افسانہ
آشواسن
اس کے پاؤں میں پڑے چھالے پھوٹنے لگے تھے، جن سے رسنے والا پانی پسینے سے مل کر شدید جلن پیدا کر رہا تھا ۔ اس پر دھوپ کی تمازت اسے الگ بے حال کیے ہوئے تھی ۔ اب ایک قدم بھی آگے بڑھانا اس کے لیے محال تھا، لیکن اس کا عزم ہی تھا جو اسے گھسیٹتے ہوئے جلوس کے ساتھ ساتھ لیے چل رہا تھا۔
سفر کی سرد وگرم صعبتوں اور مشقتوں کو برداشت کرتا ہوا، لوگوں کی ہمدردیاں اور دعائیں لیتا ہوا ،ہزاروں کسانوں کا یہ جلوس سیکڑوں میل پیدل مارچ کرتا چلا جا رہا تھا ۔ وشوا بھی اپنی پگڑی میں امیدیں باندھے اس جلوس میں شامل ہوا تھا۔اسے بھی آس تھی کہ اب کے حکومت کی حس ضرور جاگے گی اور جلد ہی کسانوں کے مطالبات پورے کر دیے جائیں گے۔ اسی لیے وہ اس طویل سفر میں درپیش ہر تکلیف کو اپنے خوابوں کی خوش آئند تعبیر کے بدلے برداشت کرتا ہوا چل رہا تھا۔ اور مسلسل چل رہا تھا ۔ راستے میں لہلہاتے کھیتوں کو دیکھ کر اس کے رگ و پے میں مسرت کی لہر دوڑ جا تی اور اس کے قدم خود بخود تیز ہونے لگتے ۔ اتنے تیز کہ وہ عَلم اٹھائے، پیش پیش رہنے والے جلوس کے پرجوش نوجوانوں سے بھی آگے نکلنے لگتا ۔ یہ امیدیں ہی اس کے حوصلے اور راحت کا سبب بن رہی تھیں، وگرنہ اپنی بے فیض زندگی سے وہ گویا بجھ سا گیا تھا۔
اسے اپنی بیوی شکنتلا کے بے موت مرنے کا شدید غم تھا۔ اگر پچھلے برس فصل کی قیمت اس کی محنت کے برابر آئی ہوتی تو وہ اس کا علاج صحیح ڈھنگ سے کرواتا اور شاید وہ بچ بھی جاتی! مگر بیماری کے بعد وہ جی ہی کتنا! نہ اس کے پاس وقت تھا نہ وشوا کے پاس کہ وہ پھر سے قرض کے لیے دوڑ بھاگ کرتا ۔ حالانکہ اس کے ناتواں کاندھوں پر پہلے ہی قرض کا اتنا بوجھ تھا کہ وہ اگلا قرض لینے کا کسی بھی طرح سے اہل نہیں تھا ۔ تب بھی اگر کوئی بینک یا ادارہ ترس کھا کر اسے قرض دیتا بھی تو ضابطے کی کاروائی پوری کرنے تک شکنتلا کے پاس وقت کتنا تھا ! ۔… اسے لگتا تھا کہ شکنتلا، سندھیا ہی کو دیکھ دیکھ کر جیتی تھی اور مری بھی شاید اسے ہی دیکھ دیکھ کر ۔ آخر وقت میں سندھیا کو دیکھ کر اس کی آنکھوں میں جو حسرت آمیز کیفیت تھی اسے یاد کر کے وشوا کے دل میں ایک ہوک سی اٹھتی۔
سندھیا۔۔۔! اس کی سگھڑ بیٹی۔۔۔ سچ مچ وشوا کو پتا ہی نہ چلا کہ کھیتوں کی بالیوں اور جھاڑیوں کے پیچھے چھپ کر اسے ستانے والی اس کی معصوم گڑیا کا بچپن، کب اور کس اوٹ چھپ گیا! مگر اب جب کہ سندھیا اٹھائیس کے اوپر ہوچلی تھی تو اس کے بڑھتے سن کا ایک ایک دن وشوا پر بھاری گزر رہا تھا۔
بھلا ہو ان نیتاؤں کا جنہوں نے کسانوں کو جاگرت کیا اور انہی کے حق میں ریاستی سطح پر ایک بڑے جلوس کا اہتمام کیا ۔تاکہ سرکار اور اس کے کارندوں کو کسانوں کے مسائل سے آگاہ کرایا جاسکے ۔. سندھیا کو لیکر وشوا نے اپنی ساری امیدیں اور آشائیں اسی جلوس سے باندھ لی تھیں۔ اب تو اسے گویا یقین ہوچلا تھا کہ حکومت ان کا ساتھ دے گی اور فصل کے صحیح داموں میں خریدو فروخت کا قانون بنے گا، جس کی بنا پر اب کی بار فصل کے دام مناسب آئیں گے ۔ اور رہی بات قرض کی تو وہ سرکار سے پر امید تھا کہ یقیناً اس کا قرض معاف کر دیا جائے گا یا اطمنان کی حد تک اس میں کمی کر دی جائے ۔ اس نے ایک موٹا موٹا حساب جوڑ کر یہ بھی اندازہ لگا لیا تھا کہ اگلے چھ، آٹھ مہینوں میں اس کے پاس اتنی رقم جمع ہوسکتی ہے جس سے سندھیا کے جہیز اور لگن کا ٹھیک ٹھاک بندوبست ہوجائے گا۔ اسی لیے جلوس میں شامل ہونے سے ہفتہ بھر پہلے ہی وہ گاؤں کے رشتہ لگانے والے ’بدھوا‘ سے ملا تھا او ر اسے پیشگی ہزار روپیے دے کر سندھیا کے لیے اچھا سا ’بر‘ ڈھونڈنے کی منتیں کی تھیں ۔
پانچ دنوں کے طویل سفر کے بعدجلوس اپنے مقام پر پہنچا۔ رات کومنتظمین اور کچھ فلاحی اداروں کی جانب سے جھنکا بھاکر اور کچھ ہلکے پلکے کھانے کا انتظام کیا گیاتھا۔ اسے زہر مارکر کے سبھی تھکے ہارے کسانوں نے سوتے جاگتے رات گزار لی۔صبح کو جلوس کے اہم لیڈروں نے منتریوں اور سرکاری نمائندوں سے تین گھنٹے کی طویل میٹنگ کی ،پھر جب باہر آئے تو یہ بھاشن دیا۔
'' دیش واسیوں کے لیے اَناج پیدا کرنے والے ہر ایک کسان کا مسئلہ اس کا اپنا ذاتی نہیں بلکہ پورے دیش کا مسئلہ ہے ۔ سرکار مانتی ہے کہ سبھی کسانوں کے مسائل ایک جیسے ہیں لیکن ان میں ہر ایک کی ذمہ داریاں مختلف ہیں ۔ لہذا اسی بات کو مد نظر رکھتے ہوئے سرکار نے کسانوں کی بیشتر مانگوں کو قبول کر لیا ہے اورآشواسن دیا کہ اگلے چھ مہینوں بعد ان پر عمل کرنا شروع کر دیا جائے گا ۔اس کے علاوہ بقیہ مانگوں پر غور کرنے کے لیے ایک سال کی مدت لی ہے تاکہ ان مانگوں پر ہرپہلو سے غور کیا جاسکے۔ ''
سرکاری فیصلے سے ہجوم پر کہیں خوشی تو کہیں غم کی لہر دوڑ گئی۔ بیشتر کسانوں کے مطابق اس فیصلے میں سوائے واپسی کے لیے سفری انتظامات کرنے کے ہر ایک مدعا آشواسن تھا۔ اور آشواسن کا لفظ خاص کر کسانوں کے لیے کبھی بھی نیا نہیں رہا بلکہ آشواسن کے معنی ان کے نزدیک صرف انتظار۔۔۔۔انتظار اور انتظار کے سوا کچھ نہیں تھا ۔
فیصلہ سنتے ہی وشوا کی آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا اوربدن پر جیسے لرزا سا طاری ہوگیا۔وہ سر تھامے کپکپاتے پیروں سے زمین پر اکڑوں بیٹھ گیا۔پتا نہیں وہ کتنی دیر اسی کیفیت میں بیٹھا رہاکہ اچانک اس نے اپنے کاندھے پر کسی کا ہاتھ محسوس کیا۔ دھیرے سے آنکھیں کھولیں تو دیکھا کہ سامنے ایک شخص کھڑا تھا،اس کی شکل کچھ جانی پہچانی سی لگ رہی تھی ۔وہ دھیرے دھیرے اٹھ کر کھڑا ہوا اور اس شخص کو پہچاننے کی کوشش کرنے لگا۔
’’ارے وشوا ،کیا تو نے مجھے پہچانا نہیں میں کیشو ہوں کیشو۔ ‘‘
کیشو کا نام سن کر اس کی آنکھوں میں شناسائی اتر آئی اور دونو ں دوست بغل گیر ہوگئے۔
کیشو نے بتایا کہ وہ بیس برسوں سے دور کے ایک گاؤں میں اپنے سسرال کی زمین پر کاشت کار رہا ہے اور اب وہیں بس گیا۔ پھر اس نے وشوا کے اترے ہوئے چہرے پر نظریں جما کر پوچھا :
’’تیرا کیا حال ہے؟‘‘
