تختی
افسانوں کے مجموعہ ’’اللہ دے بندہ لے‘‘کا پیش لفظ
کسی بھی ادبی شخصیت کا جب ذکر ہوتا ہے تو تین سوال ضرور پوچھے جاتے ہیں……اُنھوں نے کیا لکھا، کیسا لکھا اور کن حالات میں لکھا۔ امّی کا اور میرا بہت لمبا رشتہ نہیں رہا……اگر صرف اُس وقت کو گِنا جائے، جب میں اِس قابل تھی کہ اُن کی شخصیت، اُن کے علم اور اُن کے فن سے کچھ حاصل کر سکوں تو مشکل سے دس بارہ سال ہی نکلیں گے۔ ظاہر ہے اُن کی مکمّل شخصیت کے بارے میں تو وہ لوگ ہی بتا سکتے ہیں۔ جن کا امّی سے تعلق تیس بتیس سال کا رہا ہو۔ بہت سے عالم اور فاضل لوگ ہیں جو مجھ سے کہیں زیادہ جانتے اور سمجھتے ہیں کہ امّی نے کیا لکھا اور کیسا لکھا۔
امّی نے کیسے لکھا اور کہاں بیٹھ کر لکھا یہ شاید بہت کم لوگ جانتے ہیں۔ آج اُن کی میز پر بیٹھ کر لکھتے ہوئے مجھے وہ ساری باتیں یاد آتی ہیں……لکھنؤمیں وزیر منزل کا آئوٹ ہائوس۔ گرمی کے دنوں میں بر آمدے میں آرام کرسی پر آلتی پالتی مار کر بیٹھی امّی۔ بائیں ہاتھ میں سگریٹ اور دائیں ہاتھ کو زمین پر رکھا ہوا چائے کا گلاس ۔ بائیں گھٹنے پر لوہے کی کلپ والی تختی اور بس لکھے چلی جار رہی ہیں۔ سویرے سے سویرے اُٹھ جائو امّی لکھتی ہوئی ملیں گی۔
پھر دلّی کا دَور شروع ہوا۔ میں چھ سات برس کی تھی۔ حوض خاص میں ہمارے گھر کا چھوٹا سا کمرہ جسے امّی کُلیا کا سا کمرہ کہتی تھیں۔ ایک طرف اُن کا بان کا پلنگ ،پلنگ کو تقریباً چھوتی ہوئی اُن کے لکھنے کی میز کرسی۔ لیکن میز آجانے کے بعد بھی امّی اپنا تخلیقی کام آرام کرسی پر بیٹھ کر ہی کرتی تھیں۔ میز صرف ترجمے یا خط و کتابت کے لیے استعمال ہوتی تھی۔ایک اور بھی بات تھی وہ صبح کے وقت ترجمے کا کام کبھی نہیں کرتی تھی۔ صبح کا وقت صرف تخلیقی کام کے لیے ہوتا تھا۔ پَو پھٹتے ہی امّی اٹھتیں، اپنے لیے چائے بناتیں اور لکھنے بیٹھ جاتیں۔ آٹھ بجے سے پہلے تو اپنی جگہ سے ہلتی تک نہیں تھیں۔ اس بیچ میں دو چار کپ چائے اور بنواتیں۔ مجھے اسکول کی تیاری پر ہزاروں ہدایتیں دیتیں۔ ابّا اخبار میں سے کچھ پڑھ کر سناتے تو اس پہ ردِّ عمل دیتیں جیسے ’’اُنہہ تو میں کیا کروں‘‘یا’’چھوڑدی نہ پارٹی، وہ تو کم بخت تھا ہی گر گٹان‘‘ یا’’کیا چنڈو خانے کی اڑا دیتے ہیں یہ اخبار والے۔‘‘ یہ سب کہتی جاتیں لیکن اپنی جگہ سے نہیں ہلتیں۔ جاڑوں میں سر سے شال لپیٹے لحاف اوڑھے جھولا سے پلنگ میں دھنسی اپنی تختی سے جوجھتی رہتیں۔ تختی کے علاوہ امّی کی شخصیت سے ایک اور چیز جڑی ہوئی تھی۔ اُن کی ہنسی……دھیرے دھیرے اُن کے ہنسنے کے انداز سے مجھے پتہ چل جاتا تھا کہ اُن کی کہانی کس اسٹیج پر ہے۔ کسی اچھے جملے کے بن جانے پر یا کسی غیر معمولی مثال دینے پر مسکرانا۔اپنیکرادر ممدو یا فخرو کی کسی بات پر کھلکھلاتی ہوئی ہنسی……کسی کے اکیلے پن یا مجبوری کا ساتھ دیتی ہوئی ہمّت بندھاتی ہوئی ہلکی سی مسکان،……موزوں کلائمکس مِل جانے پر ایک اطمینان کی مسکراہٹ کہ اب منزل دُور نہیں اور کہانی شروع کرنے پہلے ایک پُر اسرار سی مسکراہٹ کہ نہ جانے کیا ہو ۔کیا انجام نکلے۔
امّی صبح اٹھنے کی بہت قائل تھیں۔ اور ابّا سے اس بات پر اکثر ناراض رہتی تھیں کہ دن کا بہترین حصّہ جب دماغ تروتازہ ہوتا ہے اور چاروں طرف خاموشی ہوتی ہے وہ سونے میںگنوا دیتے تھے۔ ابّا اُنھیں اکثر چھیڑا کرتے تھے ’’لیکن رضیہ اگر ہم صبح اُٹھ گئے تو تمہیں سکون اور خاموشی کیوں کر ملے گی؟‘’ امی اس طرح کی منطق کا صرف ایک جواب دیتی تھی۔ اُنہہ‘‘…
صبح اُٹھنے کی عادت امّی ہمیشہ اپنی مذہبی طبیعت سے جوڑتی تھیں اور ہمیشہ کہتی تھیں کہ کچھ ہو نہ ہو مذہب آپ کو باقاعدگی ضرور سکھاتا ہے۔
امّی اور ابا میں صبح اُٹھنے کے علاوہ ایک اور بات پر ہمیشہ اختلاف ہوتاتھا۔ امّی کبھی بھی کسی خراب شاعر کے کلام کی تعریف نہیں کرتی تھیں چاہے وہ سامنے بیٹھ کر ہی اپنی غزل یا نظم کیوںنہ سنا رہا ہو۔اگر شاعری ناقابلِ برداشت ہو جاتی تو وہ باروچی خانے میں کچھ کرنے چلی جاتیں۔
ابّا اکثر اُن سے کہتے ’’بھئی نوجوان ہے۔ منجھتے منجھتے اچھا شاعر بن جائے گا۔‘‘
’’تب اس کی شاعری کی تعریف بھی کردیں گے۔ اِن کے خراب کلام کی اب تعریف کر کے کیوں انھیں غلط یقین دلایا جائے کہ وہ ابھی ہی سے بہت اچھے شاعر ہیں۔‘‘ اپنی بات پر امّی اڑی رہتیں۔
گوشت تو امّی ایسے پکاتی تھیں کہ بیٹھ گئیں پیڑھی پر انگیٹھی کے پاس اور پھر ’’منّو گھی دو، شمّو پیاز کاٹی کہ نہیں، نیوٹی نمک دو، اے ہے کنکری والا رونا‘‘……اور خود بس دیگچی میں کفگیر گھمادی……لیکن ادبی کام میں بالکل اس کا اُلٹا تھا۔ ادبی کام بالکل تہہ سے شروع کرتی تھیں۔ وہ شروع ہی میں اپنی کہانی کے واقعوں کی ایک فہرست بناتی تھیں، پھر خلاصہ، پھر رَف اور پھر کہانی مکمل ہوتی۔ تخلیقی کام میں تختی ان کی مدد گار بنتی اُس کو بھی وہ بہت اہمیت دیتیں۔سستی تختی مگر اس کی کلپ خوب مضبوط ہوتی۔ قلم ہمیشہ پار کر استعمال کرتیں اور روشنائی یا کاغذ خریدنے میں خوب مزہ لیتیں۔ کاغذ معمولی سہی مگر شفّاف سفید ہونا چاہئے۔ اسے بڑے سلیقے سے پھاڑتیں اور تختی پر لگاتیں اور کہتی جاتیں ’’نئے کاغذ کی مہک کتنی اچھی ہوتی ہے نہ۔‘‘ آخری دس سالوں میں وہ میری بڑی بہن اور بہنوئی ، نجمہ باجی اور علی بھائی کو بڑی دعائیں دیتیں کیونکہ وہ لوگ اُن کے لیے لندن سے پین اور پنسل بھیجا کرتے تھے۔ یہ لوگ اور بھی بہت تحفے بھیجتے تھے۔ مگر امی ان پینسلوں سے جتنا خوش اور مطمئن ہوتیں اتنا کسی اور قیمتی تحفے سے نہیں۔
امّی صرف خود اپنی ادبی تخلیق کرنے ہی میں مگن نہیں رہتی تھیں بلکہ دوسروں کی لکھی چیزوں کو سمجھنے اور سمجھانے میں بھی بڑا لطف لیتی تھیں۔ اور اگر کہیں غیر موزوں پڑھ دو تو بس’’تم ہم لوگوں کو اولاد ہو پھر مَنّو رقص تمھارا کام ہے۔ تم ناموزوں شعر پڑھ رہی ہو۔‘‘شعر پڑھنے کے بعد اس کا مرکزی لفظ نکلواتیں مجھے یاد ہے انھوں نے غالب کا یہ شعر سنایا۔
سب کہاں کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہو گئیں
خاک میں کیا صورتیں ہونگی کہ پنہاں ہو گئیں
اور مجھے سے شعر کا سب سے اہم لفظ ڈھونڈنے کو کہا۔ میں نے فوراً کہا ’’لالہ و گل‘’ ’’جاہل، نادان! اس شعر کا سب سے اہم لفظ ہے’ کچھ‘ اب اِس پر زور دے کر پڑھو خود شعر سمجھ میں آجائے گا‘‘……اپنی تخلیق کے ساتھ وہ کسی قسم کی زیادتی برداشت نہیں کرتی تھیں۔ایک بار اُن کی کہانی ریکارڈ ہو رہی تھی۔ ریکارڈنگ کے بعد انھیں کہانی سنوائی گئی۔ بیچ کہانی میں کوئی ایک چوتھائی سکنڈ کے لیے ایک عجیب سی آواز آگئی۔ شاید امّی خود ہی کھکھاری تھیں یا کرسی کھسکائی تھی۔ بس امّی اڑگئیں کہ ریکارڈنگ دو بارہ ہوگی۔ اسٹوڈیو آدھے گھنٹے تک خالی نہیں تھا۔ پروڈیوسر اُن کو سمجھاتا رہا کہ اس چھوٹی سی آواز کا براڈ کاسٹ پر کوئی اثر نہیں ہوگا۔ پتہ بھی نہیں چلے گا۔ لیکن وہ آدھے گھنٹے تک وہیں بیٹھی رہیں۔ دو بارہ ریکارڈنگ کرائی، سنی اور اس کے بعد پروڈیوسر کو ٹیکسی منگوانے کا حکم دیا۔
