محمد یوسف وحید نے ادبی مراکزسے دورخان پور کے چھوٹے شہر سے ’’شعور و ادراک‘‘ کا اجرا کر کے بڑی ہمت کا ثبوت دیا۔ ادبی جریدے کا نام علامہ اقبالؒ کے شعرسے اخذ ہے۔
حادثہ وہ جوابھی پردہ ء افلاک میں ہے
عکس اس کا مرے آئینہ ٗ ادراک میں ہے
یہ اردو، سرائیکی اور پنجابی زبان کا مجلہ ہے۔ جو علمی، ادبی اور سماجی شعورکے سفر کا مقصد لیے منظر عام پر آیا۔ سہ ماہی کتابی سلسلہ کا چوتھا شمارہ اکتوبر تا دسمبر2020ء جرمنی میں مقیم’ حیدرقریشی گولڈن جوبلی نمبر‘ کے طور پر شائع ہوا ہے۔حیدرقریشی اردو کے ہمہ جہت ادیب ہیں جنہوں نے شاعری اور نثرکی تمام اصفاف میں اپنے فن کولوہامنوایا۔ بہترین ادبی جریدہ’’جدیدادب ‘‘پہلے خان پوراورپھرجرمنی سے نکالتے رہے۔ ملک سے دور رہ کر بھی پاکستان اوربھارت میں ہونے والی ادبی پیش رفت سے آگاہ رہتے ہیں۔ان کے تجزیاتی سیاسی مضامین کی بنیاد پر پاکستان میں کئی معروف ٹی وی اینکرزاپنی دھاک بٹھانے کی کوشش کرتے ہیں اوران تجزیوں کواپنے نام سے پیش کرتے ہیں ۔حیدرقریشی کے ادبی دنیا میں پچاس سال مکمل ہونے پر’’شعوروادراک‘‘ نے انہیں خراجِ تحسین پیش کیاہے کہ حیدرقریشی کااپناتعلق بھی خان پورہی سے ہے۔
مدیرمحمدیوسف وحیدنے ’اپنی بات‘میں لکھاہے۔’’ شعوروادراک‘‘کاخاص شمارہ ’’حیدرقریشی گولڈن جوبلی نمبر‘‘ آپ کے ہاتھوں میں ہے۔ دسمبر2020 میں حیدرقریشی کی علمی ادبی خدمات کے پچاس سال مکمل ہورہے ہیں۔حیدرقریشی کے فن وشخصیت کے حوالے سے خصوصی گوشہ ترتیب دینے کے دوران علمی ادبی شخصیات کی طرف بھرپوراورعمدہ تحریروں کاخاصامواد جمع ہوگیا۔ان تحریروں کاحجم پانچ سوسے زائد صفحات سے زائد ہوگیا۔ان تحریروں کے حسنِ انتخاب کومدنظررکھتے ہوئے خصوصی گوشہ کوباقاعدہ خاص نمبر’’حیدرقریشی گولڈن جوبلی نمبر‘‘ شائع کیاگیاہے۔حتی المقدورکوشش اوروسائل کوبرائے کارلاتے ہوئے حیدرقریشی کے فن وشخصیت اورعلمی ادبی خدمات کابھرپور اعتراف کے ساتھ شمارہ کویادگارتحریروں سے سجاکرگلدستہ پیش کیاگیاہے۔‘‘
حیدرقریشی نے مدیر’شعوروادراک‘محمدیوسف وحیدکاشکریہ ادا کرتے ہوئے تحریرکیاہے۔’’ آج کی انٹرنیٹ سروسزکی جدیدترٹیکنالوجی نے زندگی کے دیگرشعبوں کی طرح علمی اورادبی ابلاغ کے وسیع ترراستے کھول دیے ہیں۔ ادبی کتب اوررسائل چھپ بھی رہے ہیں اورانٹرنیٹ پربھی دستیاب ہیں۔سوشل میڈیاکی تمام ترحشرسامانیوں کے باوجودمیں ادبی رسالے کی اہمیت ،معیاراورقدروقیمت کا معترف ہوں۔ معیاری ادبی رسائل ،اپنے لکھنے والوں کے لیے مستقل تربیت گاہ کادرجہ رکھتے ہیں۔خان پورسے’جدیدادب‘ کااجراء میرے لیے عزت و اعزازکاموجب بنا۔یہ دیکھ کرخوشی ہوتی ہے کہ میں نے’جدیدادب‘ کوخان پورمیں جہاں تک پہنچایاتھا،آج محمدیوسف وحیدنے’شعوروادرا ک‘ کاسفروہاں سے آگے شروع کررکھاہے۔یہ ادبی ارتقابھی ہے اورادبی رسالے کی اہمیت کااعلان بھی۔