آج کل میرے وطن اور میرے شہر میں خزاں کی رُت اپنی بہار دکھلا رہی ہے۔ خزاں کی مخصوص خوبصورتی پژمردہ دلوں کو ایک اداس مسرت سے ہمکنار کرتی ہے۔ راتیں اچانک اتنی لمبی ہو جاتی ہیں کہ ختم ہونے کا نام نہیں لیتیں۔ دن مختصر اور شامیں پُر کیف ہو جاتی ہیں۔ باریک ملبوس موٹے لبادے میں بدل جاتے ہیں۔ موسمِ گرما ہجر کا موسم ہوتا ہے جس کا خاتمہ اکتوبر نومبر کے مہینوں میں دیکھنے کو ملتا ہے جب سینکڑوں ہزاروں جوڑے ہجر کی تلخ گرمی عبور کر کے وصال کے مقدس اور مبارک لمحات سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔
رات کے دس بج رہے ہیں۔ میں ہلکی ہلکی ٹھنڈ میں ٹیرس کی کھلی فضا سے لطف اندوز ہو رہا ہوں۔ دور بہت دور سے ڈھولوں کی آواز ایک نئے ملن، ایک نئے وصال کا مژدہ سنا رہی ہے۔ ایسی آوازیں جمعرات اور ہفتہ کی راتوں کو اتنی زیادہ ہوتی ہیں کہ شب کی تاریک فضا ان سے لبریز ہو جاتی ہے اور یوں لگتا ہے کہ شہر کے ہر گھر میں خوشیوں کا شور بپا ہے۔ دور بجتے ڈھول کی آواز ہوا کے دوش پر رقص کر رہی ہے۔ ہوا کا رخ میری طرف ہوتا ہے تو یہ آواز بہت قریب محسوس ہوتی ہے۔ اتنی قریب کہ ساتھ والے محلے سے آتی ہوئی لگتی ہے۔ ہوا جب پلٹا کھا کر مجھ سے دور چلنے لگتی ہے تو موسیقی کی آواز بھی خوابیدہ ہو جاتی ہے۔
میں نے ابھی ابھی چائے کا گرم گرم کپ اس انتہائی پیارے ماحول میں ختم کیا ہے۔ رات، خزاں، پورا چاند،چائے اور ہلکی ہلکی سردہوا نے میرے اوپر ایک جادوئی کیفیت طاری کر رکھی ہے۔ یوں لگتا ہے کہ میں اس شہر کا باسی نہیں ہوں اور نہ ہی اس سُود و زیاں کی دنیا سے میرا کچھ لینا دینا ہے بلکہ میں کسی ایسی بہشت میں سانسیں لے رہا ہوں جہاں انسان کو جیب سے نہیں پرکھا جاتا، جہاں انسان کی عظمت اس کے رتبہ، خاندان اور طاقت سے نہیں بلکہ اس کی سوچوں اور دل کی دنیا کے معیار کو دیکھ کر طے کی جاتی ہے۔ میرے چاروں طرف گھپ اندھیرا ہے۔ لوگ اتنی جلدی جانے کہاں چلے جاتے ہیں۔ خزاں کی راتیں کوئی سونے کے لیے بنائی جاتی ہیں؟ کیا ان پراسرار شبوں میں ٹیلی ویژن اور کمپیوٹر پر وقت بتانا ناشکری نہیں ہے؟
خزاں جب عروج پر ہو تو دل کے جزبات میں ایک عجیب سی تبدیلی واقع ہو جاتی ہے۔ مزاج بدل جاتے ہیں، طبیعیت میں ایک انوکھی سی تبدیلی عود کر آتی ہے۔ تنہائی پسند اچانک سوشل بن جاتے ہیں اور گروہوں اور ٹولیوں میں خوشی محسوس کرنے والے تنہائی پسند۔ سستی مائل یک دم چست ہو جاتے ہیں اور ہمہ وقت پھدکنے والے اچانک سست رفتار ہو جاتے ہیں جیسے چلتی گھڑی کی سوئیاں سیل کمزور ہونے پر آہستہ ہو جاتی ہیں۔
اگر آپ پڑھنے کے شوقین ہیں تو یہ موسم آپ کے لیے انتہائی موزوں ہے۔ انسان کی لطیف حسیں خزاں میں مکمل بیدار ہوتی ہیں۔ آپ موٹی موٹی کتابیں چند دنوں میں ختم کر سکتے ہیں۔ اگر آپ میں موسیقی سے دلچسپی کا عنصر بھی موجود ہے تو اس موسم میں بھولے بسرے گیت بھی آپ کی طبیعت میں ایک نئی روح پھونک دیتے ہیں۔ اگر آپ آرٹ کا شغف رکھتے ہیں تو ایک معمولی سا فن پارہ دیکھ بھی عش عش کر اٹھیں گے۔ اس کی بنیادی وجہ شاید یہ ہے کہ خزاں در حقیقت رجائیت کا موسم ہے حالانکہ اس کی شکل قنوطیت سے ملتی جلتی ہے۔ اس دلنشیں موسم میں تمام دوست، رشتہ دار، سنگی ساتھی، دفتر کے کولیگ آپ کو اچھے لگتے ہیں۔ آپ کا جی چاہتا ہے کہ کوئی ہو جس کے ساتھ آپ چند لمحات سکون سے گزار دیں۔ کوئی مل جائے تاکہ آپ موسم کی باتیں کریں، حسیں یادوں کا تذکرہ کریں اور مدتوں بعد دل میں امڈنے والے پاکیزہ جزبات کا تبادلہ کریں۔ اگر کوئی ایسا بندہ مل جائے تو اسے خوش قسمتی سمجھیں کیونکہ ایسے موسم کا اثر لازمی نہیں ہے کہ تمام لوگوں پر ہو۔ اپنے اس ساتھی کی اس ملاقات کو غنیمت سمجھیئے اور اس کو یادگار بنانے کے لیئے چائے کا ایک ایک کپ پینا نہ بھولنا۔