اسٹیفن ہاکنگ 8 جنوری 1942 کو برطانوی شہر اوکسفورڈ میں پیدا ہوئے تھے۔
1963 میں ہاکنگ موٹور یورون بیماری کا شکارہوئے، جس کی وجہ سے نہ تو وہ حرکت کرسکتے تھے اورنہ ہی بول سکتے تھے لیکن وہ دماغی طورپرصحت مند تھے۔
ہاکنگ 22 سال کے تھے جب انہیں بتایا گیا کہ بس وہ تین یا چار سال تک زندہ رہ سکیں گے۔ اس کی اس بیماری نے اسے معزور کر دیا اور بقیہ ساری زندگی اس نے معزوروں کی کرسی پر گزار دی۔ وہ بول نہیں سکتے تھے۔ ساری عمر ایک مشین کے سہارے پوری دنیا کے سائنسدانوں سے مخاطب رہے۔
انہوں نے پہلی بار کاسمولوجی کو آئن سٹائن کی ریلیٹیویٹی اور کوانٹم مکینکس کی مجموعی نظر سے دیکھا۔ اس نے پہلی بار 1974میں دنیا کو بتایا کے بلیک ہول سے بھی توانائی شعاعوں کے ذریعے رستی رہتی ہے۔ اور آخرمیں بلیک ہول بھی مر جاتے ہیں۔ پھر اس نے ایک شہرہ آفاق کتاب "وقت کی مختصرتاریخ"
( A Brief History of Time )
لکھی اس کتاب نے فروخت کے ریکارڈ قائم کردیے ۔ ایک اندازے کے مطابق اس کی ایک کرورڑ کاپیاں فروخت ہوئیں۔
اس کے بعد ساری دنیا میں مقبولیت حاصل کی اور بیسویں صدی میں آئن اسٹائن کے بعد دوسرے مقبول ترین سائنسدان کا اعزاز حاصل کیا۔
اسٹیفن ہاکنگ کو غیر معمولی ذہانت کی بدولت آئن اسٹائن کے ہم پلہ سائنسدان قرار دیا گیا۔ اس عظیم سائنسدان نے کائنات میں ایک ایسا " بلیک ہول " دریافت کیا جس سے روزانہ نئے سیارے جنم لیتے ہیں، اس بلیک ہول سے ایسی شعاعیں خارج ہوتی ہیں جو کائنات میں بڑی تبدیلیوں کا سبب بھی ہیں۔ ان شعاوں کو اسٹیفن ہاکنگ کے نام کی مناسبت سے " ہاکنگ ریڈی ایشن " کہا جاتا ہے۔
1988 میں اپنی تصنیف ’’اے بریف ہسٹری آف ٹائم‘‘ سے ساری دنیا میں مقبولیت حاصل کی اور بیسویں صدی میں آئن اسٹائن کے بعد دوسرے مقبول ترین سائنسدان کا اعزاز حاصل کیا۔
ہاکنگ نے ایک چیلنج دنیائے طبیعیات کو بھی دیا۔ انہوں نے وقت کے سفرسے روکنے کے لیے قوانین طبیعیات کی طرف سے ایک “نظریہ تحفظ تقویم” پیش کیا تھا تاکہ تاریخ کو مورخوں کی دخل اندازی سے بچایا جا سکے جب کہ وہ شخص جس نے اپنے آپ کو بلیک ہول اور ٹائم مشین سے متعلق ریاضی کی موٹی موٹی مساوات سے سب سے زیادہ ممتاز کیا وہ ماہر کونیات اسٹیفن ہاکنگ ہے۔
دوسری جانب گزشتہ برس برطانیہ کی کیمبرج یونیورسٹی کی جانب سے اسٹیفن ہاکنگ کے 1966ء میں کیے گئے پی ایچ ڈی کا مقالہ جاری کیا گیا جس نے چند ہی دن میں مطالعے کا ریکارڈ توڑ دیا تھا۔
ہاکنگ فزکس اور ریاضی میں بام عروج پر تھے۔بڑے سائنسدان ان کے سائنسی کارناموں پر حیرت زدہ ہیں۔ عظیم کام اور عظیم نام اسٹیفن کی زندگی کا ایک نمایاں پہلو ہے، ان کی زندگی کا ایک اور منفرد اور المناک پہلو ایک عجیب بیماری بھی تھی۔ وہ ایم ایس سی تک درمیانے درجے کے طالبعلم، سائیکلنگ، فٹ بال اور کشتی رانی کے شوقین تھے۔روزانہ پانچ کلومیٹر دوڑ معمول تھی۔ 1963ءمیں جب وہ کیمبرج یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کر رہے تھے ایک دن سیڑھیوں سے پھسل گئے ۔طبی معائنے کے بعد پتہ چلا کہ وہ پیچیدہ ترین بیماری " موٹر نیوران ڈزیز " میں مبتلا ہیں۔