اُنھیں دیسی خوشبو دار پھول بہت پسند تھے۔ مولسری، ہار سنگھار، رات کی رانی اور چمبیلی کی خوشبو پر مر مٹتی تھیں۔ یہی حال سبزیوں کے ساتھ تھا۔ سبزیوں کی دکان پر امّی ایسے مچلتیں جیسے کوئی بچّہ مٹھائی کی دکان پر اور اکثر وہ اپنے کردارکا خاکہ کھینچتے ہوئے اس کا کوئی نہ کوئی پہلو کسی سبزی سے ملا دیتیں۔ سوکھی شکر قند جیسی صورت ، ایسی پھیکی شخصیت جیسے شلجم، اس قدر دبلا جسم جیسے باسی ککڑی وغیرہ۔ اُن کی پسندیدہ پینٹنگ بھی وین گوگ کی ’’پوٹیٹو ایڑس‘‘یعنی آلو کھانے والے تھی۔
امّی کے کہانی پڑھنے کے انداز کو ہمیشہ سراہا گیا ہے۔ وہ بہت جذباتی تھیں۔ اپنی کہانیوں کو خوب مزہ لے کر پڑھتی تھیں۔ اپنے کرداروں کو خود جیتی تھیں۔ یہ باتیں صحیح ہیں اور انھیں سب جانتے ہیں۔ لیکن یہ شایدبہت کم لوگ جانتے ہیں کہ وہ کتنی محنت کرتی تھیں، کتنا ریاض کرتی تھیں، کتنا بدلتی تھیں اپنی کہانی کو تاکہ اس میں روانی آئے اور خوب صورتی پیدا ہو۔ ایک بار میں اپنی ایک کہانی انھیں سنانے کے لیے گئی۔ اس میں ایک جملے میں ’’ر‘‘ اور ’’ڑ‘‘ ایک ساتھ بار بار آرہے تھے۔ بس امّی نے فوراً پکڑ لیا۔ ’’اے ہے اتنے ’ر‘ اور ’ڑ‘……یہ تو تم کبھی بھی روانی سے نہیںپڑھ سکتیں۔ زبان ضرور لڑکھڑائے گی۔ فوراً بدلو یہ لفظ۔’’ا‘‘ اب ہم کہاں سے لائیں اور لفظ۔‘‘ میں نے چِڑ کر کہا۔’’بس یہی تو تم لوگوں میں خرابی ہے۔ ہندی سیکھی نہیں اوراردو سکھائی نہیں گئی۔ انگریزی اپنی زبان ہو تو آئے۔ لہٰذ رہ گئے بے زبان، کیا خاک EXPRESS کروگی اپنے آپ کو!‘‘
شاید امّی کے لیے سب سے مشکل تخلیق تھی ’’انتظار ختم ہوا انتظار باقی ہے‘‘ ۔ابّا کے غیر متوقع انتقال کی خبر سن کر امی بالکل نہیں روئیں ۔ بس ایک عجیب طرح کی خاموشی نے انھیں گھیر لیا۔ ابّا کا انتقال الماآتا (روس) میں ہوا تھا۔ اور تیسرے دن اُن کا جنازہ دلّی لایا گیا تھا۔ ان کو دفن کرکے جب ہم لوگ جامعہ ملیہ سے لَوٹے تو میں اپنی امّی کے ساتھ ہی اُن کے پلنگ پر اُن کی پیٹھ سے لگ کر سو گئی تھی۔ صبح پانچ بجے آنکھ کھلی تو امّی پلنگ پر بیٹھی لیمپ جلائے تختی پر جھکی تھیں۔ ان کا چہرہ عجیب طرح سے زرد تھا۔ بدن بار بار کانپتا تھا۔ لکھنا ختم کر کے انھوں نے ایک سرد آہ بھری۔ عینک اتاری اور میری طرف دیکھ کر بولیں۔ ’’بیٹی ایک کپ چائے پلائو گی۔‘‘میں نے اُن کا ماتھا چھُوا تو تیز بخار میں تپتا ہوا پایا۔ چائے لے کر میں کمرے میں آئی تو امّی مجھ سے بولیں۔ ’’نجمہ کی شکل تمھارے ابّا سے بہت ملتی ہے۔ آج وہ لندن سے آجائے گی۔‘‘ اور ابّا کے انتقال کے بعد پہلی بار وہ سر جھکا کر بغیر کسی آواز کے زاروقطار رونے لگیں۔ صرف چند ہفتے پہلے اباّ دلّی سے لندن اور الما آتا ہوتے لوٹنے کا وعدہ کر گئے تھے۔ امّی کا انتظار تا عمر باقی ہی رہا۔
