کہا جاتا ہے کہ ہر آدمی اپنے قتل کا ذمیدار خود ہوتا ہے، ایک بزدل شوہر جس میں قوت فیصلہ کی کمی تھی اُس کے عبرتناک انجام کا واقعہ
میں مُلک سے باہر تھا کہ ایک دن میرے فیس بُک پر ایک خاتون کا میسج آیا کہ میں آپ سے ملنا چاہتی ہوں آپ سے ایک مدد درکار ہے، میں نے خاتوں کو بتایا کہ میری واپسی فلاں تاریخ پر ہے آپ اُس کے ایک دن بعد مجھ سے میرے دفتر میں مل سکتی ہیں اور خاتوں نے میرا فون نمبر مانگا جو میں نے اُس کو دے دیا
میری واپسی پر خاتوں طے شُدہ وقت پر میرے دفتر آگئیں وہ ایک 22/23 سالہ خوش شکل پڑھی لکھی اور مالدار لڑکی تھی وہ اپنے ساتھ دو Apple آئی فون اور کچھ پرفیوم وغیرہ تحفتن ساتھ لائی تہیں جیسا کہ میں ایسے لوگوں سے احتیاط کرتا تھا مگر لڑکی کے اصرار پر میں نے تحائف رکھ لیئے۔ اور ساتھ میں لڑکی کو کہ دیا کہ آپ کی جائز مدد تو ان تحفوں کے بغیر بھی ہو سکتی ہے مگر ناجائز مدد کسی بھی صورت میں ممکن نہیں ہے۔
میں نے لڑکی سے کام کے متعلق پوچھا کہ اُس کی میں کیا مدد کرسکتا ہوں ؟ تو لڑکی نے بتایا کہ میرا شوہر آپ سے ملنا اور بات کرنا چاہتا ہے اور بہتر یہ ہوگا کہ آپ ڈفینس میں اُن کے گھر رات کا کھانا ان کے ساتھ کھائیں ، میں نے لڑکی کو صاف لفظوں میں بتایا کہ کراچی میں سیکورٹی کی وجہ سے یہ ممکن نہیں ہے باقی آپ کسی بھی وقت اپنے شوہر کے ساتھ دفتر آسکتی ہیں، جیساکہ لڑکی قیمتی تحائف ساتھ لائی تہیں اس لیئے میں لڑکی کو چھوڑنے دفتر کے باہر تک آیا۔ لڑکی نئے ماڈل کی Vitz کار میں اکیلی آئی تھی ۔
یہاں یہ بات بتانا ضروری ہے تحفے دینا ایک شکاری کا جال ہوتا ہے اور لڑکی پہلی ملاقات میں پانچ لاکھ سے زائد تک کے تحفے لائی تھی لہاذہ اُس کا کام بھی اُسی نوعیت کا ہوگا، یہاں یہ بھی آپ کو بتانا ضروری ہے کہ کراچی میں لوگ لین دین کے معاملات میں پولیس کو ایک ٹول کے طور استعمال کرنے کی کوششش کرتے ہیں اور میں ذہنی طور تیار تھا کہ مجھے اس لڑکی کی کس حد تک مدد کرنی ہے۔
دو دن بعد لڑکی کا فون آیا کہ میں اور میرا شوہر آپ کے پاس آنا چاہتے ہیں میں نے اُن کو اجازت دے دی کہ آپ لوگ آ سکتے ہیں۔ لڑکی کا شوہر ہارون ایک خوش شکل اور کاروباری نوجوان تھا اور اُس نے بتایا کہ اُس کا فروٹ کے Export کا کافی بڑا کاروبار ہے اور سالانہ 20/25 کروڑ کمالیتا ہے اور ڈفینس میں دو ہزار گز کے بنگلہ میں رہائش پزیر ہیں ( دو ہزار گز کا مطلب 50 کروڑ کا گھر) اُس دن بھی لڑکی خالی ہاتھ نہیں آئی تھی ، میں اُن کو مطلب کی طرف لے آیا اور پوچھا کہ میں اُن کی کیا مدد کر سکتا ہوں ؟
