جان جیکب کی پیدائش اور ابتدائی ایام ۔
برطانیہ کا جیکب خاندان اپنی غیر معمولی صلاحیتوں، نیک نامی اور اخلاقی اقدار کی وجہ سے پہلے ہی مشہور تھا لیکن مزید جان جیکب کی پیدائش نے خاندان کی شان میں چار چاند لگانے کی نوید سنائی ۔ جان جیکب وولونگٹن، سمرسیٹ کے مضافات میں ایک اسٹیٹ میں 11 جنوری 1812 میں پیدا ہوئے ۔
وہ اسٹیٹ جیکب خاندان کی ملکیت تھی ۔جان جیکب بچپن سے ہی اپنے خاندان کی طرح غیر معمولی صلاحیتوں کے مالک تھے ۔ جیکب خاندان کی روایت کے مطابق جان جیکب کی سکول کی تعلیم اپنے گھر میں ہی ہوئی ۔ اسکول کی تعلیم ختم کرنے کے بعد انہیں کیڈٹ کالج میں فوجی تعلیم کے لیے داخل کیا گیا ۔
جان جیکب کی ہندوستان آمد ۔
جان جیکب نے قلیل عرصے میں ہی اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا اور اپنی صلاحیتوں کی وجہ سے وہ صرف 16 سال کی عمر میں 1828 میں بمبئی آرمی میں بھرتی ہو گئے ۔ جان جیکب کی دلچسپی سائنس اور فلسفے سے تھی لہذا سائنس اور فلسفے کے کتب آپ کے زیر مطالعہ رہے ۔ یوں 1828 میں جنوری کے مہینے میں جان جیکب پہلی دفعہ کبھی بھی انگلستان واپس نہ جانے کے لیے ہندوستان آگئے ۔
جان جیکب اچھے شکاری ہونے کے ساتھ ساتھ گھوڑے سواری کے شوقین بھی تھے ۔ ایک اعلیٰ نسل کا عربی گھوڑا ہمیشہ جیکب کا دوست اور مشکل وقت کا مددگار رہا ۔ جیکب کے گھوڑے کا نام میسنجر تھا ۔ جان جیکب نے ایک جدید طرز کی بندوق بھی ایجاد کی جو پرانی پاؤڈر بھرنے والی بندوقوں سے کہیں زیادہ بہتر تھی ۔
بمبئی میں ہی نوکری کے دوران جان جیکب کو اچانک والدہ کے انتقال کی خبر ملی، اس صدمے نے جیکب کو اندر سے توڑ پھوڑ دیا جان جیکب بہت دلبرداشتہ ہوگئے اور انہوں نے کافی عرصے تک اکیلے رہنے کو ترجیح دی ۔ انہی دنوں جان جیکب نے یہ عزم کیا کہ وہ کبھی انگلینڈ واپس نہیں جائیں گے ۔
بمبئی ریجمنٹ میں سات سال کام کرنے کے بعد جان جیکب کو گجرات کے تحصیلدار کا ماتحت مقرر کیا گیا ۔ جان جیکب شاعری سے بہت زیادہ شغف رکھتے تھے ، گو کہ نثر سے انہیں لگاؤ بالکل بھی نہیں تھا ۔ وہ اکثر انگریزی شاعر لارڈ بائرن کی شاعری سے لطف اندوز ہوتے تھے ان دنوں جان جیکب بمبئی آرٹلری میں سیکنڈ لیفٹیننٹ کے طور پر کام کام کر رہے تھے اور ہندوستان پر اس وقت لارڈ آکلینڈ گورنر جنرل کی حیثیت سے بر سر اقتدار تھے ۔
یہ 1838 کا زمانہ تھا جب ایک طرف ہندوستان پر انگریز سرکار کا راج تھا تو دوسری طرف روس وسطی ایشیا میں پنجے گاڑنے کے لیے کوشاں تھا ۔ ان دنوں انگلستانی فوج اس خطرے سے دوچار ہو گئی کہ کہیں روسی فوج افغانستان اور ایران کے راستے ہندوستان میں داخل ہوکر ہمارا ایسٹ انڈیا کمپنی کا بنا بنایا کھیل نہ بگاڑ دے ۔
جان جیکب کی افغانستان سے جنگ اور فتح ۔
اس خطرے کے پیش نظر لارڈ آکلینڈ نے افغان حاکم دوست محمد خان (جو کہ افغانستان میں بارکزئی سلطنت کے بانی بھی تھے) کو بذریعہ ایلچی پیغام بھجوایا اور پیشکش کی کہ اگر آپ روس سے جنگ کرنا چاہتے ہیں تو ہم آپ کی ہر طریقے سے مدد کرنے کو تیار ہیں لیکن دوست محمد خان نے اس پیشکش کو نظر انداز کرکے روس سے مزید دوستانہ تعلقات بنانے کا آغاز کیا ۔