میرے لیے یہ امربجائے خود ایک اعزاز ہے کہ میرے شہرخان پورسے میرے ادبی کام کے اعتراف کے طورپرخاص نمبرچھاپنے کاپروگرام بن گیا۔پھراس نمبرکی اشاعت گولڈن جوبلی نمبربن جانامزیدخوش گوارحیرت کاموجب بنا۔جب میری زندگی کی پہلی غزل چھپی تھی تومیں بچوں کی طرح خوش ہوا تھا۔آج جب ادبی زندگی کے پچاس سال مکمل ہونے پراپنے ہی شہرسے ایک اعلیٰ معیارکے رسالے کے گولڈن جوبلی نمبرکااعزازمل رہا ہے توآج بھی بچوں کی طرح خوش ہوں۔میں نے خود پرکوئی مصنوعی دانشوری طاری نہیں کی۔ہاں جی یہ میری نصف صدی کی خدمات کا صلہ ہے۔شعوروادراک کے مدیر محمدیوسف وحیدکاتہہ دل سے شکریہ اداکرتاہوں۔‘‘
ڈاکٹرعامرسہیل اورڈاکٹرعبدالرب استاد نے بیک پیچ پرحیدرقریشی کی ادبی خدمات کوخراجِ تحسین پیش کیاہے۔ڈاکٹرعامرسہیل کہتے ہیں۔ ’’ محمدیوسف وحیدکی انقلابی شخصیت نے’ شعوروادراک‘ جیسے اعلیٰ ادبی جریدے کی بنیادرکھی اوربہت کم عرصے میں اسے اعتباراورساکھ کے اعلیٰ مقام پرپہنچادیا۔ اس ادبی رسالے کی نمایاں خوبی یہ ہے کہ اس میں اردو کے علاوہ پنجابی اورسرائیکی ادبیات کوبھی شامل کیاجاتاہے۔یہ اپنی طرز کامنفرداوروقیع ادبی شمارہ ہے،خوشی کی بات ہے کہ ’شعوروادراک‘ کازیرِ نظرشمارہ حیدرقریشی کی ادبی خدمات کاجامع مطالعہ پیش کرتا ہے۔خان پورکی تاریخ میں حیدرقریشی کانام ہمیشہ سرِفہرست رہے گاکہ اس دھرتی پرانہوں نے جس ادبی پودے کولگایاتھاآج وہ پھل دار درخت بن چکاہے۔حیدرقریشی کوآج دنیائے ادب میں بھی بلندمقام حاصل ہے۔اردوماہیانگاری کی تحریک ہویا کوئی اورادبی معرکہ اس میں حیدرقریشی ہمیشہ فعال نظرآتے ہیں۔الوحیداکیڈمی خان پور نے اپنی دھرتی کے اہم ادیب کوخراجِ تحسین پیش کرکے ایک روشن مثال قائم کی ہے۔یہ نمبرحیدرقریشی کے بیشترادبی جہات کامتوازن جائزہ پیش کرتاہے اورآنے والے نئے محققین اورناقدین کی رہنمائی کامستند ذریعے بنے گا۔محمدیوسف وحیدبذات خودادب دوست شخصیت ہیں،جن کی ادبی بصیرت اورروشن خیالی کی بدولت یہ رسالہ معیاری تحریروں کامرکزبن گیاہے۔‘‘
ڈاکٹرعبدالرب نے لکھاہے۔’’ اکیس ویں صدی کے اکیس ویں سال میں ’’شعوروادراک‘‘ خان پورکاحیدرقریشی نمبرکااجراء بیک وقت دونوں کے لیے قابل مبارک باد ہے۔حیدرقریشی کی نصف صدی پرمشتمل ادبی خدمات کااعتراف ادب کے قارئین کے لیے سوغات ہوگا۔ حفیظ جالندھری کاشعریاد آرہاہے۔
تشکیل وتکمیل فن میں جوبھی حفیظ کا حصہ ہے ۔۔وہ نصف صدی کاقصہ ہے،دوچاربرس کی بات نہیں‘‘
بلاشبہ حیدرقریشی کی نصف صدی پرمبنی خدمات کااعتراف اس رنگ میں ہوناتوازحدضروری تھا۔اس بارے میں حیدرقریشی کاایک حسبِ حال شعرپیش ہے۔
وہ جوحیدر میرے منکرتھے میرے ذکر پہ اب ۔۔۔چونک اٹھتے ہیں کسی سوچ میں پڑ جاتے ہیں
