پتا نہیں کیا یہ مکافات عمل ہے یا کچھ اور ۔۔۔ایک وقت تھا جب شاہ رخ جتوئی کے والد نے صدر پرویز مشرف سے سپریم کورٹ کا چیف جسٹس ڈوگر صاحب کو لگوایا تھا اور آج یہ وقت ہے کہ
دنیا کو خریدنے کا دعوی کرنے والوں اور دنیا کے مالک کے مابین ایک معاملہ ۔
واقعات پڑھ کر آپ کو اندازہ ہوگا کہ ہم کس قدر غیر محفوظ معاشرے میں جی رہے ہیں
میری پوسٹگ انسداد اغوا برائے تاؤ ان سیل میں تھی جب شاہ رخ جتوئی کا کیس ہوا، جیساکہ شاہ زیب خان کا قتل کیس ضلع ساؤتھ میں ہوا تھا اس لیئے میری معلومات جو کچھ میڈیا اور اخباروں میں آرہا تھا اُس حد تک ہی تھیں۔
ایک دن دوپہر ایک بجے کے قریب آئی،جی سندھ جناب فیاض لغاری صاحب کا میرے موبائل پر فون آیا اور کہا کہ “ نیاز آج شاہ رخ جتوئی کی گرفتاری کے متعلق سپریم کورٹ میں کیس لگا ہوا تھا، چیف جسٹس بُہت ناراض ہوئے ہیں اور ایک ہفتے کہ مہلت دی ہے کہ شاہ رخ جتوئی کو ہر صورت میں گرفتار کرنا ہے اور مزید کہا کہ آپ اور ایس،ایس،پی فاروق اعوان شام 6 بجے آئی،جی ہاؤس آ جائیں، اور بتایا کہ میں 3 بجے والی فلائیٹ میں کراچی آرہا ہوں” آئی جی صاحب فون پر بڑے پریشان لگ رہے تھے ۔
شام کو 6 بجے سے پہلے میں اور فاروق اعوان صاحب آئی، جی ہاؤس پہنچ گئے تھوڑی دیر میں ایڈیشنل آئی، جی اقبال محمود صاحب اور ڈی، آئی، جی ساؤتھ شاہد حیات صاحب بھی آئی، جی ہاؤس پہنچ گئے اسی اثنا میں سائرنوں کا شور ہوا اور ہم سب نے باہر لان میں آئی، جی صاحب کا استقبال کیا، وہیں لان میں کھڑے کھڑے آئی،جی فیاض لغاری صاحب نے ہم سب کو سپریم کورٹ کی کاروائی کا بتایا اور کہا کہ ایک مہینے سے ایک ڈی،آئی، جی اور دو ایس،ایس،پی (ان کے نام لکھنا مناسب نہیں ہے) دبئی میں بیٹھ کر پتا نہیں کیا کر رہے ہیں اور ائڈیشنل آئی، جی اقبال محمود صاحب کو کہا کہ نیاز کو شاہ رخ جتوئی کی گرفتاری کیلئے دبئی بھیجتے ہیں اور فاروق اعوان صاحب کو کہا آپ یہاں سے نیاز کو جس قسم کے کاغذات وغیرہ کی ضرورت ہو وہ آپ نے پورے کرکے نیاز کو دبئی بھیجنا ہیں، اور ایڈیشنل آئی،جی، اقبال محمود صاحب کو کہا نیاز کو دبئی کے خرچے کیلئے انویسٹیگشن کاسٹ سے پیسے دے دیں اور مزید اقبال محمود صاحب کو کہا کہ دبئی گئی ہوئی ٹیم کو فورن واپس بلا لیں۔
آئی، جی فیاض لغاری صاحب بہت تھکے ہوئے لگ رہے تھے۔ اور ہاؤس میں جاتے ہوئے سیڑیوں پر رُک کر مجھے کہا کہ نیاز آپ نے خالی ہاتھ واپس نہیں آنا ہوسکتا ہے شاہ رخ دبئی سے کسی اور مُلک فرار ہوگیا ہو تو آپ نے وہاں تک اُس کے پیچھے جانا ہے اور کہا کہ آپ کو دبئی میں رہنے کیلئے سارا خرچہ ملتا رہے گا۔
