ٹوکسُور ییلِہ گژھِ شِیشوین پنجرن
ادہ ہے نیرن سأنی ارمان
بالن یورء ییلہ شین گلِہ
ادہ ہے نیرن سأنی ارمان
" جب پنجرے توڑے جائیں گے، تو ہمارے خواب سچ ہوں گے، جب برف پہاڑوں پر سے پگھل جائے گی، تو ہمارے خواب سچ ہو جائیں گے " (مقبول بٹ)
یہ ایک خالی قبر کی کہانی ہے۔ اس قبر پر ایک بڑا سا کتبہ بھی نصب ہے۔ کتبے پر ایک نام بھی کندہ ہے لیکن جس کے نام پر یہ قبر بنائی گئی اس کے وجود سے اس قبر کو محروم رکھا گیا۔
یہ ایک ایسے انسان کی کہانی ہے جسے موت کے بعد بھی ایک جیل میں قید کر دیا گیا اور اس کی قبر کو اُس کے تابوت کا انتظار ہے۔ یہ صرف ایک خالی قبر کی نہیں بلکہ ایک تابوت کی قید کی کہانی ہے۔ یہ ایک خوفزدہ ایٹمی ریاست کی مضبوط فوج کی شکست کی کہانی ہے، جو صرف زندہ انسانوں کو نہیں مردہ انسانوں کو بھی قید میں رکھتی ہے۔
یہ شہیدِ کشمیر مقبول بٹ کی کہانی ہے، جنہیں گیارہ فروری 1984ء کو دہلی کی تہاڑ جیل میں پھانسی دے کر اسی جیل کے اندر دفن کر دیا گیا۔
بھارت کی ظالم ریاست نے مقبول بٹ کے جسم کو اپنی جیل میں دفن کر کے دراصل مسئلہ کشمیر کو دفن کرنے کی کوشش کی لیکن بھارتی ریاست کا یہ ظلم مقبول بٹ کی کامیابی بن گیا۔
مقبول بٹ کی پھانسی مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارتی جبر و استبداد سے آزادی کی ایک نئی تحریک کا آغاز بن گئی۔ یہ ایک خالی قبر نہیں بلکہ طویل ریاستی جبر کی کہانی ہے۔ سچائی ہمیشہ تلخ ہوتی ہے اور مقبول بٹ کی کہانی ایک نہیں بلکہ دو ریاستوں کے ظلم سے متعلق تلخ سچائیوں سے بھری پڑی ہے۔ ایک طرف ظالم تھے، دوسری طرف دھوکے باز حکمران۔ مقبول بٹ نے دونوں کے زخم کھائے لیکن اپنی اگلی نسل کو یہ پیغام دیا کہ پاکستانی حکمرانوں نے کشمیریوں سے دھوکے کئے لیکن پاکستان کے عوام پر ہمیشہ اعتماد رکھنا شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ مقبول بٹ کو جب بھی پاکستانی ریاست نے قید میں ڈالا تو پاکستان کے عوام اُن کی رہائی کے لئے آواز اٹھاتے اور پاکستان کی عدالتیں انہیں رہا کر دیتیں۔
مقبول بٹ کی کہانی پاکستان کے عوام سے اُن کی محبت اور وفا کی کہانی ہے۔ اس کہانی کا آغاز 18؍فروری 1938ء کو ریاست جموں و کشمیر کے ضلع کپواڑہ کی تحصیل ہندواڑہ کے ایک چھوٹے سے گاؤں تریہگام میں ہوا، جہاں ایک غریب کسان غلام قادر بٹ کے گھر میں مقبول بٹ ؒ نے جنم لیا۔ آپ کی والدہ 1949ء میں اس وقت وفات پا گئیں جب آپ صرف گیارہ برس کے تھے اور گاؤں سے ملحقہ اسکول جاتے تھے۔ آپ کے والد نے ان کی وفات کے بعد دوسری شادی شاہ مالی بیگم سی کی، جن سے ان کے مزید دو بیٹے منظور احمد بٹ ظہور احمد بٹ جبکہ تین بیٹیاں ہیں۔