میری توقعات اور تجربے کے برعکس لڑکی کے شوہر ہارون نے جو کچھ بتایا سچ پوچھیں میرے پیروں کے نیچے زمین سرکتی محسوس ہوئی
واقعات کچھ اس طرح ہیں کہ لڑکی کا شوہر کاروبار کے سلسلے میں کبھی مُلک سے باہر یا کبھی شہر سے باہر ہوتا تھا، لڑکی ایک دفعہ طارق روڈ پر کار دھلانے کیلئے گئی وہاں کار دھونے والے لڑکے سے باتون باتون میں اُس کی دوستی ہوگئی اور پہر روزانہ لڑکی گھر سے نکلتی اور طارق روڈ سے لڑکے کو ساتھ لیتی اور سارا دن وہ ساتھ پھرتے رہتے اسی دوران کار دھونے والے لڑکے نے پہلے لڑکی کو شراب کا عادی بنایا اور بعد میں لڑکی کو مارفین کے انجیکشن کے نشے پر لے آیا، لڑکی کے بینک اکاونٹ میں دو کروڑ سے زائد رقم تھی جو اُس نے نشے اور عیاشی میں اُڑا دیئے اور زیادہ تر رقم لڑکے کو “ادھار” کے مد میں دے چُکی تھی۔
لڑکی کے شوہر ہارون کو جب کچھ پیسوں کی ضرورت پیش آئی تو لڑکی کے بینک میں کچھ بھی نہیں تھا شوہر نے جب اُس پر باز پرس کی تو لڑکی نے سارا سچ اُگل دیا
میں حیرت سے کبھی لڑکی کو اور کبھی اُس کے شوہر کے چہرے کو دیکھ رہا تھا یہ سب کچھ میرے لیئے عجیب تھا کہ کیا ایک مرد میں اتنی برداشت ہوتی ہے ؟ ایسے معاملات تو عین وقت پر قتل یا طلاق پر ختم ہوتے ہیں ۔
میرے ایک سوال کے جواب میں لڑکی نے بتایا کہ اُس کا ایک چار سالہ بیٹا بھی ہے اس کے شوہر کا کہنا تھا کہ میں کار دھونے والے لڑکے کو کسی کیس میں بند کردوں تاکہ وہ دو چار سال تک باہر نہ آئے اور اس کیلئے وہ ہر قیمت دینے کو تیار تھا۔
میں نے لڑکی کے شوہر سے اس کا فون نمبر لے لیا اور اُن کو کہا کہ میں اس کا کوئی حل سوچ کر آپ کو فون کروں گا شوہر نے کہا آپ میری بیوی سے رابطہ کر لیجئے گا
لڑکی روز فون کرتی کہ کیا ہوا ؟ سچ یہ ہے کہ میں لڑکی سے نفرت کرنے لگا تھا اور مزید اُس سے بات نہیں کرنا چاہتا تھا۔ لڑکی دوہرا کھیل کھیل رہی تھی شوہر کے سامنے سچی بن رہی کہ میں لڑکے سے پہنس گئی ہوں اور لڑکے کے جیل جاتے ہی سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔
کچھ دن بعد میں نے لڑکی کے شوہر کو فون کرکے اپنے دفتر بُلوالیا اور اُس کو بتایا کہ لڑکے کو کسی بھی کیس میں فکس کرنا میرے لیئے کوئی مسئلہ نہیں ہے مگر اس سے آپ کا مسئلہ حل نہیں ہوگا خرابی کی اصل جڑ آپ کی بیوی ہے یہ لڑکا جیل چلا جائے گا آپ کی عورت کسی اور سے دوستی کر لے گی پہر آپ کیا کریں گے ؟ آپ کی عورت لڑکے سے ملنے خود جاتی ہے لڑکا آپ کے گھر تو نہیں آتا دوسرا آپ کے عورت نے کروڑ سے زیادہ رقم لڑکے کو خود دی ہے لڑکے نے اُس سے چھینا تو نہیں !!