کبھی کبھی امّی اپنی کہانیوں میں ایسے مسائل پر روشنی ڈالتیں جو کہ شاید سطح پر نظر بھی نہ آتے ہوں۔ بڑی عمر میں میاں بیوی کا ایک دوسرے پر منحصر ہونا اور اپنے آرام کی امید میں ایک دوسرے کا ساتھ نبھاتے رہنا ……جیسے ’’ بڑا سوداگر کون ‘‘ میں امّی نے بیان کیا ہے یا اُوپر سے خوش اور مطمئن دکھائی دینے والی بوڑھی مِسز سری واستو کا اکیلا پن ’’لاوارث‘‘ میں ہے ۔ لیکن اس طرح کی کہانیوں میں وہ زیادہ اَن کہا چھوڑ دیتیں اور اُن مسائل کی طرف بس ایک اشارہ کر دیتیں۔ اُنھیں اپنے پڑھنے والوں پر بڑا بھروسا تھا اور وہ یہ مان کر چلتی تھیں کہ ادیب کا کام بس ایک سمت اشارہ کرنا ہے ۔ ’’نتیجہ پڑھنے والوں پر چھوڑ دینا چاہئے ورنہ تخلیق میں اور پروپیگینڈہ میں کیا فرق رہ جائے گا۔‘‘
کہیں کہانی پڑھنا ہوتی تو امّی بڑی احتیاط سے کہانیاں چنتیں ۔ کس طرح کی محفل ہے، انھیں کتنے بجے تک پڑھنے کو کہا جائے گا، لوگ کس طرح کا موضوع پسند کریں گے۔ یہ سب ذہن میں رکھ کر کہانیوں کا انتخاب کرتیں۔ اور وہ اسٹیج پر کھڑی ہو کر ، عینک لگا کر، کہانی کا نام بتا کر ایک بار غور سے پوری محفل کی طرف دیکھتیں تو ہوٹنگ کر رہے مجمع میں بھی کچھ پل سنّاٹا چھا جاتا۔ مجھے اکثر امّی نے تجربے کے لیے سامعین کے طور پر استعمال کیا اور میں کبھی بھی سمجھ نہ پاتی کہ اُن کے افسانے میں کون سی بات ہوتی جو سننے والے پر سب سے زیادہ اپنی چھاپ چھوڑتی تھیں زبان، پڑھنے کا سٹائل، دلچسپ اور زندگی کے قریب کردار یا اُن کی بڑی بڑی چمک دار آنکھیں جو ایک وقت میں سینکڑوں لوگوں سے سیدھا تعلق قائم کر سکتی تھیں۔ اور جن کی گہرائیاں کہانی کے ہر پہلو کے ساتھ بدلتی، سمٹتی، ٹھہرتی اور پھسلتی ہی رہتی تھیں۔