میں اور فاروق اعوان صاحب ایک ساتھ نکلے راستے میں میں نے اپنے ٹریول ایجنٹ کو ویزا اور ٹکٹ کیلئے کہ دیا اور شاہ رخ جتوئی کیس کے تفتیشی آفسر انسپیکٹر مبین کو فون کرکے کہا کہ کیس فائیل کی فوٹو کاپی لیکر میرے گھر آکر مجھے کیس کے متعلق بریف کر جائے۔
میں نے معلومات لیں کہ دبئی انٹرپول پولیس میں پاکستان کی نمائندگی کون کرتا ہے ؟ تو یہ جان کر خوشی ہوئی کہ میرے بہت پیارے دوست ایس،ایس،پی جاوید ریاض ( موجودہ ڈی،آئی،جی اسپشل برانچ کراچی) کی پوسٹنگ انٹرپول پولیس میں تھی۔ میں نے فورن اُن کو فون کیا اور بتایا کہ میں دبئی آ رہا ہوں اور آپ کی مدد کے بغیر شاہ رخ جتوئی گرفتار نہیں ہو سکتا۔ جاوید ریاض صاحب ایک اچھے خاندان سے تعلق رکھتے ہیں اُن میں اور اُن کے بڑے بھائی ڈی،آئی،جی عبدالمالک صاحب ( سابقہ ڈی جی FIA سندھ ) میں ایک خوبی یہ ہے کہ وہ عہدوں کا پروا کیئے بغیر دوستوں کی دل سے عزت کرتے ہیں ۔
میں ریڈ وارنٹ کی ضروریات پوری کرنے کے بعد دبئی روانہ ہوگیا، اور دبئی پہنچتے ہی جاوید ریاض صاحب سے ملا، جاوید ریاض صاحب مجھے دبئی میں پاکستان سفارت خانے لے گئے اور وہاں ہم نے اس وقت کے پاکستانی سفیر جمیل احمد خان سے ملے ( سابقہ ڈی،آئی، جی) اُن سے بھی میری پرانی شُناسائی تھی جب وہ کراچی میں ایس ایس پی سینٹرل تھے اور میں CIA سول لائیں کراچی میں تھا) اُن کو ہم نے شاہ رخ جتوئی کی گرفتاری اور پاکستان منتقلی کیلئے اپنا اثر رسوخ استعمال کرنی کی درخواست کی۔
دوسرے دن ہم دبئی کے سی،آئی، ڈی کے دفتر گئے وہاں پاکستان کی کے انٹرپول پولیس کے نمائندے کی حیثیت سے جاوید ریاض صاحب نے شاہ رُخ جتوئی کی باضابط تلاش، گرفتاری اور پاکستان منتقلی کی درخواست دے دی اور ہم نے متعلقہ افسر کو ساری معلومات جو میں کراچی سے لایا تھا جیساکہ شاہ رخ جتوئی کا پاسپورٹ نمبر، سابقہ ٹریول ہسٹری اور شاہ زیب قتل کیس کا رکارڈ اور شواہد وغیرہ دیئے، سی آئی ڈی افسر نے کہا اب آپ کا کام ختم ہوا جب بھی آپ دفتر آنا چاہتے ہیں بھلے آئیں ورنہ ہم جو بھی پیشرفت ہوگی جاوید ریاض صاحب کو فون پر مطلع کرتے رہیں گے۔
تیسرے دن سی آئی ڈی افسر نے فون پر جاوید ریاض صاحب کو مطلع کر دیا کہ شاہ رخ جتوئی کو ہم نے گرفتار کر لیا ہے اور کچھ دن ہم مُلزم سے کیس کے متعلق پوچھ گچھ کریں گے اور بعد میں عدالت میں پیش کریں گے، اگر عدالت نے اجازت دی تو ہم آپ کو مُلزم حوالے کردیں گے۔