میں نے اُس کو صاف لفظوں میں کہا کہ وہ اپنی بیوی سے جان چُھڑائے ۔
لڑکی کے شوہر نے جواب دیا کہ اُس کی پیار کی شادی ہے دوسرا ہمارا ایک بیٹا بھی ہے اور سادگی کی انتہا کرتے ہوئے کہا کہ اُس کی بیوی نے اُس سے وعدہ کیا ہے کہ وہ دوبارہ ایسا نہیں کریگی
میں نے لڑکی کے شوہر ہارون کو جواب دے دیا کہ گو کہ میرے لیئے یہ آسان کام ہے مگر آپ کیلئے بے فائدہ ہے میں نے ہارون کو کہا کہ آپ میرے بھائی ہو جب دل کرے دفتر آجایا کرو مگر اپنی بیوی کے ساتھ نہیں !!
کچھ ماہ بعد لڑکی کا شوہر پریشان حال میرے پاس آیا اور بتایا کہ اُس کی بیوی گھر سے 10 لاکھ لیکر غائب ہے اور فون بھی نہیں ریسو کر رہی ہے میں نے اُس کو کہا کہ میں تھانے کے SHO کو فون کر دیتا ہوں
دو دن بعد لڑکی کا شوہر دوبارہ مجھ سے ملنے آیا اور بتایا کہ اُس کی بیوی ُنے Pc ہوٹل میں روم لیا ہوا تھا اور کار دھونے والے لڑکے کے ساتھ رُکی ہوئی تھی پیسے ختم ہونے پر گھر واپس آئی ہے اور مجھے منتیں کرنے لگا کہ میں لڑکے کا کچھ بندوبست کروں ۔ ہارون کی بات سُن کر میرا خون کھول کر رھ گیا میں نے اُسے تلخ لہجے میں ڈانٹتے ہوئے کہا کہ تم نے اُس لڑکی کو واپس گھر میں کیسے آنے دیا ؟
میں نے اُس کو کہا کہ عورت ہمیشہ آسانی سے Available مرد کے ساتھ خراب ہوتی ہے اور یہ نہیں دیکھتی کہ کون ہے اور کیا ہے !!
آپ کا بھلا اسی میں ہے کہ لڑکی سے جان چُھڑا لو لڑکی اب تو openly سب کچھ کر رہی ہے اور واپسی پر شوہر کوبتا بھی رہی ہے مگر وہ بزدل قسم کا ایک شریف مرد تھا۔
میں نے جان بوجھ کر لڑکی کا فون اُٹھانا چھوڑ دیا۔ ہارون ہر دوسرے تیسرے روز میرے پاس آتا اور رونا دھونا کرتا۔ مجھے ہارون سے ایک انس اور ہمدردی ہو چلی تھی، لڑکے کو بند کرتا تو خاتون پیسہ خرچ کرکے اُس کو ایک ہفتہ میں ضمانت پر باہر نکال لیتی ہمارا عدالتی نظام مکڑی کے جالے کی طرح ہے جس میں صرف کیڑے مکوڑے ہی پہنستے ہیں اور بڑے مجرم اُس کو توڑ کر نکل جاتے ہیں ۔
ایک دن میں نے لڑکی کو میسج کیا آپ مجھ سے دفتر میں مل لیں، لڑکی حسب معمول قیمتی تحفوں کے ساتھ آئی تھی، میں نے لڑکی کو سمجھانے کے انداز میں کہا کہ آپ مھربانی کرکے اپنا رویہ ٹھیک کریں اور آپ کی وجہ سے آپ کا خاندان تباہی کے راستے پر چل پڑا ہے اور آپ کی وجہ سے آپ کے بیٹے پر کیا اثرات ہوں گے ؟ لڑکی نے دو ٹوک انداز میں مجھے جواب دیا کہ نہ میں نشہ کرنا چھوڑ سکتی ہوں اور نہ لڑکے سے دوستی ختم کر سکتی ہوں اور وہ غصے سے دفتر کے دروازے کو زور سے بند کرتے ہوئے چلتی بنی۰
میں نے فیصلہ کر لیا کہ ہارون کی لڑکی سے جان چھڑانے کے لیئے اُس کی مدد کروں اور مدد کا ایک ہی راستہ تھا کہ لڑکی کو منشیات کے کیس میں بند کردیا جائے اور اُس کے لیئے ہارون کی رضامندی لازمی تھی،
اور جب میں نے ہارون سے بات کی تو وہ عورتوں کی طرح رونے لگا کہ میں اپنی بیوی کے بغیر نہیں رہ سکتا، میں نے ہارون کو کہا تم مرد ہو تم کو اپنا گھر بچانے کیلئے مشکل فیصلے لینے پڑیں گے اگر اسی طرح تم اپنی بیوی کے پیچھے چلتے رہے اور تمہارا یہ غیر ذمیدارنہ رویہ تمھارے گھر کو برباد کر کے رکھ دے گا۔
مجھے لگا کہ ہارون میری بات ایک کان سے سُن رہا ہے اور دوسرے کان سے نکال رہا ہے۔ ایسی بیوی گھر میں رکھنا ٹائم بم گھر میں رکھنے کے برابر ہوتا ہے جو کسی بھی وقت ناقابل تلافی نقصان کا باعث بن سکتا ہے !!!!!