امی نے اپنی ساری ذمّہ داریاں وہ بھی جو اصل میں اباّ کے حصّے آنی چاہئے تھیں، بڑی ایمانداری اور سچائی سے نبھائیں۔ کبھی بھی کہیں بھی مشکل موڑ پر ہم چاروں بہنوں نے اپنے کو تنہا نہیں پایا۔ ہمیشہ امّی کا وجود ڈھارس بندھانے اور ہمّت دینے کے ساتھ ہوتاتھا۔ لیکن پھر بھی کبھی کبھی ایسا لگتا تھا جیسے اُن کی روح اِن باتوں سے بالکل الگ، بالکل آزاد ، دور تنہائی میں ہوتی۔ اور تنہائی میں خود اپنی حکمرانی بنانے کے خواب دیکھتی ہے۔ ایسا لگتا تھا جیسے کوئی پرندہ قید میں بھی بار بار بین کر دیتا ہے کہ کہیں اُس کا سُروں سے تال میل ٹوٹ نہ جائے۔ اُن کی کہانی ’’بادشاہ‘‘ شاید اسی طرح کی بادشاہت کے لیے آرزومند ہے۔ کسی فقیر کو سڑک پر کبیر کا بھجن ’’من لاگو مورے رام فقیری میں‘‘ گاتے سنتیں تو رونے لگتیں۔ اور کبیر کا ہی ’’کبیرا کھڑا بازار میں لیے لکوٹیا ہاتھ، جو گھر پھونکے آپ نو چلے ہمارے ساتھ‘‘ اکثر دہراتیں۔
امّی کے انتقال سے کچھ عرصہ پہلے میں اُن سے ملنے نجمہ باجی کے گھر گئی تھی۔ اُنھوں نے کوئی بات نہیں کی بس سلام کا جواب دیا اور پھر اپنی تختی پر جھک گئیں ۔ مجھے بہت بُرا لگا۔ میں نے طنز سے پوچھا۔ ’’ کوئی ضروری کام کر رہی ہیں کیا؟‘‘ ’’ہوں‘‘ کہہ کر وہ پھر خاموش ہو گئیں۔
’’کتنی بری ہیں آپ امّی ! اتنی دُور سے آپ سے ملنے آئے ہیں آپ بات تک نہیں کرتیں ، کتنی خود غرض ہیں آپ!! آپ کا کام ہو جائے بس ٹھیک ہے ہم جاتے ہیں، جب بچوں کے لیے وقت مل جائے تو فون کر کے بلا لیجئے گا۔‘‘ میں تنک کر جا ہی رہی تھی کہ انھوں نے روک لیا۔ ’’ٹھہرو، بیٹی جا رہی ہو تو جائو لیکن ایک بات سنتی جائو اگر ہم اپنے کام کے بارے میں خود غرض نہ ہوتے تو یہ نوکری‘ یہ زندگی بھر کی جدوجہد، تمہارے ابّا کے جیل کا سفر، تم لوگوں کی پڑھائی لکھائی ہمیں ایسا مارتی کہ ہم کھڑے نہیں ہو سکتے تھے۔ ہماری قوتِ ارادی ہماری طاقت ہے، ہمارا لکھنا ہمیں زندہ رکھتا ہے۔ کیا ہمیں اپنی زندگی کے بارے میں خود غرض ہونے کا بھی حق نہیں۔‘‘
اپنے لکھنے سے انھیں عشق تھا، وہ اُن کی زندگی تھی اور یہی وجہ ہے کہ اور چیزوں کے بارے میں وہ لاپروا تھیں۔ مثلاً اُن کے چشمے کا نمبر کبھی ٹھیک نہیں ہوتا تھا۔ اُن کی کرسی کی بید ہمیشہ ٹوٹی رہتی تھی ۔ جوتے ہمیشہ پرانے اور مرمت کیے ہوئے ہوتے تھے۔ لیکن اپنے لکھنے کے کام میں کبھی وہ ڈھیل نہیں دیتی تھیں۔ کبھی کسی خیال کو لکھ ڈالنے میں سستی نہیں کرتی تھیں۔ کوئی ذمہ داری اٹھا کر نہیں رکھتی تھیں اور ایک خاص وقت پر تختی لے کر بیٹھ جاتی تھیں۔ چاہے ایک سطر لکھتیں یا ایک صفحہ یا ایک افسانہ یا ایک ناول۔
نور ظہیر
۱۰؍دسمبر ۱۹۸۴ء
نئی دہل