شاہ رخ جتوئی کے متعلق جو پیش رفت ہو رہی تھی وہ میں آئی، جی صاحب اور ایڈیشنل آئی جی اقبال محمود صاحب کو بتا رہا تھا۔ آئی جی صاحب نے حکم کیا آپ اور جاوید ریاض صاحب سی آئی ڈی والوں سے ملیں اور جب شاہ رخ کو عدالت میں پیش کریں تو آپ لوگ بھی اپنا کوئی وکیل کر لیں ایسا نہ ہو کہ عدالت مُلزم کو پاکستان لے جانے کی اجازت ہی نہ دے۔ آئی جی صاحب نے کہا کہ وکیل کی فیس سندھ پولیس ادا کرے گی۔
چوتھے دن جاوید ریاض صاحب اور میں سی آئی ڈی والوں سے ملے انھوں نے صاف انکار کر دیا کہ ہماری خکومت آپ کو وکیل کرنے کی اجازت نہیں دے گی، ہم مُلزم سے پوچھ گچھ کر رہے ہیں دو تین دن میں آپ کو اطلاع کر دیں گے۔
آٹھویں دن سی آئی ڈی والوں نے جاوید ریاض صاحب کو فون کیا کہ آپ لوگ سی آئی ڈی دفتر آ جائیں۔ سی آئی ڈی افسر نے بتایا کہ عدالت نے اجازت دے دی ہے اور ہمیں شاہ رخ جتوئی کا پاسپورٹ اور ٹکٹ دے دیا اور کہا کہ آپ کراچی کی سیٹ کنفرم کرا کر ہمیں فون پر اطلاع کردیں ہم مُلزم کو اُس فلائٹ میں ایئرپورٹ لے آئیں گے۔ ( ہمارے مُلک میں کیا اس طرح آسانی سے یہ ممُکن تھا ؟ ہم تو پہلی فرست میں ملزم سے ڈیل کی بات کرتے )
جاوید ریاض صاحب نے اُسی دن شام والی فلائیٹ میں ہماری سیٹیں کنفرم کرا دیں، جاوید ریاض صاحب مجھے ایئرپورٹ چھوڑنے چلے۔ وہاں سی آئی ڈی افسر نے کچھ کاغذات پر جاوید ریاض صاحب کے دستخط لیئے اور کچھ پر میرے دستخط لیئے اور جہاز میں شاہ رخ جتوئی میرے حوالے کردیا۔ ( مجھے حیرانگی ہو رہی تھی دبئی سی، آئی، ڈی پولیس یہ سب کچھ خاموشی اور آٹو پر کر رہے تھے ہم سے زبانی ہم کلام نہیں ہو رہے تھے )
جہاز میں نے شاہ رخ سے پوچھا کہ قتل کس طرح ہو گیا ؟ شاہ رخ جتوئی کی بتائی ہوئی ساری تفصیل نیچے لکھ رہا ہوں۔ کراچی پہنچتے ہی ایئرپورٹ پر شاہ رخ جتوئی کو تفتیشی افسر انسپیکٹر مبین کے حوالے کر دیا۔
دوسرے دن شاہد حیات صاحب ( ڈی،آئی،جی ساؤتھ) کا فون آیا کہ پولیس کسٹڈی ریمانڈ کے دوران شاہ رخ جتوئی کو آپ اپنے سیل Avcc میں اور باقی ملزمان ٹالپور دو بھائی اور ان کا نوکر لاشاری فاروق اعوان صاحب کے سیل SIU میں ہوں گے اور کہا آپ اور فاروق اعوان صاحب ملزمان کی پوچھ گچھ میں شامل رہیں گے۔
ملزمان کی پوچھ گچھ کے دوران جو واقعات سامنے آئے وہ آپ کے ساتھ شیئر کرنا لازمی ہے۔ تاکہ عوام کو بھی پتہ چلے کہ پولیس کی ڈیل کی وجہ سے اصل ملزمان کو کلین چٹ مل جاتی ہے ۔ سپریم کورٹ کے ازخود نوٹس لینے اور میڈیا کے دباؤ کی وجہ سے بے گُناہ لوگ کس طرح پس جاتے ہیں۔