اور اُس دن سے میں نے ہارون فیملی کو اُن کے حال پر چھوڑ دیا اور دونوں میاں بیوی کے نمبر بلاک کر دیئے ۔
2013 میں میرا ہارون فیملی کے ساتھ رابطہ بُلکل ختم ہوگیا اور میرا تبادلہ CID میں ہوگیا ۔
2018 میں آئی-جی کے دفتر میں ایک کام تھا جو ایڈیشنل آئی-جی کرائم برانچ کے بغیر ہونا ممکن نہیں تھا میں نے اُن کو فون کیا اور اپنا کام بتایا، انھوں نے کہا آپ کل صبح میرے گھر آجائیں وہاں سے ساتھ Cpo چلتے ہیں
دوسرے دن میں مقررہ وقت پر اُن کے گھر پہنچ گیا, گاڑی میں بیٹھتے ہی آئی-جی ایڈیشنل صاحب نے کہا کہ نیاز پہلے دفتر چلتے ہیں وہاں مِسنگ Missing Person کی ایک ضروری میٹنگ ہے وہاں سے فارغ ہو کر Cpo چلتے ہیں
دفتر میں Missing Person کی Families آئی ہوئی تہیں آئی-جی ایڈیشنل صاحب نے دو تین گھنٹے تفتیش کندہ اور فیملیز کے ساتھ میٹنگ میں لگا دیئے
جب میٹنگ ختم کرکے ہم جانے لگے تو ایک خاتون نے آکر میرا راستہ روک لیا اور میرا نام لیکر مجھے سلام کیا میں نے خاتون کے چھرے کو دیکھا اور خاتون کو کہا کہ میں نے آپ کو پہچانا نہیں، خاتون نے اپنا اور اپنے شوہر ہارون کانام لیا مجھے وہ لڑکی یاد آگئی اور جو ہمیشہ میرے لیئے قیمتی تحفے لاتی تھی اور جس کے شوہر ہاروں کی مدد کرنے کے خیال سے میں اس خاتوں کو منشیات کے کیس میں بند کرنے کا سوچ رہا تھا۔ میں نے خاتون سے پوچھا کہ خیریت !!! آپ یہاں کیوں آئی ہیں ؟ خاتون نے اپنے پرس سے ایک تصویر نکالی جو ایک گلی سڑ ی لاش کی تھی اور کہا کہ یہ میرے شوہر ہارون کی لاش ہے جو لیاری ندی کے ایک گندے نالے سے ملی تھی اور مجھے کہا کہ آپ میری مدد کریں اور ایڈیشنل آئی-جی صاحب کو بول کر اس کے قاتلوں کو گرفتار کروا دیں، خاتون کے ہاتھ میں ایک ہزار روپے والا پُرانا Nokia کا موبائل فون تھا اور وہ میرا فون نمبر مانگ رہی تھی، خاتون برے حال میں تھی بلکُل فقیروں والے حال میں حتاکہ ٹوٹی پھوٹی پُرانی چپل ۔ خاتون کے ہاتھ میں Nokia کا پُرانا موبائل دیکھ کر اُس کے دو Apple کے آئی فون یاد آگئے جو اُس نے مجھے تحفے میں دیئے تھے۔ میں نے خاتون سے پوچھا کہ ہارون کا قتل کب ہوا آپ اس حال میں کیسے آئیں ؟ خاتون نے روتے ہوئے بتایا کہ ہارون کا قتل 2013 میں ہوا تھا اورمزید کہا کہ ہارون گیا تو اپنا نصیب بھی اپنے ساتھ لے گیا سب کچھ ختم ہوکر رہ گیا اور ہم ماں بیٹا فُٹ پاتھ پر آگئے ہیں ۔
