ہری ونش رائے بچن ہندی کے ممتاز شاعر اور بالی وڈ کے میگا سٹار امیتابھ بچن کے والد تھے۔
ہری ونش بچن اتر پردیش میں الہ آباد کے قریب پرتاب نگر میں میں پیدا ہوئے۔ اعلیٰ تعلیم الہ آباد یونیورسٹی اور بنارس ہندو یونیورسٹی سے حاصل کی۔ بچّن جی سنہ 1940ء میں کیمبرج یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کرنے والے پہلے ہندوستانی تھے۔
ایک زمانے میں جب اردو کے ممتاز شاعر فراق الہ آباد یونیورسٹی کے انگریزی کے شعبے کے سربراہ تھے، بچّن جی اسی شعبے میں انگریزی ادب کے پروفیسر رہے۔ انھوں نے شیکسپیئر کے المیہ ڈراموں کا ہندی میں ترجمہ کیا تھا۔ ہندی شاعری میں ان کی طویل نظم ’مدھو شالا‘ بہت مقبول ہے۔
سنہ 1967ء میں میں ہری ونش بچّن کو ہندی زبان کی ترویج و ترقی کے لیے ان کی خدمات کے اعتراف میں بھارتی پارلیمان کے ایوانِ بالا کے لیے نامزد کیا گیا۔
سوانح
ہری ونش بچن 27 نومبر 1907ء کو الہ آباد میں پیدا ہوئے اور وہیں ان کی ابتدائی تعلیم ہوئی۔ اعلیٰ تعلیم انہوں نے الہ آباد یونیورسٹی اور بنارس ہندو یونیورسٹی سے حاصل کی۔ 1929ء میں الہ آباد یونیورسٹی سے بی۔ اے پاس کیا۔ 1930ء میں انگریزی میں ایم۔ اے سال اول کا امتحان پاس کیا اور موہن داس گاندھی کی ستیہ گرہ تحریک سے متاثر ہو کر جنگ آزادی میں شامل ہو گئے۔ اس زمانے میں انہوں نے کئی دیش بھگتی ترانے لکھے جو بے حد مقبول ہوئے۔ ایم اے 1938ء میں مکمل کیا۔
اس درمیان میں انگریزی اخبار "پائنیر" (Pioneer) میں ضلع عدالتوں کے نمائندے کے طور پر ملازمت کر لی۔ یہ مصروفیت بہت تھکا دینے والی تھی بالآخر استعفی دے کر ہندی ماہنامہ "ابھیودی" کے مینجر بن گئے۔ 1941ء سے 1952ء تک الہ آباد یونیورسٹی میں انگریزی کے استاد رہے اور بعد میں ریسرچ کے سلسلے میں کیمبرج یونیورسٹی گئے اور وہاں سے بیٹس کی شاعری پر 1954ء میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری لی۔ کچھ دنوں آکاش وانی میں پروڈیوسر رہے اور اس کے بعد 1955ء میں وزارت خارجہ میں OSD مقرر ہو گئے جہاں تقریباً دس برس کام کیا۔
ہندی شاعری کے اسٹیج پر بچن کی آمد 1953ء میں صرف 28 برس کی عمر میں ہوئی۔ پہلی مرتبہ انہوں نے اسٹیج پر عمر خیام کی رباعیات کی طرز پر اپنی معرکہ آرا تصنیف "مدھو شالا" (1935ء) پیش کیا۔
شراب و ساقی اور جام و مینا کے تلازمے چونکہ ہندی شاعری کے لیے یکسر نئے تھے اس لیے مدھو شالا کو ادبی دنیا میں زبردست مقبولیت، شہرت اور پزیرائی حاصل ہوئی اور اس نئے بچن کو کم سنی ہی میں ہندی کے بڑے شاعروں کی صف میں لا کھڑا کیا۔
اس کے علاوہ "مدھو بالا" (1936ء) اور "مدھو کلش" (1937ء) بھی ان کی ابتدائی تخلیقات ہیں۔
بچن کا طرز تحریر، ان کی زبان کی سادگی اور قوت اظہار نے عوام میں کافی مقبولیت حاصل کی۔
بچن انگریزی ادبیات کے شناور تھے۔ 1966ء میں ان کی ادبی خدمات کے اعتراف میں انہیں راجیہ سبھا کی رکنیت سے نوازا گیا۔ اسی سال "64 روسی کویتائیں" کتاب کے لیے سوویت لینڈ نہرو ایوارڈ ملا۔ 1969ء میں "دو چٹانیں" پر ساہتیہ اکیڈمی اعزاز ملا۔ اس کے علاوہ پدم بھوشن (1976ء)، افرو ایشین رائٹرز کا لوئس انعام (1970ء) اور سرسوتی سمان (1992ء) سے بھی نوازا گیا۔
اپنے طویل ادبی سفر میں بچن کے تقریباً 30 شعری مجموعے شائع ہوئے۔ وہ کم و بیش 47 کتابوں کے مصنف ہیں۔
انہوں نے اوتھیلو اور ہملیٹ، عمر خیام کی رباعیوں اور روسی کویتاؤں کا بھی ہندی میں ترجمہ کیا۔ تذکرے لکھے، مقالے تحریر کیے۔ مذکورہ فہرست کی آخری چار کتابیں بچن کی انوکھی اور بے مثال خودنوشت ہیں۔ انہیں ہندی ادب میں میل کا پتھر تسلیم کیا جاتا ہے۔
اس کے علاوہ جب بچن ریسرچ کے سلسلے میں لندن میں تھے تو انہوں نے "ہرواس کی ڈائری" (1971ء) کے نام سے ایک ضخیم کتاب ترتیب دی تھی جس میں برطانیہ میں گزارے گئے ان کے ماہ و سال اور وہاں کے علمی و ادبی ماحول کی خوبصورت تصویر کشی ہے۔ یہ ہندی کی ایک انوکھی اور بے مثال خودنوشت ہے۔ جال سمٹنا (1973ء) ان کی آخری کتاب ہے۔
ہری ونش بچن نے 18 جنوری 2003ء کو ممبئی میں طویل علالت کے بعد انتقال کیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تخلیقات
دو چٹانیں، شعر
دھار میں ادھر ادھر، شعر
نشانمترن (1938ء)، شعر
آکل انتر (1943ء)، شعر
اکانت سنگیت (1939ء)، شعر
ملن یامنی(1950ء) ، شعر
سترنگی، شعر
ہلاہل، شعر
تری بھنگیما، شعر
بنگال کا کال
پرنے پتریکا
کھادی کے پھول
بودھ اور ناچ گھر (1958ء)
ٹوٹی چھوٹی کڑیاں (1973ء)
کیا بھولوں کیا یاد کروں (1969ء)
نیڑھ کا نرمان (1970ء)
بسیرے سے دور
دش دوار سے سوہان تک
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انتخاب و پیشکش:
نیرہ نور خالد