم نہ ہوا ۔دھکوں کے ساتھ جب میں نے گالیاں دیتے ہوئے اس کو گھر سے نکلنے کا حکم دیا تو وہ آخری مرتبہ اپنے کمرے میں گئی تھی۔ یہ وہ کمرہ تھا جس میں ہم نے اذدواجی زندگی کا عشرہ گزارا تھا۔ اسی کمرے میں ہم دونوں نے بہار، خزاں، گرما اور جاڑوں کے دس دس موسم بتائے تھے۔ اس کمرے میں طاہرہ نے جانے کتنی کتابوں کا مطالعہ کیا اور میں نے جانے کتنی بار اسے بات بات پر زچ کرنے کی کوشش کی۔ کاش کہ اُس کے منہ میں ذبان ہوتی تو کچھ مزہ بھی آتا لیکن اس کو تو جواب دینا ہی نہ آتا تھا۔ یا کچن میں مصروف رہتی یا کتابوں میں۔ یہی وجہ تھی کہ پچھلے سات سالوں سے اُس کو نظر کی عینک بھی لگی ہوئی تھی۔ لیکن یہ بات بھی سچ ہے کہ وہ اُن چند عورتوں میں سے ایک تھی جن کو گلاسز بہت اچھے لگتے ہیں۔
میں نے مردانگی کا ثبوت دیتے ہوئے اُس کو اپنا سامان اٹھانے کی اجازت دے دی تھی۔ شاید اس لیئے بھی کہ میں نے اس کے ساتھ دس برس گزارے تھے۔ جب طاہرہ اپنے زخموں کو سہلاتی ہوئی اپنے بیڈ روم میں آخری دفع داخل ہوئی تھی تو بالکل ایک ٹوٹی ہوئی گڑیا دکھائی دے رہی تھی۔ تکیے کے نیچے سے ایک کتاب اٹھا کر ایک پرانے شاپر میں ڈالی لیکن شاپر پھٹا ہوا ہونے کی وجہ سے وہ نیچے سے نکل کر قالین پر گر گئی تھی۔ میں نے ازراہِ ہمدردی میں نے سائیڈ ٹیبل پر رکھے ہوئے نئے کیمرے کو لفافے سے باہر نکال کر خالی لفافہ طاہرہ کے حوالے کر دیا تھا۔ جھکی نگاہوں سے اُس نے لفافہ تھاما اور کتاب اس میں ڈال دی۔ میری توقعات کے برعکس اس نے اپنے کپڑوں یا دوسرے سامان کو نہ اُٹھایا۔ عجیب پتھر دِل عورت تھی۔ جہاں دس برس گزارے اس گھر اور اس کمرے کو یوں چھوڑے جا رہی تھی جیسے ان کو پہچانتی ہی نہ ہو۔خَیر یہ اُس کا مسئلہ تھا۔ میری تو جان چھوٹ رہی تھی ۔ ایک عرصہ کے بعد میں اب کے آزاد ہوا تھا۔ دس سال کے بعد میں نے سُکھ کا سانس لیا تھا۔ میں نے آخری بات جو طاہرہ کو کہی تھی مجھے آج تک یا د ہے۔ میں نے کہا تھا کہ دنیا کے سارے مرد تمھاری موجودگی میں مجھے خوش نصیب لگتے تھے۔ آج میں بھی اُن خوش نصیبوں میں شامل ہو گیا ہوں۔ میں نے دیکھا تھا کہ خاموش آنکھوں کی گہرائیوں میں کہیں سے پانی کے دو تین قطرے اچانک چھلک پڑے تھے۔
کچھ عرصہ میرا بڑے مزے میں گُزرا۔ لیکن پھر تنہائی ستانے لگی۔ طاہرہ کے کپڑے ، جوتے اور دوسرا سامان آہستہ آہستہ بوسیدہ اور ناکارہ ہوتا گیا۔ لیکن مجھے اس کاٹھ کباڑ کو باہر پھنکنے کی جرات نہ ہوئی۔ جانے کون سی پراسرار قوت مجھے سست، بے حرکت اور تن آسان بناتی چلی جارہی تھی۔ میں نے کتابوں میں پناہ لینی شروع کر دی تھی۔ زندگی سے فرار کا یہی ایک مثبت راستہ تھا۔ اس فرار کے لیئے رومانوی ادب نے میرے لیئے اکسیر کا کام کیا۔ تھوڑے ہی عرصے میں مَیں نے رومانوی ادبِ عالیہ کی چیدہ چیدہ کتابیں پڑھ ڈالیں۔دفتر میں میری حاضری بہت کم رہ گئی تھی۔ گھر میں رکھی فائلیں شوکاز کی چٹھیوں سے بھرتے چلے جا رہے تھے۔ اور پھر ایک دن مجھے جبری ریٹائر کر دیا گیا۔ پنشن مجھ اکیلی جان کے لیئے کافی تھی۔ رومانی افسانے، ناول، سگریٹ، چائے اور گلیوں میں میلوں تک فضول مٹر گشت میرا معمول بن چکا تھا۔ کٹی پتنگ کی طرح زندگی گزار رہا تھا۔