مقبول بٹ کا بچپن ڈوگرہ عہد کی آخری دہائی میں گزرا اس وقت ریاست جموں کشمیر میں جاگیردارانہ نظام تھا گرچہ ریاست میں عوامی رائے کو ترجیح دینے کا آغاز ہو چکا تھا مگر اس کو پایہ تکمیل تک پہنچنے کے لیے ابھی وقت درکار تھا۔ اگر یہ کہا جائے کہ کم عمری سے ہی مقبول بٹ نے ظلم، جبر اور قبضہ کے خلاف برابری، آزادی اور سماجی انصاف کے لیے جدوجہد شروع کر دی تھی تو بے جا نہ ہو گا۔
12 اپریل 1972ء کو لاہور سے اپنی قید کے دوران معروف آزادی پسند اور مقبول بٹ کے رفیق فی ایم میر کی بیٹی عذرا میر کو لکھے گئے ایک خط میں مقبول بٹ نے اپنے بچپن کا واقعہ بیان کرتے ہوئے لکھا کہ:
" یہ شاید 1945/46 کا زمانہ تھا جب خراب موسم کی وجہ سے فصل اچھی نہ ہو سکی۔ تو کسان لگان دینے کی حیثیت میں نہیں تھے جتنا کہ جاگیر دار مطالبہ کر رہے تھے جس کی نتیجے میں ایک روز جاگیردار خود گاؤں میں آ گیا۔ اس نے غریب کسانوں کے گھروں اور غلہ خانوں پر چھاپہ مارا اور سارا غلہ اٹھا لیا۔ کسانوں نے جاگیردار کی منت سماجت کی لیکن اس نے کسانوں کی ایک نہ مانی نتیجتا کسانوں نے اپنے بچوں کو جاگیردار کی گاڑی کے آگے لیٹنے کا کہا مقبول بٹ انہی بچوں میں سے ایک تھے۔"
ایسا ہی ایک اور واقعہ جو ان کے چھوٹے بیٹے شوکت مقبول بٹ نے بیان کیا ہے کہ:
"اس زمانے میں سماجی کلاس کا نظام بہت طاقتور تھا لوگ کو سماجی تقسیم کی بنیاد پر ہی پرکھا جاتا ہے۔ ایک دفعہ اسکول میں کسی فنکشن میں امیروں اور غریبوں کے لیے الگ الگ بیٹھنے کا انتظام کیا گیا تھا مقبول بٹ کی انعام لینے کی باری آئی تو انہوں نے انعام لینے سے منع کر دیا کہ جب تک تمام والدین اور ان کے تمام دوست ایک ساتھ نہیں بیٹھیں گے وہ انعام نہیں لیں گے نتیجتا وہاں موجود انتظامیہ کو مقبول بٹ کی یہ بات ماننی پڑی اور اس کے بعد اسی بات پر عمل کیا جاتا۔"
ان دو واقعات سے یہ اندازہ لگانا قطعی مشکل نہیں ہے کہ بٹ شہید کم شعوری میں ہی سماجی نا انصافیوں، تقسیم، سرمایہ دارانہ اور جاگیردارانہ نظام کے کس قدر خلاف تھے۔ شاید یہ وہ چند چھوٹے چھوٹے واقعات تھے جن کے اثر سے مقبول بٹ جیسا جری، نڈر بے باک اور جہد مسلسل کرنے والا عظیم رہبر خطہ کشمیر کو نصیب ہوا۔
مقبول بٹ نے بعد میں سینٹ جوزف کالج سرینگر میں داخلہ لیا اور تاریخ اور سیاسیات میں بی اے کیا۔ اپنی کالج کی تعلیم کے دوران وہ بھر پور طریقے سے سماجی معاملات اور سیاست میں حصہ لیتے رہے۔ ان کو فن تقریر پر ملکہ حاصل تھا ایسی ہی ایک تقریر سننے کے بعد کالج کے پرنسپل جارج شنکز نے کہ:
”یہ نوجوان اگر زندگی کی مشکلات سے عہدہ برا ہونے میں کامیاب ہو گیا تو ایک دن بہت بڑا آدمی بنے گا لیکن اس قسم کے لوگ اکثر سماج میں شدید ترین مشکلات کا سامنا کرتے ہیں جس قسم کی آزادی یہ نوجوان چاہتے ہیں اس کا حصول بہت مشکل ہے، نتیجتا یہ آزادی کی راہ میں قربان ہو جاتے ہیں۔ ”
عیسائی پرنسپل کے یہ الفاظ حرف بہ حرف سچ ثابت ہوئے اور مقبول بٹ نے وہ کر دکھایا جس کے بارے میں اقبال نے ہزاروں بعد نرگس کی بے نوری پر دیدہ ور ہونے کا ذکر کیا تھا۔
دسمبر 1957ء میں جب شیخ عبداللہ کو رہا کیا گیا تو بھارتی مقبوضہ جموں کشمیر میں شورش کا ایک نیا سلسلہ شروع ہوا مقبول بٹ اس وقت محاذ رائے شماری کا حصہ بن چکے تھے اور انہوں نے ان ہنگاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ شیخ عبدللہ کو دوبارہ 27 اپریل 1958ء کو گرفتار کر لیا گیا اور رائے شماری کے نوجوانوں کو بھی گرفتار کیا جانے لگا۔ اسی سال مقبول بٹ شہید نے اپنی بی اے مکمل کی۔ پولیس اُن کی تلاش میں چھاپے مارتی رہتی تھی، گرفتاری سے بچنے کے لئے 1958 میں آزاد کشمیر کی طرف اپنے چچا عزیز بٹ کے ساتھ ہجرت کی۔
پاکستان آنے کے بعد مقبول بٹ نے پہلے پنجاب یونیورسٹی سے ماسٹرز کرنے کا ارادہ کیا لیکن بوجوہ وہاں داخلہ نہیں لے سکے جس کے بعد وہ 1958ء میں پشاور چلے گئے اور پشاور یونیورسٹی سے وکالت اور صحافت کی اسناد حاصل کی۔ یہیں اُن کی دوستی اپنے عہد کے عظیم شاعر احمد فراز سے ہوئی۔
مقبول بٹ نے روزنامہ انجام پشاور سے عملی صحافت کا آغاز کیا۔ ایک اخبار بانگِ حرم میں بھی کام کیا۔ ویکلی خیبر کے نام سے ہفت روزہ انگریزی جریدہ بھی نکالا ۔ پشاور میں ہی انہوں نے راجہ بیگم سے شادی کی جن کے بطن سے جاوید مقبول بٹ اور شوکت مقبول بٹ نے جنم لیا۔ (بٹ صاحب کے بچوں میں شوکت مقبول بٹ اپنے باپ کے ورثے سےجڑے ہوئے ہیں اور ان کے مقصد کو لے کر مسلسل جدوجہد میں مصروف ہیں۔ وہ آج کل برطانیہ میں مقیم ہیں جب کہ بڑے بیٹے جاوید مقبول پشاور میں ہی مقیم ہیں۔ )
مقبول بٹ نے 1966ء میں اسکول ٹیچر ذکریہ بیگم سے شادی کی جن کے بطن سے ان کی ایک بیٹی لبنی بٹ ہیں۔ (لبنیٰ بٹ کراچی یونیورسٹی میں شعبہ انگریزی سے وابسطہ ہیں اور کراچی میں ہی مقیم ہیں)۔
مقبول بٹ میں شروع سے ہی بھارت سے آزادی حاصل کرنے کا جذبہ موجود تھا۔ وہ شروع میں علاقہ کے لوگوں کو خاموشی کے ساتھ مسئلہ کشمیر سے روشناس کراتے رہے۔ وہ لوگوں کو ایک قطار میں بٹھا کر بورڈ پر کشمیر کی لکیریں کھینچ کر انہیں غلامی کے بارے میں آگاہی دیتے تھے۔انہیں دیگر کی طرح مملکت خداداد پاکستان سے بے پناہ محبت تھی۔1958 ء کو 20 سال کی عمر میں آزاد کشمیر پہنچ گئے، ان کے دوست عبدالرشید پرے کے مطابق یہ پانچواں موقع تھا جب وہ آزاد کشمیر جانے کی کوشش میں کامیاب ہوئے ۔
ایک بار وہ 2 دوستوں کے ہمراہ جنگ بندی لائن عبور کرنے کو کوشش کررہے تھے جب انہیں بھارتی فوج نے گرفتار کر لیا، ان کی شدید مارپیٹ کی گئی۔
مقبول بٹ مظفر آبادمیں پانچ سال تک رہے۔
1962 ء میں انہوں نے تحریک کشمیر کمیٹی قائم کی۔ جس کو بعد ازاں رائے شماری فرنٹ میں ضم کردیا گیا۔
1965 ء کو انہوں نے نیشنل لبریشن فرنٹ بنائی اور مسلح جدوجہد کا آغاز کیا۔
1966 ء میں مقبول بٹ نیشنل لبریشن فرنٹ کے ساتھیوں سمیت مقبوضہ کشمیر میں داخل ہوگئے ۔بھارتی فورسز کے ساتھ جھڑپ میں ایک اہلکار ہلاک ہوا اور مقبول بٹ کو حراست میں لے لیا گیا۔ ان پر قتل کا مقدمہ چلایا گیا اور سرینگرکی عدالت نے پھانسی کی سزا سنادی۔ پھانسی کی سزا کے دو ہفتے بعد وہ جیل کی سلاخیں توڑ کرآزاد کشمیر پہنچ گئے۔
اس کے بعد جس واقعے نے این ایل ایف اور مقبول بٹ کو مزید شہرت اور عزت بخشی وہ گنگا طیارے کا اغواء تھا۔ گو آج کل مسلح کاروائیوں کو دنیا بھر کے ذرائع ابلاغ ایک دم دہشت گردی قرار دے دیتے ہیں اس وقت اسطرح کے واقعات کو ان کی وجوہات کا پتہ چلانے کے لیے دیکھا جاتا تھا کہ آخر اس قوم کا مسئلہ کیا ہے جس کے جوانوں نے جان پر کھیل کر اتنا انتہائی اقدام کیا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ 30 جنوری 1971 کو دن کے ایک بج کر پانچ منٹ پر جب ہاشم اور اشرف قریشی گنگا طیارے کو جو کہ سری نگر سے جموں کے لیے اُڑا تھا لاہور لے آئے اور کہا کہ یہ کام انہوں نے این ایل ایف کے قائد مقبول بٹ کی ہدایات اور سربراہی میں کشمیر ی جیلوں میں قید این ایل ایف کے کارکنان کی رہائی کے لیے کیا ہے تو اس سے آزادی پسند کشمیریوں کی نظروں میں وہ دوسرے کشمیری سیاستدانوں کے مقابلے میں ممتاز اور محترم حیثیت اختیار کر گئے تھے۔
اس کی تفصیلات خواجہ رفیق کی سفیر حریت میں موجود ہیں ۔ اغواء کے بعد پہلے تو ہاشم، اشرف، امان اللہ خان و مقبول بٹ وغیرہ کو ہیرو کا درجہ دیا گیا مگر پھر جلد ہی ان کو گرفتار کر کے تفتیش شروع کر دی گئی اور دسمبر 1971 میں ان پر خصوصی عدالت میں دشمن کے ایجینٹ کے جرم میں مقدمہ چلا دیا گیا۔