اصل واقعہ کچھ اس طرح ہے کہ شاہ زیب اپنی بہن دلہن کو بیوٹی پالر سے لیکر پارکنگ میں گاڑی کھڑی کی اور دلہن کار سے اتری کار کے سامنے ٹالپورں کا نوکر لاشاری کار کے سامنے کھڑا تھا اور ایک ٹک دلہن کو گھور رہا تھا یہ بات شاہ زیب کو بری لگی اور کار لاک کرتے ہی لاشاری کے پاس چلا گیا اور اُس کو کہا کہ میری بہن کو کیوں گھور رہے ہو ؟ اور لاشاری پر تھپڑوں کی بارش کردی ساتھ میں ہی شادی تھی شاہ زیب کے اور دوست اور رشتیدار بھی جمع ہوگئے اور انھوں نے لاشاری کی خبر لینا شروع کردی،
ساتھ میں عام راستہ تھا، مجمع جمع ہو گیا اور ٹریفک رُک گیا اور لاشاری مار کھاتے ہوئے وہاں سے گذرنے والے شاہ رخ جتوئی کی نئی کار کے بانٹ پر گر گیا۔ شاہ رخ جتوئی اپنی کار کے نقصان کی وجہ سے کار سے اُترا اور شاہ زیب والوں کو برا بھلا کہنا شروع کردیا۔ شاہ زیب والوں نے لاشاری کو چھوڑ کر شاہ رخ کو مارنا شروع کردیا قریب شادی میں شاہ زیب کے والد ڈی، ایس، پی صاحب یہ سارا تماشہ دیکھ رہے تھے وہ درمیان میں آگئے اور شاہ رخ کو مجمع سے چھڑا کر کار میں سوار کرا دیا اور شاہ رخ سے پوچھا کہ کس کے بیٹے ہو شاہ رخ نے بتایا کہ میں سکندر جتوئی کا بیٹا ہوں۔
جیساکہ ٹالپور اور شاہ زیب والے ایک ہی بلڈنگ میں قریب ہی فلیٹس میں رہتے تھے اور وہ اپنی فیملی کے ساتھ شادی میں مدعو تھے جب لاشاری اور شاہ رخ کی پٹائی کی جارہی تھی اُس وقت ٹالپور بھائی ساری جھگڑے سے بے خبر اپنی فیملی کے ساتھ شاہ زیب کے والدہ کے ساتھ شادی میں بیٹھے تھے۔ ( شادی کی تقریب کے دوران بننے والی وڈیو میں یہ واضع ہے )
شاہ رخ کی پٹائی کی وجہ سے ہونٹ پھٹ گئے تھے وہ جیسے گھر پہنچا اس کے کزن سنی جتوئی اور رشتداروں نے پوچھا کہ کس نے مارا ہے، شاہ رخ نے بتایا کہ راستے میں شادی تھی ان لوگوں نے مارا ہے۔ سنی جتوئی نے شاہ رخ کو کہا کہ ہمارے ساتھ چلو دکھاؤ کس نے مارا ہے۔ یہ لوگ اسلحہ لیکر شادی والی جگہ پہنچے، شاہ زیب نے جب دیکھا کہ لڑکے اُس سے لڑنے آئے ہیں وہ کار میں خود کو بچانے کیلئے بھاگا۔ شاہ رخ والوں نے کار کا پیچھا کیا آگے جاکر شاہ زیب کی کار الٹ گئی۔ شاہ رخ کے کزن سنی جتوئی نے شاہ زیب پر سیدھے فائر کیئے اور موقعہ سے فرار ہوگئے۔ ( یہ ساری تفصیل مجھے شاہ رخ جتوئی نے جہاز پر بتائی جو میں نوٹ کرتا گیا اور بعد میں سارے ملزمان سے پوچھ گچھ اور اصل حالات اور واقعات کو قریب سے دیکھنے کے بعد غیر جانبداری سے یہ نتیجہ اخذ کیا )