لارڈ آکلینڈ کو جب اس بات کی خبر ملی تو انہوں نے شدید غصے میں افغانستان پر حملے کا فیصلہ کیا اسی سال 1838 میں لارڈ آکلینڈ نے اپنے سب سے قابل اور بھروسہ مند سیکنڈ لیفٹیننٹ جان جیکب کو فوج لے کر افغانستان پر حملے کا حکم دیا ۔ جان جیکب آباد سندھ آئے اور سندھ میں موجود انڈس آرمی کے دستوں کو ساتھ لے کر خان گڑھ (موجودہ جیکب آباد) کے راستے افغانستان کی طرف سفر شروع کیا ۔
افغانستان میں داخل ہو کر کچھ ماہ کے اندر جان جیکب کی فوج نے کندھار ، غزنی اور کابل فتح کرلیے، دوست محمد خان کو شاہی قیدی بناکر کلکتہ بھیجا گیا اور شاہ شجاع کو دوست محمد خان کا جانشین مقرر کیا گیا ۔ شاہ شجاع کی معاونت کے لیے انگریز فوج کا کچھ حصہ کابل، قندھار اور جلال آباد میں رکھا گیا اور باقی فاتح فوج جان جیکب کی کمانڈ میں واپس ہندوستان پہنچ گئی ۔
جان جیکب کی سندھ آمد ۔
افغان جنگ کے بعد جان جیکب پر انگریز فوج کا اعتماد زیادہ بڑھ گیا اور اگلا محاذ جان جیکب کو خانگڑھ کا دیا گیا ۔ خانگڑھ ان دنوں خان آف قلات کے زیر اثر تھا۔ خان گڑھ، شکارپور اور آس پاس کے مقامات میں بڑھتی ہوئی بد امنی لوٹ مار اور قتل و غارت کے بڑھتے ہوئے واقعات نے انگریز سرکار کو یہ قدم اٹھانے پر مجبور کردیا ۔ حکم کی تعمیل کرتے ہوئے جان جیکب نے توپوں اور چالیس فوجی سپاہیوں کے ساتھ اپر سندھ کا رخ کیا ، ان کی منزل شکارپور تھی ۔
راستے میں جھلسا نے والی گرمی اور شدید حبس کی وجہ سے ایک فوجی افسر اور 6 سپاہی دم توڑ گئے ، منزل تک پہنچتے پہنچتے کل 16 سپاہی مر چکے تھے ۔ ان حالات نے باقی ماندہ سپاہیوں کو بغاوت کرنے پر مجبور کر دیا اور ان سب نے واپس جانے کی ٹھان لی لیکن جان جیکب نے قائدانہ صلاحیتوں کا استعمال کرتے ہوۓ انہیں وہیں رہ کر اپنا فرض نبھانے اور حالات سے مقابلہ کرنے پر راضی کیا ۔
1840 عیسوی میں پھر جان جیکب کی خدمات حیدرآباد میں طلب کی گئیں ۔ ان دنوں سر چارلس نیپئر نے سندھ کے مختلف علاقوں کو فتح کیا اور اعزاز کے طور پر سر چارلس نیپیئر کو سندھ کا گورنر جنرل مقرر کیا گیا ۔ عہدہ سنبھالتے ہی سر چارلس نیپیئر نے سندھ کے امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورتحال کا جائزہ لیا ۔
جان جیکب کی خان گڑھ آمد ۔
قتل و غارت اور لوٹ مار روز کا معمول بن چکے تھے انہوں نے حالات پر قابو پانے کے لیے پہلے جنرل بلا مور کو بھیجا لیکن وہ بری طرح ناکام ہوگئے ۔ 1847 عیسوی میں جان جیکب کو بد امنی ختم کرنے کا مشن سونپ کر سیاسی ایجنٹ بنا کر اپر سندھ بھیجا گیا ۔
حیدرآباد سے اپنے گھوڑے سوار لشکر اور توپوں کے ہمراہ جب جان جیکب سیوھن، لاڑکانہ اور شکارپور سے ہوتے ہوئے موجودہ جیکب آباد پہنچے تو حالات پہلے سے مختلف پائے بہت زیادہ ویرانے، بنجر زمین ،کہیں کہیں کوئی چرواہا اپنی بکریوں کا ریوڑ چرا رہا تھا ہر جگہ خوف و ہراس پھیلا ہوا تھا لوگ خوف کے مارے گھروں سے نہیں نکلتے تھے ۔
پانی کی علاقے میں شدید قلت تھی ہر طرف ریت تھی اور خان گڑھ (موجودہ جیکب آباد) میں ایک درجن کے قریب ہی جھونپڑے نظر آرہے تھے جان جیکب کے ساتھی ہینری گرین نے طنزیہ جان جب سے کہا کہ “کیا آپ اس علاقے کو آباد کرکے یہاں کنٹونمنٹ بنائیں گے؟” جان جیکب نے مسکرا کر جواب دیا کہ “اب یہ میرا گھر ہے میں اس کو گلزار بناؤں گا اور تاحیات یہیں رہوں گا”.
خان گڑھ کی آبادی اس وقت کچھ لوگوں پر مشتمل تھی . کچھ روایات کے مطابق خانگڑھ انگریزوں سے پہلے خان آف قلات کا قلعہ تھا انہوں نے اسے اپنے فوجیوں کی رہائش کے لیے تعمیر کروایا تھا پھر یہاں شکارپور کے کچھ ہندوؤں نے دوکان کھولے جہاں سے لوگ سامان خرید کر ڈیرہ بگٹی جاتے تھے ۔ ایچ ٹی لیمبرک نے اپنی کتاب “جان جیکب آف جیکب آباد” میں لکھا ہے کہ خانگڑھ پہلے میر علی مراد خان کی فوجی چوکی کا حصہ تھا جس پر بعد میں خان آف قلات نے قبضہ کیا.
جیکب آباد کی ترقی کا سفر۔
خان گڑھ پہنچتے ہی جو سب سے پہلا کام جان جیکب نے کیا وہ بڑھتی ہوئی بدامنی کو روکنا تھا انہوں نے امن قائم کرنے کے لیے چار فوجی چوکیاں مبارکپور، گڑھی حسن، کشمور اور شاھ پور میں قائم کیں۔ پینے کے پانی کی فراہمی کے لیے ایک بڑا تالاب بنوایا، نور واھ کی کھدائی کروائی تاکہ تالاب میں پانی پہنچ سکے کھدائی کا کام جکھرانی اور ڈومکی قبیلے کے پانچ سو لوگوں نے کیا ۔
بیگاری کینال کی وسعت کے لئے کام کیا تاکہ ملٹری کیمپ کو پانی کی فراہمی یقینی بنائی جاسکے۔ گڑھی حسن سے کشمور تک روڈ تعمیر کروایا گیا ۔ جیکب کی رہائش گاہ کی تصویر ہنگری کے آرٹسٹ نے خانگڑھ پہنچ کر بنائی۔ جب دریا کا پانی پہلی دفعہ بذریعہ نورواہ شہر میں پہنچا تو لوگوں نے جان جیکب کو سلامی دی۔
فوجی چھاؤنی کو شہر میں پانی پہنچانے کے لیے راج واھ کی کھدائی کروائی اس کھدائی سے جو مٹی نکلی اس سے اینٹیں بنوا کر جدید منصوبہ بندی کے تحت فوجیوں کے لیے کوارٹر بنائے گئے جنہیں فیملی لینز کا نام دیا گیا جو آج تک رہائشی علاقے ہیں اور فرسٹ فیملی سیکنڈ فیملی اور تھرڈ فیملی لین کے نام سے مشہور ہیں ۔
شکارپور اور موجودہ بلوچستان کے علاقے بھاگ ناڑی اور دوسرے آس پاس کے علاقوں کے لوگوں کو خان گڑھ میں آباد ہونے اور کاروبار کرنے پر رضامند کیا گیا۔ اسی طرح خانگڑھ کا چند جھونپڑیوں پر مشتمل علاقے سے ایک ترقی یافتہ شہر اور کاروباری مرکز کا سفر شروع ہوگیا ۔
بنجر زمینوں کو آباد کروایا، تحصیل دار مقرر کیے اور محصول کے قوانین قائم کیے۔ اناج کو مارکیٹ تک لانے کے لیے سڑکیں تعمیر کروائیں اور آمدورفت کی سہولت دی۔ سڑکوں کے کنارے درخت لگوائے اور یوں ایک آرکیٹیکٹ، انجینئر اور فوجی جنرل نے ایک گرم ترین علاقے کو ایک پر فضا مقام بنا دیا ۔
خان گڑھ سے جیکب آباد ۔
بالآخر جان جیکب کے ایک پورے شہر کو منصوبے کے تحت تعمیر کرنے کی خدمات کو سراہتے ہوئے وائسرائے ہند لارڈ ڈلہوزی نے 1851 میں خان گڑھ کا نام بدل کر جیکب آباد رکھا اور اسے اپر سندھ کا ہیڈ کوارٹر بنایا اور جان جیکب کو ترقی دی گئی ۔ 1857میں جان جیکب کو بریگیڈیئر جنرل کے عہدے پر ترقی دی گئی۔ جیکب آباد پہلے شکارپور میں شامل تھا لیکن جان جیکب نے اسے الگ ضلعے کا درجہ دے کر اس کی حدود طے کیں ۔ اس وقت جیک آباد بعد تین تحصیل جیکب آباد ، ٹھل اور گڑھی خیرو پر مشتمل تھا ۔
اس وقت جیکب آباد میں بلوچ ،سرائیکی اور سندھی قبیلے آباد تھے جن میں رند ،کھوسہ، ڈومکی، جمالی، لاشاری اور سہریانی شامل تھے ۔ سندھ فتح کرنے کے بعد انگریزوں نے سندھ کو تین اضلاع کراچی حیدرآباد اور شکارپور میں تقسیم کیا ۔ جان جیکب کو خانگڑھ بھیجنے کا ایک مقصد اس بغاوت کا سر کچلنا بھی تھا جو سندھ کو بمبئی میں شامل کرنے کے وقت تمام قبائلی سرداروں نے شروع کی تھی۔
میگنم اوپس اور کبوتر گھر ۔
جان جیکب کو انجینئر بننے کا بہت شوق تھا لیکن وہ امتحان پاس نہ کرسکے اور انجینئر نہ بننے کے باوجود بھی جان جیکب عملی طور پر ایک قابل،ذھین اور تجربہ کار انجینئرز ثابت ہوئے۔ ان کا سب سے بڑا کارنامہ ان کی بنائی ہوئی گھڑی ہے جو آج بھی جیکب ہاؤس میں موجود ہے۔ یہ دنیا کی واحد منفرد کھڑی (Magnum Opus) ہے جو ایک ہی وقت میں دونوں ممالک پاکستان اور انگلینڈ کا وقت (گو کہ دونوں میں 4 گھنٹے کا فرق ھے) بتانے کے ساتھ ساتھ قمری تاریخ ،چاند کی شکل، ہفتے کے دن اور صدیوں کا کیلنڈر بھی اس گھڑی میں لگا ہوا ہے۔
گھڑی میں جو پینڈولم لگا ہوا ہے وہ افغان جنگ میں افغانستان کی طرف سے فائر ہونے والا توپ کا گولا ہے جو جان جیکب کو تحفے میں ملا تھا, اس کے علاوہ جان جیکب نے جو اپنی بندوق بنائی اُسے جیکبز رائیفل کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ایسی ایک اور گھڑی بھی جان جیکب نے بنائی جو کندھ کوٹ آفس میں رکھی گئی تھی جو بعد میں ضائع ہوگئی لیکن جیکب آباد والی گھڑی آج بھی اپنی اصل شکل میں اور اصل حالت میں محفوظ ہے ۔
پیغام رسانی کے لیے لئے جان جیکب نے جو کبوتر پال رکھے تھے ان کے لئے ایک پجن ہاؤس بنوایا جو آج بھی اپنی اصل حالت میں موجود ہے ۔ جیکب کا گھوڑا اور دوست میسنجر 1857 میں مر گیا اور ریڈ کراس ہسپتال جیکب آباد میں دفن ہے ۔
جیکب کے آخری ایام اور وفات ۔
اپنی وفات سے 1 ماہ پہلے بھی جان جیکب پورے جیکب آباد کا دورہ کرتے اور انتظامات کا معائنہ کرتے رہے لیکن ذہنی اور جسمانی کمزوری محسوس ہونے لگی کھانا پینا اور سونا کم کر دیا پھر بھی وہ کام کرتے رہے ۔
28 نومبر 1858 کے دن جب وہ شہر کے دورے سے واپس جیکب ھاؤس آئے تو گھوڑے سے اترتے ہی اپنے سپاہی کو کہا کہ پانچ منٹ کے بعد میں نہیں ہونگا، اسکے بعد وہ اندر اپنے کمرے میں گئے اور دوسرے دن بے ہوش ہوگئے اور آخرکار 5 دسمبر 1858 میں رات کے پچھلے پہر یعنی 6 دسمبر کی صبح وہ اس فانی دنیا سے رخصت ہوگئے ۔
اگلے دن ان کی وصیت کے مطابق انہیں جیکب آباد کے قبرستان میں دفن کیا گیا ان کے جنازے میں بلوچ سردار سپاہی اور سینکڑوں مقامی لوگ شریک ہوئے ۔ وہ 16 سال کی عمر میں انگلینڈ سے پاکستان آئے اور کبھی واپس نہ گئے۔
1 جیکب آباد اور جوہن جیکب
ڈاکٹر غلام نبی سدھایو
2 جیکب آباد کی ثقافتی خوشبو
3 http://wikipedia.com