اس کیس میں استغاثہ کی طرف سے 1974 اور صفائی کی طرف سے 1942 گواہ پیش ہوئے ۔ اس کا فیصلہ 1973 میں ہوا جس میں ہاشم قریشی کے سواء باقی سب کو باعزت بری کردیا گیا۔ ہاشم کی سزا کے خلاف اپیل دائر کی گئی جس کی سنوائی سات سال بعد ہوئی اور اس کے چند سال بعد ان کو بھی رہا کر دیا گیا۔
اس مقدمے کے دوران مقبول بٹ نے جو عدالتی بیان جمع کروایا وہ شاید ان کی سیاست اور نظریات کو سمجھنے کا بہترین ذریعہ ہے اور کشمیر کی قومی آزادی ، این ایل ایف اور مقبول بٹ کی جدوجہد کو سمجھنے کے طالب علموں کے لیے لازمی قرار پاتا ہے۔
اس میں سے صرف ایک مختصر سا اقتباس یہاں نقل کیا جا رہا ہے :
" میں بغیر کسی ہچکچاہٹ سے کہہ سکتا ہوں کہ میں نے نہ تو کوئی سازش تیار کی ہے اور نہ سازشیوں کے کسی ٹولے کا کبھی حصہ رہا ہوں۔ میرا کردار ہمیشہ صاف و شفاف رہا ہے۔ تاہم میں ایک کام کیا ہے اور وہ ہے جہالت، دولت پسندی، استحصال، جبر ، غلامی اور منافقت کے خلاف بغاوت۔ اگر پاکستان کے حکمران طبقات جو سامراج کی پیداوار ہیں اور اس ملک میں جن کی نمائندہ سول نوکر شاہی اور فوجی آمریت ہیں اگر اس کو سازش گردانتے ہیں تو پھر مجھے یہ الزام قبول کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں "
یوں تو گنگا مقدمے کا ہر ایک پہلو تحقیقی دلچسپی کے کئی ایک پہلو لیے ہوئے ہے اور اس کا ایک ایک لفظ شائع ہو کر کشمیر، بھارت اور پاکستان کے اندر سماجی شعور، تبدیلی اور ترقی کے طالبعلموں کے سامنے آنا چاہیے، مگر ایک افسوسناک دلچسپی کا پہلو یہ تھا کہ اس میں ملزمان کو اپیل کا حق حاصل نہیں تھا۔
بقول میر قیوم اس بارے میں جب عبدالخالق انصاری جو محاذ کے صدر اور پیشے کے اعتبار سے ایک منجھے ہوئے وکیل تھے نے جب پاکستان کے وزیر قانون محمود علی قصوری سے استفسار کیا تو وزیر موصوف نے فرمایا کہ بھلا دنیا میں کہیں کبھی سپریم کورٹ کے فیصلے کےخلاف اپیل کا حق دیا جاتا ہے؟ جواب میں انصاری صاحب نے پوچھا محترم کیا دنیا میں کہیں سپریم کورٹ کو ٹرائل کورٹ کے طور پربھی استعمال کیا جاتا ہے؟
بقول میر قیوم گنگا ملزمان کو اپیل کا حق صرف اس وقت دیا گیا جب برطانوی کشمیریوں نے برطانیہ کے دورے پر جانے والے پاکستانی وزراء پر واضع کیا کہ جو غیر قانونی ہتکھنڈے کشمیری حریت پسندوں کے خلاف استعمال کیے جارہے ہیں اگر بند نہ کیے گئے تو عالمی سطح پر ان کو بے نقاب کیا جائے گا۔
تاہم جب اپیل کا یہ حق استعمال کرتے ہوئے ہاشم قریشی کی سزا کے خلاف اپیل دائر کی گئی تو اس کی سنوائی کی باری آنے میں سات سال کا عرصہ بیت گیا۔
اس مقدمے کے دوران جاری رکھے جانے والے تشدد، جبر اور پاکستان کی سازشوں کے باعث این ایل ایف ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گیا اور محاذ رائے شماری کو بھی بہت بڑا دھچکہ لگا۔
مئی 1973ء میں رہا ہونے کے بعد مقبول بٹ نے محاذ رائے شماری اور این ایل ایف کو دوبارہ منظم کرنا شروع کیا۔ رہائی کے بعد منگلا قلعہ میں وزیرِاعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹو نے آپ کے ساتھ مذاکرات کئے اور آپ کو پیشکش کی کہ آپ پیپلز پارٹی میں شامل ہو جائیں۔ بھٹو نے آپ کو آزادکشمیر کی وزارتِ عظمیٰ دینے کا وعدہ کیا۔ مگر جواب میں آپ نے کہا؛ ”ہماری منزل آزادکشمیر کی وزارتِ عظمیٰ نہیں بلکہ کشمیر کی مکمل آزادی اور خود مختاری ہے“۔
آپ نے بھٹو کی پیشکش کو ٹھکرا دیا اور اعلان کیا کہ آپ عوام سے فیصلہ لیں گے۔ چنانچہ محاذ رائے شماری نے 1975ء کے انتخابات میں حصہ لیا۔ مگر بھٹو نے فرشتے مقرر کر کے اپنے من پسند نتائج حاصل کئے۔
مقبول بٹ نے آزادکشمیر اسمبلی کے 1975ء کے انتخابات میں دو نشستوں سے انتخابات میں حصہ لیا مگر بھٹو نے نہ صرف آپ کو بلکہ محاذ کے تمام امیدواروں کو ہرا دیا اور اپنی مرضی کے نتائج مرتب کئے۔ آزادکشمیر کی سیاست سے مایوس ہو کر مئی 1976ء میں آپ کچھ ساتھیوں کو لے کر پھر جنگ بندی لائن عبور کر کے بھارتی مقبوضہ کشمیر چلے گئے۔ مگر چند دن بعد ہی آپ کو گرفتار کر لیا گیا۔ اور سابقہ مقدمے کی فائل دوبارہ کھول دی گئی۔
عدالت نے آپ کی سزائے موت کو برقرار رکھا یوں آپ کو سرینگر سے تہاڑ جیل دہلی منتقل کر دیا گیا۔
جنرل ضیاءالحق کا دور آیا تو اُن کے وزیر خارجہ آغا شاہی اُنہیں کشمیر میں تحریک آزادی کی مدد کا مشورہ دیتے تھے لیکن جنرل ضیاء یہ مشورہ نظر انداز کر دیتے کیونکہ وہ امریکہ کے ہمراہ افغانستان میں مصروف تھے۔ اس دوران 1984ء میں بھارت نے سیاچن کی چوٹیوں پر قبضہ کر لیا تو جنرل ضیاء کی آنکھیں کھلیں۔
فروری 1984ء کے پہلے ہفتے میں چند کشمیری نوجوانوں نے برطانیہ کے شہر برمنگھم میں بھارتی قونصل خانے کے ایک کلرک رویندرا مہاترے کو اغوء کر کے مقبول بٹ کی رہائی کا مطالبہ کیا مگر تین دن بعد ہی مہاترے کی لاش ایک کھیت سے ملی۔ بھارتی حکومت نے فی الفور مقبول بٹ شہید کو پھانسی دینے کا اعلان کر دیا۔ میاں سرور، مظفر بیگ، ظفر معراج اور کپل سیبل نے مقبول بٹ کو بچانے کی کوشش کی لیکن ناکام رہے۔