مطلب یہ کہ شاہ زیب کا قتل پہلے سے تے شدہ نہیں تھا واقعات کے تسلسل وجہ تھی، میڈیا کوئی اور کہانی بتا رہا تھا مگر شاہ زیب کا قتل شاہ رخ کا راستے جاتے ہوئے مار کھانے کی وجہ سے ہوا۔
پرچہ ہوگیا. پرچے میں شاہ زیب کے والد نے شاہ رخ کے ساتھ لاشاری اور دو ٹالپور بھائی بھی نامزد کر دیئے۔
جب میڈیا پر شور مچا تو شاہ رخ اور سنی جتوئی دبئی بھاگ گئے۔ سنی جتوئی کا لندن کا ویزا لگا ہوا تھا وہ لندن فرار ہو گیا ۔
دوران تفتیش SIU میں ٹالپورں کا کہنا تھا کہ وہ شاہ رخ کو نہیں جانتے اور شاہ رخ کا کہنا تھا کہ قتل میں اُس کا کزن سنی جتوئی اور دوسرے رشتیدار ساتھ تھے وہ ٹالپورں اور لاشاری کو نہیں جانتا۔
جیساکہ میڈیا میں دوسری کہانی چل رہی تھی ہم نے اپنا شک دور کرنے کیلئے شاہ رخ اور ٹالپورں کے موبائل فون کا کال ریکارڈ نکلوایا ہم نے پورے کال رکارڈ کو چیک کیا شاہ رخ اور ٹالپورں کی آپس میں رابطے کی ایک کال بھی نہیں تھی اور نہ ہی کبھی یہ لوگ ایک لوکیشن پر ایک ساتھ تھے .
جیساکہ مجھے اس تفتیشی ٹیم میں دبئی جاتے وقت ایک آرڈر کے تحت شامل کیا گیا تھا، کیس فائل کو ساؤتھ ضلع کے افسران دیکھ رہے تھے۔
ایک دن آئی جی صاحب کے آپریٹر نے فون کیا کہ صاحب یاد کررہے ہیں جلدی آئیں۔
کچھ ہی دیر میں میں آئی جی صاحب کے سامنے کھڑا تھا اور اُن کو سیلوٹ کیا اُس وقت کمرے میں ایڈیشنل آئی جی کراچی اقبال محمود صاحب اور شاہد حیات صاحب تشریف فرما تھے، آئی جی صاحب نے مجھے کہا کہ نیاز شاہ رخ کے والد سکندر جتوئی کے سپریم کورٹ نے ضمانت منسوخ کی تھی، آج سکندر جتوئی کا ریمانڈ ختم ہو رہا ہے، ایک انسپیکٹر مبین ہم سے دو گھنٹے ہوئے ہیں قابو نہیں آرہا وہ کہتا ہے کہ سکندر جتوئی کو بھی اس کیس میں چالان کرے گا۔ کل ہم میڈیا اور لوگوں کو کیا موں دکھائیں گے۔ سپریم کورٹ نے تو سکندر جتوئی کو صرف اس لیئے ہماری تحویل میں دیا تھا کہ سکندر جتوئی پر دباو ڈال کر شاہ رخ کو گرفتار کیا جا سکے۔ شاہ رخ تو گرفتار ہوگیا ہے۔ اور یہ کہتے ہوئے وہ کانفرنس ہال کی طرف چل پڑے جہاں انسپیکٹر مبین موجود تھا۔ میں نے آئی جی صاحب اور ایڈیشنل آئی جی صاحب دونوں کو کہا آپ کانفرنس روم میں نہ چلیں۔ میں اور شاہد حیات صاحب مبین سے بات کرتے ہیں۔
شاہد حیات صاحب ایسے موقعوں پر بہت ہنستے تھے اور پولیس کے حالات پر مزہ لیتے تھے۔ آئی جی صاحب کے کمرے سے نکلتے ہی باہر راہداری میں مجھے ہاتھ سے پکڑ کر کھڑے ہوگئے اور کہا ارے نیاز یہ دن بھی ہم نے پولیس میں دیکھنے تھے. ایک انسپیکٹر ہمارے اور آئی جی صاحب کے قابو میں نہیں آرہا
کانفرنس روم میں ہم جیسے داخل ہوئے انسپیکٹر مبین کھڑا ہو گیا اور ہم دونوں کو سیلوٹ کیا، شاہد حیات صاحب اور میں ساتھ ساتھ انسپیکٹر مبین کے سامنے بیٹھ گئے، میں نے مبین سے پوچھا کہ سکندر جتوئی کے خلاف آپ کی کیس فائل میں کیا ثبوت ہیں ؟ اور سکندر جتوئی کو کیسے چلان کرو گے ؟ انسپیکٹر مبین نے مجھے دو ٹوک انداز میں جواب دیا سر میں سکندر جتوئی کو 215/216/216A تعزیرات پاکستان میں چالان کروں گا۔ ( کسی مجرم کو پناہ دینا)
میں نے مبین کو کہا کہ بھائی اس قانون میں والد تو چالان نہیں ہوسکتا۔ وہ اس لیئے چالان نہیں ہوسکتا کہ مُلزم تو سکندر جتوئی کی پناہ سے گرفتار ہی نہیں ہوا، اور نہ ہی سکندر جتوئی نے یہ چھپایا ہے کہ شاہ رخ کہاں ہے ؟ مُلزم تو دبئی سے گرفتار ہوا ہے۔ مبین نے دو ٹوک انداز میں کہا سر مجھے جیل میں نہیں جانا آگے بھی جناب افتخار چوہدری صاحب ہیں۔ میں چالان کر دیتا ہوں بھلے سکندر جتوئی کو عدالت چھوڑدے۔
میں نے شاہد حیات صاحب کو کہا سر آپ آئی جی صاحب کے پاس تشریف رکھیں میں مبین سے اکیلے میں بات کرنا چاہتا ہوں۔
شاہد حیات صاحب کے جاتے ہی میں نے انسپیکٹر مبین کو کہا کہ “ مبین تم مجھے اچھی طرح جانتے ہو آگر تم صحیح ہوتے تو میں پہلا آدمی ہوتا جو تمہارے ساتھ کھڑا ہوتا۔ ایک بیٹے کے جرم کی وجہ سے اُس کے باپ کو خوامخواہ قتل کیس بند کردیا جائے یہ اچھا نہیں لگتا۔ اور یہ ناانصافی ہے۔ کل آپ کا بیٹا ایکسیڈنٹ میں کسی کو مار دے اور آپ اپنے دفتر میں کام کر رہے ہوتے اور آپ کو کیس میں بُک کردیا جائے کیا یہ انصاف ہوگا؟ آپ کو کیسا لگے گا؟
میں نے مبین کو مزید کہا کہ جیساکہ میں اس کیس کی مزید تفتیش میں اپنے پاس رکھتا ہوں اور سکندر جتوئی کو آزاد کر دیتا ہوں۔ سپریم کورٹ میں میں خود ہی فیس کر لوں گا۔ ( یہ قانونن میں کر سکتا تھا) انسپیکٹر مبین ہاتھ باندھ کر کھڑا ہو گیا اور مجھے کہا کہ سر آپ بیچ میں مت آئیں۔ میں آئی جی صاحب اور دوسرے افسران کو دکھانا چاہتا ہوں کہ ایک تفتیشی افسر کیا ہوتا ہے؟ اصل میں مبین سپریم کورٹ سے خوفزدہ تھا
انسپیکٹر مبین آخر میں اس شرط پر آمادہ ہوگیا کہ میں سکندر جتوئی کی آزادی کی رپورٹ 169 CRPC تیار کرتا ہوں اُس پر آزادی کا آرڈر آپ کریں گے کہ اگر کل سپریم کورٹ نے اس پر اعتراض کیا تو میں کہوں گا کہ آپ کے تحریری حکم پر سکندر جتوئی کو آزاد کیا گیا ہے۔