چند ماہ قبل پتہ چلا تھا کہ طاہرہ نے دوسری شادی کر لی ہے۔ خبر سنتے ہی من کا سمندر پر سکون ہو گیا۔ دھیرے دھیرے زندگی کی طرف لوٹنے لگا۔ ساری بیہودہ باتیں اور عادات دم توڑتی چلی گئیں لیکن رومانوی کتابوں سے دلچسپی ختم نہ ہوئی۔ میں نے چھوٹے چھوٹے کام اور کاروبار شروع کر دیے۔ آج بھی میں ضلعی صدر مقام کی طرف کسی کاروباری سلسے میں ہی سفر کر رہا تھا۔ میرے چرمی تھیلے میں پژمُردہ سرکاری کاغزات سوئے ہوئے تھے۔ اِن بے رنگ کاغزوں میں طاہرہ کی ایک رنگین تصویر ہلکی ہلکی سانسیں لیتی محسوس ہو رہی تھی۔ طاہرہ برآمدے میں رکھی آرام کرسی پر بڑے سکون سے بلونت سنگھ کا ناول دلی پڑھ رہی ہے۔ہلکے سبز رنگ کا جالیدار دوپٹہ بائیں طرف سرکا ہوا ہے۔ بلوری آنکھوں پر ریشمی زلفوں نے سایہ کر رکھا ہے۔ میں کمرے میں ٹی وی پر کرکٹ میچ دیکھ رہا ہوں۔ کبھی کبھی کھڑکی سے باہر طاہرہ پر نظر پڑ جاتی ہے۔ عمیق مطالعہ نے طاہرہ کو ارد گرد سے بے نیاز کر رکھا ہے۔ وہ دلی کے بوسیدہ مندروں، تاریخی مسجدوں اور قدیم بازاروں کی سیر کر رہی ہے۔ کبھی کبھی اس کے لطیف ہونٹوں پر زیرِ لب مسکراہٹ پھیل جاتی ہے۔ بلونت سنگھ کی حقیقت پسندانہ نثر کوئی چیز چھپاتی تو ہے نہیں۔ اس کی بے باکی کو پڑھتے ہوئے بندہ کبھی شرمانے لگتا ہے تو کبھی مسکرانے۔طاہرہ نے ہلکے میرون رنگ کا لباس پہن رکھا ہے۔ سرخ اور سبز رنگوں کا حسیں امتزاج اس کے بھولے بھالے لیکن تیکھے نقوش والے گندمی جسم پر خوب سج رہا ہے۔
بس اب جنگلی حصہ عبور کر کے کھلے میدانوں میں بھاگ رہی ہے۔ دور تک ریت کے ٹیلے پھیلے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔ کہیں کہیں خانہ بدوشوں کے اونٹوں کے چھوٹے چھوٹے قافلے قدیم عربوں اور افریقیوں کی طرزِ زندگی کو یاد دلا رہے ہیں۔ ہلکی ہلکی دھوپ بس کے شفاف شیشوں میں سے اندر جھانک رہی ہے۔ ہموار سڑک اور نئی بس کی وجہ سے سفر بہت پرسکون گزر رہا ہے۔ طاہرہ نے چیخوف کا کوئی افسانہ ختم کر کے کتاب بند کر دی ہے۔ طاہرہ کی آنکھیں نیند سے بوجھل ہوتی جا رہی ہیں۔ اس کا سَر ساتھ بیٹھے گھنی مونچھوں والے وجیہہ مرد کے چوڑے چکلے کندھوں پر جھُک چکا ہے۔ اب وہ گہری نیند سو رہی ہے۔تمام مسافروں نے اونگھنا شروع کر دیا ہے۔ نیند مجھ سے کوسوں دور ہے۔ لمبا سفر میں نے جاگتے ہوئے گزارنا ہے۔ میرے علاوہ تمام دنیا مجھے خوش نصیب محسوس ہو رہی ہے۔ بس دوبارہ کسی پرانے جنگل میں سے گزر رہی ہے۔ شہتوت کے خشک پتے خزاں کی آوارہ ہواؤں میں سرمستیاں کرتے ہوئے سڑک کے اوپر نیچے بھاگ رہے ہیں۔ بس کے اندر اور باہر سکون،خاموشی اور نیند نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