سچ یہ ہے کہ بھارتی سپریم کورٹ نے ردعمل میں مشتعل ہو کر بھارتی عوام کی نام نہاد تسکین کے لئے مقبول بٹ کو پھانسی دی۔ اسی عمل کو دہائیوں بعد افضل گورو کو پھانسی دے کر دہرایا گیا۔ مقبول بٹ کو بھارتی عدالت نے انتقامی کارروائی کا نشانہ بنایا۔6 فروری 1984 کو برطانیہ میں بھارتی سفارتکار کو قتل کرنے کے صرف 5 دن بعد 11 فروری 1984 کو مقبول بٹ کو پھانسی دی گئی۔
مقبول بٹ کے آخری الفاظ تھے:
”مجھے کل پھانسی دے دی جائے گی اور مجھے کوئی پچھتاوا نہیں۔ میں اپنے لوگوں سے محبت کرتا ہوں اور مجھے یقین ہے کہ ریاست جموں کشمیر کے لوگ اس سچائی اور حق کو جان جائیں گے جن کے لئے میں ان تمام سالوں میں لڑتا رہا اور جس کے لئے میں آج خود کو قربان کر رہا ہوں۔ “
ان کی پہلی اور اخری محبت کشمیر تھی۔
بظاہر مقبول بٹ کو سی آئی ڈی پولیس افسر کو قتل کرنے کے الزام میں پھانسی کی سزا سنائی گئی تھی لیکن حقیقت میں یہ پھانسی سیاسی وجوہات پر تھی۔
مقبول بٹ کو آزادی کا مطالبہ اور جدوجہد کرنے پر پھانسی دی گئی۔
11 فروری 1984 ء کو بھارت نے مقبول بٹ کو بدنام زمانہ جیل تہاڑ میں پھانسی پر لٹکایا۔ ان کا جسد خاکی آج بھی جیل میں قید ہے۔ مطالبات اور مظاہروں کے باوجود جسد خاکی کو تدفین کیلئے کشمیریوں کو نہیں دیا جا رہا ہے۔شہیدکے تدفین کیلئے مزار شہداء سرینگر اور ترہگام میں قبریں تیار رکھی گئی ہیں۔لیکن بھارتی حکمران ان کی جسد خاکی کشمیریوں کو دینے میں ڈر و خوف میں مبتلا ہیں۔ دہلی کی بدنام زمانہ تہاڑ جیل کے اندرمقبول بٹ کی قبر پراب عمارت تعمیر کر لی گئی ہے اور قبر کو شہید کردیا گیا ہے۔ اس انکشاف پر کشمیر میں کافی ہنگامہ ہوا۔
مقبول بٹ تحریک آزادی کی علامت۔تختہ دار پر چڑھ گئے لیکن ضمیر کا سودا نہ کیا ۔اپنی جان کی قربانی دے کرثابت کیا کہ وہ دوسروں کو جہاد کی تلقین کر نے کے بعد اپنے مفادات اور مراعات کے غلام نہ بنے۔اگر ایسا ہوتا تو آج نہ تو ان کا نام عزت و احترام سے لیا جاتا اور نہ ہی وہ آزادی پسندوں کے لئے رول ماڈل بنتے۔
مقبول بٹ کے انتہائی قریب رہنے والوں سے گفتگو کریں یا ان کے گاؤں ترہگام میں ان کے قریبی عزیز و اقارب سے احوال پوچھیں یاان کا آبائی رہائشی مکان دیکھیں۔تو حقیقت خود بیان اور عیاں ہوتی ہے۔سچ یہ ہے کہ وہ کشمیریوں کے ہیرو ہیں۔کوئی ان کی جگہ نہیں لے سکتا۔افضل گورو شہید اور برہان وانی شہید سمیت تمام شہدا کا اپنا مقام ہے۔مسلمان کا سب سے بڑا رول ماڈل آقائے نامدار حضرت محمد ﷺ ہیں۔لیکن کشمیر نبی کریم صلی الله عليه وسلم کے امتی مقبول بٹ کا بھی احسان مند ہے۔ جنھوں نے نئی نسل کو نئی راہ دکھائی۔