انسپیکٹر مبین رپورٹ بنانے لگا میں نے آئی، جی صاحب کو سارا ماجرا سنایا شاہد حیات صاحب حسب عادت دل کھول کر ہنستے رہے ۔ اگر اُس دن میں سکندر کیس کی تفتیش میں مزید کیا ہو رہا تھا مجھے اس کا کچھ بھی پتا نہیں تھا آخر میں پتہ چلا کہ شاہ رخ جتوئی کے کزن سنی جتوئی اور دوسرے رشتیداروں کے نام نکال دیئے گئے ہیں اور بیگناہ دو ٹالپور بھائی اور لاشاری نوکر کو منڈھ دیا گیا ہے۔
ٹرائل کورٹ کے جج صاحبان بھی ہائی پروفائیل کیسز میں لکیر کے فقیر والا کام کرتے ہیں، میں نے ایسے بھی ٹرائل کورٹ کے جج دیکھے ہیں جو کسی دن تفتیشی افسر کو اپنے چیمبر میں بُلا لیتے تھے اور ٹیبل پر قرآن پاک رکھ لیتے تھے اور پوچھتے تھے کہ اصل واقعہ کیا ہے ؟ اور کون اصل مُلزم ہیں ؟ اور کون کون بے گناہ ہیں؟ یا ٹرائل کورٹ کے جج صاحبان اپنے طور پر علائقے کے لوگوں سے معلومات کی بنیاد پر اپنا جوڈیشل مائینڈ اپلائی کرکے فیصلہ کرتے تھے۔
میں نے سندھ ہائیکورٹ کے دو جج صاحبان جسٹس صلاح الدین پنہور صاحب، جسٹس اقبال کلہوڑو صاحب، اور بلوچستان ہائیکورٹ کے جسٹس نعیم افغان اور جسٹس محمد ہاشم کاکڑ صاحب عدالت چلاتے دیکھا ہے، کیا کمال کے لوگ ہیں۔ یہ اپنی پوری کوشش کرتے ہیں ہیں کہ کیس کے تحہ تک پہنچیں۔ اگر بات سمجھ میں نہ آئے تو سائل سے خود پوچھتے ہیں۔ بات کو سمجھنے کے بعد اپنا جوڈیشل مائینڈ اپلا کرکے کوئی فیصلہ کرتے ہیں
شاہ رخ کو عدالت نے سزائے موت سنادی ہے، شاہ زیب کے والد نے 53 کروڑ اور پوری فیملی کی آسٹریلیا کی سٹیزن شپ، گھر ، دبئی میں ایک ولا وغیرہ لے کر دعیت کے قانون کے مطابق قتل معاف کردیا ہے۔
اس کیس کا افسوسناک پہلو یہ ہے کہ دو ٹالپور بھائی اور ان کا نوکر لاشاری مفت میں رگڑا کھا رہے ہیں شارہ رخ کا خاندان تو سال میں اربوں روپے کما لیتا ہے مگر ٹالپور سفید پوش لوگ ہیں ان کا گذر بسر مشکل سے ہوتا ہوگا۔ اللہ پاک سب کی اولاد کو ایسی عافت ناگہانی سے پناہ میں رکھے۔
کہاں سے بات کہاں تک جا پہنچی
کیا لاشاری کا دلہن کو دیکھنا
اور شاہ رخ کا اُسی وقت وہاں سے گذرنا
اور لاشاری کا شاہ رخ کی گاڑی پر گرنا
اللہ پاک سے ہر پل میں خیر و برکت طلب کرنی چاہیئے۔
جب ہم طاقت کے نشے میں مست ہوتے ہیں تو اللہ پاک ایک مقررہ وقت پر ہمیں بتاتا ہے کہ ہماری تعلقات اور اربوں روپیہ کسی کام کا نہیں۔ سکندر جتوئی کرب پتی آدمی ہے۔ اُن کے پاس اپنے ہیلی کاپٹر اور جہاز ہیں، بڑے بڑے حکومتی کرتہ دہرتہ، سول،فوجی اور عدالتی جج صاحبان سے ذاتی مراسم ہیں مگر یہ سب اللہ کی مشیت اور حکم کے آگے بے بس اور لاچار ہیں۔