طبی زبان میں " اے ایل ایس " کہلائے جانے والی یہ بیماری دل کو متاثر کرتی ہے۔ دل پر چھوٹے عضلات جسم کے مختلف افعال کو کنٹرول کرتے ہیں۔ اس بیماری کی تشخیص سے پہلے سائنسدان صرف دماغ کو ہی جسم کا مالک خیال کرتے تھے۔ بیسویں صدی کے آغاز پر " اے ایل ایس " کا پہلا مریض سامنے آیا تو پتہ چلا جسمانی سرگرمیوں کا مرکز صرف دماغ نہیں دل بھی ہے۔
دل کے عضلات " موٹرز " کہلاتے ہیں۔اگر یہ ”موٹرز“ مرنا شروع ہو جائیں تو جسم کے تمام اعضا ایک، ایک کر کے ساتھ چھوڑنے لگتے ہیں۔ انسان خود کو آہستہ آہستہ موت کی وادی میں اترتا محسوس کرتا ہے۔ اے ایل ایس کے مریض کی زندگی دو سے تین سال کی مہمان ہوتی ہے، ابھی تک اس کا کوئی علاج دریافت نہیں ہو سکا۔
ہاکنگ 21 سال کی عمر میں اس بیماری کا شکار ہوئے۔ پہلے انگلیاں مفلوج ہوئیں، پھر ہاتھ، بازو، بالائی دھڑ، پاﺅں، ٹانگیں اور آخر میں زبان بھی ساتھ چھوڑ گئی۔ 1965ء میں وہ وہیل چیئر تک محدود ہو کر رہ گئے۔ اس کے بعد گردن دائیں جانب ڈھلکی اور دوبارہ سیدھی نہ ہو سکی۔ وہ خوراک اور واش روم کیلئے بھی دوسروں کے محتاج ہو گئے۔ ان کا پورا جسم مفلوج ہوگیا، صرف پلکوں میں زندگی کی رمق باقی تھی، جی ہاں اسٹیفن صرف پلکیں ہلا سکتے تھے۔
طبی ماہرین نے 1974ء میں ہاکنگ کو " الوداع" کہہ دیا لیکن اس عظیم انسان نے شکست تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ مفلوج جسم کے ساتھ اسٹیفن نے اپنی نیم مردہ پلکوں پر ہی زندہ رہنے، آگے بڑھنے اور عظیم سائنسدان بننے کا خواب دیکھا۔ ویل چیئر پر بیٹھے اس شخض نے کائنات کے رموز کھولے تو دنیا حیران رہ گئی۔ کیمبرج کے سائبر ماہرین نے ہاکنگ کیلئے ”ٹاکنگ“ کمپیوٹر ایجاد کیا۔کمپیوٹر ویل چیئر پر لگا دیا گیا، یہ کمپیوٹر ہاکنگ کی پلکوں کی زبان سمجھتا ، اسٹیفن اپنے خیالات پلکوں سے کمپیوٹر پر منتقل کرتے ۔ خاص زاویے، توازن اور ردھم کے ساتھ ہلتی پلکیں کمپیوٹر کی اسکرین پر لفظ ٹائپ کرتی جاتیں، ساتھ ساتھ اسپیکر یہ الفاظ نشر بھی کرتا رہتا ۔ اسٹیفن ہاکنگ واحد انسان تھے جو اپنی پلکوں سے بولتے اور پوری دنیا سنتی تھی۔
اسٹیفن نے پلکوں کے ذریعے بے شمار کتابیں لکھیں، ”کوانٹم گریویٹی“ اور کائناتی سائنس (کاسمالوجی) کو نیا فلسفہ اور نئی زبان دی۔ ان کی کتاب ”اے بریف ہسٹری آف ٹائم“ نے پوری دنیا میں تہلکہ مچا دیا تھا، یہ کتاب 237 ہفتے دنیا کی بیسٹ سیلر کتاب رہی جسے "ادبی شاہکار" کی طرح خریدا اور پڑھا گیا۔
ہاکنگ نے 1990ءکی دہائی میں منفرد کام شروع کیا۔ مایوس لوگوں کو زندگی کی خوبصورتی پر لیکچر دیئے۔ دنیا کی بڑی بڑی کمپنیاں، ادارے اور فرمز اسٹیفن کی خدمات حاصل کرتیں، انہیں ویل چیئر سمیت سیکڑوں، ہزاروں افراد کے سامنے اسٹیج پر بٹھا دیا جاتا اور وہ کمپیوٹر کے ذریعے لوگوں سے مخاطب ہوتے تھے۔
" اگر میں اس معذوری کے باوجود کامیاب ہو سکتا ہوں، اگر میں میڈیکل سائنس کو شکست دے سکتا ہوں، اگر میں موت کا راستہ روک سکتا ہوں تو تم لوگ جن کے سارے اعضاء سلامت ہیں، جو چل سکتے ہیں، جو دونوں ہاتھوں سے کام کر سکتے ہیں، جو کھا پی سکتے ہیں، جو قہقہہ لگا سکتے ہیں اور جو اپنے تمام خیالات دوسرے لوگوں تک پہنچا سکتے ہیں وہ کیوں مایوس ہیں "۔
آئن سٹائن کے بعد دوسرے بڑے سائنس دان قراردیئے جانے والے اسٹیفن ہاکنگ 14 مارچ 2018 کو 76 برس کی عمرمیں انتقال کرگئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترتیب و پیشکش
نیرہ نور خالد