مقبول بٹ ایک غیرت مندکشمیری تھا ۔جس نے آنکھیں غلامی میں کھولیں اوراپنے گرد وپیش میں ہر کسی کو بھارتی مظالم سہتے پایا۔ اپنے ہم وطنوں کی آہ وپکارسنی اور ان کے درد پر آہیں بھرنے اورخون کے آنسو بہانے کے بجائے کچھ کرنے کا عہدکیا، دنیا میں خود تکلیف میں مبتلا ہو کر دوسروں کو آرام دینے والوں کی تعداد کم رہی ہے۔لیکن مقبول بٹ کا تخت و تاج کو ٹھکرا کر تختہ پر لٹک جانا منفرد بات ہے۔انہیں آزاد کشمیر کا صدر بنانے کی پیشکش بھی ہوئی تھی۔لیکن ان کے سامنے اس کی کوئی اہمیت نہ تھی۔ کیوں کہ وہ اپنے لئے نہیں ، قوم کے لئے جینے کا جذبہ رکھتے تھے۔
لاتعداد کشمیری انہیں اپنا نظریاتی لیڈر قرار دیتے ہیں اور انہیں جدوجہد آزادی کا بانی سمجھا جاتا ہے۔
آزادی پسند مقبول بٹ کی پھانسی کو حراستی قتل قرار دیتے ہیں کیونکہ مقبول بٹ کے خلاف چلنے والے مقدمے کی غیر جانبدارانہ اور آزادانہ سماعت نہیں کی گئی۔ سی آئی ڈی افسر کو مقبول بٹ کے ساتھی نے گولی مار کر ہلاک کیا لیکن پھانسی مقبول بٹ کو دی گئی۔
مقبول بٹ کے وکیل اور مقبوضہ کشمیر کے سابق نائب وزیر اعلیٰ مظفر حسین بیگ نے اعتراف کیا کہ مقبول بٹ کی پھانسی انتقامی قتل تھا۔ پھانسی سے قبل قانونی ضابطے وتقاضے پورے نہیں کئے گئے۔
قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ جموں وکشمیر ہائی کورٹ نے پھانسی کی توثیق نامے پر دستخط نہیں کئے تھے لیکن بھارتی سپریم کورٹ نے انہیں پھانسی دیدی۔سابق وزیراعلیٰ مقبوضہ کشمیر فاروق عبداﷲ ہیں جنہوں نے مقبول بٹ کے ’’ ڈیتھ وارنٹ‘‘ پر دستخط کئے۔
فاروق عبداﷲ نے ایک بار خود میرپور میں لبریشن فرنٹ کے جلسے میں شرکت کی تھی اور کشمیر کی آزادی کیلئے جدوجہد کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ بھارت کو اندازہ نہیں کہ شدید مظالم، نسل کشی، قتل عام، زیادتیوں، آتشزنی اور انسانی حقوق کی شدید خلاف ورزیاں کشمیریوں کو جھکانے اور جدوجہد آزادی ترک کرنے پر آمادہ نہ کرسکیں۔
بھارت نے ایک مقبول بٹ کو پھانسی دے کر ہزاروں مقبول بٹ پیدا کرلئے ہیں۔ جو قومیں نظرئیے اور اصولوں کی بنیاد پر اتحاد واتفاق کا مظاہرہ اور قربانیاں پیش کرنے والوں کو یاد نہیں کرتیں،ان کے نقوش تاریخ کے اوراق سے مٹ جاتے ہیں۔مقبول بٹ نے کشمیریوں کو آزادی کا جو پیغام دیا۔ وہ بھارت کو پریشان کرتا رہے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بشکریہ عدیل الرحمان
انتخاب و پیشکش : نیرہ نور خالد