دوسری طرف ایڈیشنل آئی-جی صاحب گاڑی میں بیٹھ چکے تھے اور شیشہ اُتار کر میرے طرف دیکھ رہے تھے اور میں عورت کے ساتھ زیادہ دیر نہیں رُک سکتا تھا۔ جیساکہ میں خاتون کو شروع سے ناپسند کرتا تھا اس لیئے بغیر اپنا فون نمبر دیئے خاتون کو خدا حافظ کہا اور آکر گاڑی میں بیٹھ گیا ۔
خاتون کے شوہر کی لاش کی تصویر اور خاتون کو فقیروں کے حال میں دیکھ کر میں غمگین ہوگیا تھا اور میرے آنکھوں میں آنسو تیر رہے تھے ایڈیشلُ آئی-جی صاحب نے مجھ سے پوچھا کہ نیاز کیا بات ہے آپ پریشان لگ رہے ہیں۔ میں نے اُن کو کہا کہ کچھ بھی نہیں ہے ۔
میرا خیال ہے کہ ہاروں اپنے قتل کا ذمیدار خود ہے، خود کو موت میں دھکیلنا کفر ان نعمت ہے خطرہ اُس کی بیوی کی صورت میں اُس کے گھر میں موجود تھا، ہارون نے خطرے کا اندازہ ہوتے ہوئے بھی اپنی جان پر ظلم کیا تھا، ہو سکتا ہے کہ خاتون نے اپنے شوہر کو کار دھونے والے لڑکے سے قتل کروایا ہو، خاتون کے Back ground history کا تو کرائم برانچ پولیس کو پتہ نہیں ہوگا،
جیسا کہ میں خاتون کو اچھے حالوں میں دیکھ چُکا تھا اور اب فقیروں والے، پریشان حال اور مُصیبت میں دیکھا تو بہت دُکھ ہوا اس لیئے مناسب نہیں سمجھا کہ خاتون کی پریشانیوں میں مزید اضافہ کروائوں اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ میرا اندازہ غلط ہو، ہارون وقت پر صحیح فیصلہ نہ کرنے کی وجہ سے اپنے انجام کو پہنچ چُکا تھا، خاتون جس حالت میں تھی وہ بھی اپنے انجام کو پہنچ گئی تھی، غربت ایک بہت بڑی سزا ہے جب الللہ پاک نے خاتون کا پردہ رکھا ہوا ہے تو میں کون ہوتا ہوں الللہ کی رضا میں مداخلت کرنے والا ورنہ ایڈیشنل آئی-جی کو بولتا کہ اس کیس میں پہلے خاتون اور کار دھونے والے لڑکے کو گرفتار کرکے ہارون کے قتل کے متعلق پوچھا جائے۔
دکھاتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے
مجھے آج بھی ندامت ہوتی ہے کہ مجھے ہارون کی مدد کرنی چاہیئے تھی، مگر اُس وقت مجھے یہ اندازہ نہیں تھا کہ ہاروں اس طرح بے موت مارا جائے گا۔ اگر اُس وقت کار دھونے والے لڑکے کو جوتے پڑ جاتے اور جیل چلا جاتا تو باہر نکل کر ہارون کے خلاف کچھ کرنے سے پہلے دس بار سوچتا کہ ہارون کے پیچھے بھی کوئی بیٹھا ہے مگر افسوس ہے کہ وہ بیچارا بے یار و مددگار مارا گیا، مجھے اعتراف ہے کہ میں نے اپنی ذمیداری نہیں نبھائی۔
جان دی، دی ہوئی اُسی کی تھی
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا