پاکستان اور یورپی معاشرہ
چند دوست جو بظاہر اِسلامی ذہن رکھتے ہیں مگر انکے قول وفعل میں تضاد ہے، وُہ جب بھی کُوئی خبر دیکھتے ہیں کہ امریکہ ، برطانیہ یا کسی یورپی مُلک میں کُوئی بڑا جُرم ہُوا ہے، کُوئی قتل، ریپ یا اغوا تو فوراً اعداد و شُمار نِکال کر بحث کرنے بیٹھ جاتے ہیں، اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ دیکھو جی وہاں بھی تو جُرائم ہوتے ہیں پھر پاکستان کو تنقید کا نشانہ کیوں بنایا جاتا ہے ۔
دُنیا میں جہاں جہاں اِنسان بستے ہیں وہاں وہاں جُرائم ہوتے آئے ہیں اور ہوتے رہیں گے ۔ جرائم کا کسی ایک معاشرے سے کُوئی تعلق نہیں ہوتا بلکہ یہ کم وبیش ساری دنیا میں پائے جاتے ہیں۔
یورپ میں ریپ بھی ہوتے ہیں اور چند نفسیاتی مریض سیریل قاتل بھی ہوتے ہیں مگر میں یہ مکمل یقین کے ساتھ کہتا ہُوں کہ اُن کی تعداد ہمارے مُلک پاکستان سے بُہت کم ہےاور اُن کو سزا بھی لازمی ملتی ہے ۔
امریکہ کی بات کریں تو وہاں اسلحہ کلچر بُہت عام ہے اور قتل کے واقعات ہوتے رہتے ہیں، لیکن وہاں قانُون کی عملداری بھی اُتنی ہی سخت ہے۔
پاکستان پر تنقید اِس لئے ہوتی ہے کہ ہم پاکستانی ہیں تو اپنے مُلک کی ہی بات کریں گے نہ کہ ہندوستان کی۔سمجھنے کی بات یہ ہے کہ یہ موازنہ یا تنقید ایک لحاظ سے حسرت ہے کہ کاش ہمارا مُلک بھی ایسا ہی بہتر ہوتا ۔ہم میں سے کون نہیں جانتا کہ اپنے وطنِ عزیز میں جُرائم کی صُورتِحال کیا ہے۔
جب آپ کسی یورپی مُلک کا حوالہ دیں، تو کُچھ لوگ فوراً کہتے ہیں، اجی میری فیملی وہاں رہتی ہے مُجھے سب پتہ ہے رہنے دو ، فُضول بات ہے ، ارے یہ پاکستان ہے یہاں ایسا سسٹم نہیں چلتا۔
ارے بابا کیا پاکستان کِسی دُوسرے سیارے پر ہے جہاں ہم اچھے ممالک کی مِثال نہیں دے سکتے ؟ یا اُن کے نظام کو مکمل نہ سہی تھوڑا بُہت ہی کاپی کرلیں۔
ایک اور گروپ کہے گا اجی یہ سب اِسلام کی خُوبیاں ہیں جو اِن کافروں نے اپنا لیں ۔ ویسے تو دُنیا کا ہر مذہب ہی اچھی باتیں سِکھاتا ہے پر چلو آپ کی بات ہی رکھ لیتے ہیں ۔ تو پھِر یہ اِسلام کی اچھی باتیں ہمارے اپنے معاشرے میں کیوں نظر نہیں آتیں ؟
اب اِس کا جواب یہ مِلے گا کہ اِسلامی نظام نہیں نا اِس لئے !
اب اِن عقل کے اندھوں سے کُوئی پُوچھے کہ مغربی ممالک میں کہاں اِسلامی نظام ہے ؟ معاشروں میں بہتری مذہب سے نہیں بلکہ اِنسان کے اندر چُھپی اچھائی کو سامنے لانے سے آتی ہے ۔ بے شک مذہب بھی اچھائی سکھاتا ہے لیکن بالآخر ہمیں اِس myth سے باہر آنا ہوگا کہ مذہب کے عِلاوہ معاشروں میں نکھار نہیں آسکتا ۔ اور یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ مذہب کا معاشرے میں کردار بڑی حد تک ذاتی ہوتا ہے نہ کہ اجتماعی ۔
مُجھ سمیت بُہت سارے پاکستانی بھائی بہتر مُستقبل کی خاطر اپنے اِن ممالک میں آتے ہیں اور جیسے ہی حالات بہتر ہوتے ہیں اور پیٹ میں وافر اناج ہوتا ہے تو پِھر یہاں کے باسیوں کو شرعی قوانین کے تابع کرنے لگتے ہیں ، ہر طرف اور ہر چیز کو مذہب کی عینک سے دیکھنا شُروع کر دیتے ہیں ۔
میں دعویٰ کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ اسی فیصد تک یہاں ( یورپ ) رہنے والے لوگ اپنے کاروبار یا کاموں میں مصروف رہتے ہیں اور یہاں کے لوگوں میں کبھی گھُل مِل نہیں پاتے اب وُہ آپ کو کیا اِن کا کلچر یا سوچ سمجھائیں گے ۔
میرے پڑوس میں رہنے والی جینی تیس سے اُوپر کی ہے لیکن شادی نہیں کررہی کہ اُس کی معذور ماں اکیلی ہوجائے گی اور کئی مثالیں ہیں لیکن نہیں ہمیں تو بس یہ کہنا ہے کہ یہاں پر فیملی سسٹم ٹوٹ گیا ہے اور بس برباد ہونے کو ہیں ۔اچھے بُرے لوگ ہر جگہ ہوتے ہیں ۔ ایسے بھی ہیں جو والدین کو کبھی نہیں ملتے لیکن کیا ایسے لوگ پاکستان میں نہیں ہیں ؟
حُضور اپنے مُعاشرے کی فِکر کریں ، یورپ کو چھوڑیں کیونکہ یہ کافر تو آپ کو شہریت ، عزت اور برابری ، ترقی کے یکساں مواقع سب دیتے ہیں لیکن آپ کے اپنے اِسلامی ممالک کا رویہ کیا ہے ؟ جہاں مزدور کی مزدوری بھی دبا لی جاتی ہے۔ تنقید کرنا بُہت آسان ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ اِن مغربی معاشروں میں ابھی بھی اِنسانیت زندہ ہے ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