وشوا نے افسردگی سے اپنی بیوی کی موت کی خبر سنائی۔سن کر کیشو نے بڑا افسوس ظاہر کیااور کچھ توقف کے بعد پوچھا :
’’تیری ایک بٹیا بھی ہے نا؟کیا نام ہے اس کا ۔۔۔۔۔؟
’’سندھیا۔ ‘‘
وشوا نے جواب دیا:
’’ہاں ،سندھیا۔۔۔اب تو شادی ہوگئی ہوگی اس کی ۔۔؟‘‘
وشوا نے مایوسی سے گردن ہلائی اور دھیمی آواز میں کہا:
’’ اسی کی تو فکر ستارہی ہے مجھے۔‘‘
وشوا نہیں چاہتا تھا کہ وہ اپنے بارے میں اسے اپنے حالات سے آگاہ کرے مگرکیشوکی ضد کے آگے وہ مجبور ہوگیا ۔
کیشو نے پوری بات سن کر اسے غور سے دیکھا اور اس کے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر گویا ہوا:
’’وشوا، چنتا مت کر سب ٹھیک ہوجائے گا۔ ‘‘
’’نہیں رے کیشو تو نہیں جانتا مجھے اپنی کھیتی سے زیادہ سندھیاکی فکر ہے اور تو تو جانتا ہے آج کل لڑکے والے ’ہنڈا ‘ (ریاستِ مہاراشٹر میں روپیوں کی شکل میں دیا جانے والا جہیز) لیے بغیر کہاں راضی ہوتے ہیں ۔‘‘
تبھی پیچھے سے ایک نوجوان نے کیشو کو آواز دی۔چلو بابا دیری ہو رہی ہے ،کہیں بس نہ نکل جائے۔‘ ‘
وشوا نے دیکھا ایک اچھے قد و قامت کا نوجوان کیشو سے مخاطب ہو ا اور پلٹ کر پاس ہی کھڑے اپنے دوستوں کی طرف بڑھ گیا ۔
’’شایدیہ تیرا بیٹا ہی ہے ،ہے نا۔۔۔؟ کتنا بڑا ہوگیا۔۔۔۔۔۔!‘‘
کیشو نے دیکھا وشوا کی نظریں نوجوان کا تعاقب کر رہی ہیں ۔اس کے ہونٹوں پر ایک معنی خیز مسکراہٹ پھیل گئی ۔
’’ہاں، میرا بیٹا ۔۔۔۔۔۔وشال۔۔۔۔ اسی برس شادی کرنے جا رہا ہوں اس کی۔ ‘‘
وشوانے پوچھا :
’’لڑکی دیکھی ؟ ‘‘
’’ہاں دیکھی تھی ،پندرہ برس پہلے ۔۔۔۔۔‘‘
کیشو نے مسکراتے ہوئے کہا۔
’’پندرہ برس پہلے۔۔۔۔ کہاں دیکھی تھی ؟‘‘
اب کے وشوا کے لہجہ میں گہرا استعجاب تھا ـ
’’تیرے گھر میں۔ ‘‘
وشوا حیرت و مسرت کی ملی جلی کیفیت کے ساتھ کیشو کا منہ تکنے لگا۔
’’اب منہ کیا دیکھتا ہے جلدی سے اپنے گاؤں کی بس پکڑ اور چنتا چھوڑ میں جلدہی تیری وہینی (بھابی ) کو لے کر سندھیا کا ہاتھ مانگنے تیرے گھر آؤں گا ۔ ‘‘
مائک سے مسلسل آنے والی آوازیں اب بند ہوچکی تھیں البتہ دس دس منٹ بعد ہدایتی پیغام ضرور آ رہے تھے ۔ میدان دھیرے دھیرے خالی ہو نے لگا تھا ۔ جلوس میں شامل کسان جوق در جوق ریلوے اسٹیشن اور بس اڈے کی طرف چلے جا رہے تھے ۔
کیشو کی باتوں سے وشوا کی ڈھارس بندھی ۔وہ بس میں سوار ہوا اور جگہ بنا کر ایک سیٹ پر بیٹھ گیا۔ بس چلنے لگی تو کھڑی سے آتی ہوا سے اسے راحت کا احساس ہوا، اس نے سیٹ سے ٹیک لگاکر آنکھیں بند کر لیں اور کیشو کے بارے میں سوچنے لگا ۔ ’’کتنا بھلا آدمی ہے کیشو ،پرانی دوستی کا مان رکھ لیا اور میری اتنی بڑی پریشانی دور کردی۔‘‘وہ اس دن کا تصور کرنے لگا جس کا آشواسن کیشو نے دیا تھاکہ وہ اپنی بیوی کے ساتھ سندھیا کا ہاتھ مانگنے اس کے گھر آئے گا اور وہ۔۔۔۔وہ۔۔۔اچانک ایک منحوس سا خیال اس کے ذہن میں بجلی کی طرح کوندا’’ کہیں کیشو کا آشواسن بھی سرکاری آشواسن کی طرح صرف انتظار۔۔۔۔۔ انتظاراور انتظار ہی بن کر نہ ر ہے جائے !‘‘
ختم شد۔۔۔۔۔