کولکتاکی عنبرشمیم نے ’’حیدرقریشی۔ایک نظرمیں‘‘ مختصراً حیدرقریشی کی ادبی حیات کی مکمل تفصیل پیش کردی ہے۔جس کے مطابق ان کاپورا نام غلام حیدرارشدقریشی اوردرست تاریخ پیدائش 13جنوری 1952ء ہے۔حیدرقریشی نے شاعری میں غزل،نظم،ماہیا میں دلچسپی لی جبکہ نثرمیں افسانہ،خاکہ،انشائیہ،سفرنامہ،یادنگاری،تحقیق وتنقید،حالاتِ حاضرہ سارے میدانوں میںاپنی توفیق کے مطابق کام کیا۔اردوماہیا کے حوالے سے حیدرقریشی کاکام تحقیقی اورتخلیقی ہرلحاظ سے بنیادی اہمیت کاحامل ہے۔ادبی معرکہ آرائیوںمیں تلخ حقائق پرمبنی حیدرقریشی کا کام ادب کی تاریخ میں محفوظ رکھنے والاہے۔ان کی تخلیقات میں اپنے قریبی عزیزواقارب کاکثرت اوربڑی محبت سے ذکرملتاہے۔پی ایچ ڈی ،ایم فل اورایم اے کے گیارہ مقالات میں حیدرقریشی کے ادبی کام کے مختلف زاویوں سے اب تک لکھے جاچکے ہیں جبکہ چھ مقالات میں جزوی مگراہم ذکر ہے۔’جدیدادب‘ خان پوراورپھر’جدیدادب‘ جرمنی کااجرا، حیدرقریشی کی مدیرانہ حیثیت کاتعین کرتاہے۔1994ء سے جرمنی اپنی فیملی کے ساتھ آبادہیں۔تصانیف اورتالیفات میں’’اباجی اورامی جی‘‘،’’حیات مبارک حیدر‘‘،’’مبارکہ محل‘‘شعری مجموعے ’’سلگتے خواب‘‘،’’ عمرِگریزاں‘‘،’’ محبت کے پھول‘‘،’’ دعائے دل‘‘،’’ ددردسمندر‘‘ ،’’زندگی‘‘ نثری مجموعے ۔’’روشنی کی بشارت‘‘،’’ قصے کہانیاں‘‘،’’میری محبتیں‘‘،’’ کھٹی میٹھی یادیں‘‘،’’ قربتیں،فاصلے‘‘،’’ سوئے حجاز‘‘،’’ ایک انوکھی کتاب،بیماری یاروحانی تجربہ‘‘ ۔تحقیق وتنقید ’’حاصل ِ مطالعہ تاثرات‘‘،’’ مضامین اورتبصرے‘‘،’’ مضامین ومباحث‘‘،’’ ستیہ پال آننددکی بودنی،نابودنی‘‘،’’ڈاکٹرگوپی چندنارنگ اور مابعدجدیدیت‘‘،’’ ڈاکٹروزیرآغاعہدسازشخصیت‘‘۔ماہیاکے حوالے سے تحقیق وتنقید۔’’اردوماہیانگاری‘‘،’’اردوماہیے کی تحریک‘‘،’’ اردو ماہیے کے بانی ہمت رائے شرما‘‘،’’اردوماہیا‘‘،’’ ماہیے کے مباحث‘‘حالات ِ حاضرہ۔’’منظراورپس منظر‘‘،’’ خبرنامہ‘‘،’’ اِدھراُدھرسے‘‘،’’ چھوٹی سی دنیا‘‘۔حیدرقریشی نے اپنی کتب مختلف کلیات کی صورت بھی شائع کررکھی ہیں۔جوانٹرنیٹ پربھی دستیاب ہیں۔اس کے علاوہ پانچ شعری اورچھ نثری مجموعوں پرمشتمل منفردمجموعہ’’عمرلاحاصل کاحاصل‘‘بھی بھارت سے شائع ہوئی ہے۔حیدرقریشی کی شخصیت اورفن پرکئی کتابیں لکھی گئیںادبی کتابی سلسلہ ’عکاس‘ نے حیدرقریشی نمبرشائع کیا۔پاک وہندکے کئی رسائل نے ان پرخصوصی گوشے مرتب کیے۔
خصوصی شمارے کاپہلاحصہ’’ فن وشخصیت ‘‘ہے۔جس میں انتالیس مضامین،خاکے،انٹرویوزاورحیدرقریشی کی کتابوں کاجائزے شامل ہیں ۔جس میں ڈاکٹرنذرخلیق ’’انٹرنیٹ کے ذریعے مکالمہ‘‘ میں حیدرقریشی نے اپنی شاعری،نثر،ماہیاکے فروغ کے لیے کام اورنائن الیون کے بعدکالم نگاری کے بارے میں سوالات کے جواب دیے ہیں۔اس انٹرویوسے حیدرقریشی شخصیت اورفن کی تفہیم ہوتی ہے۔مرحوم ڈاکٹر انور سدیدکامضمون’’جرمنی میں پاکستان کاادبی اور تہذیبی سفیر،حیدرقریشی‘‘قیام جرمنی کے دوران حیدرقریشی کی علمی وادبی سرگرمیوں اوروطن سے دوررہ کربھی کس طرح پاکستان سے منسلک رہے،اس کاتفصیلی ذکرکیاہے۔نذیراحمدبزمی’’نصف صدی کاقصہ‘‘ میں لکھتے ہیں۔ ’’حیدرقریشی کی پچاس سالہ ادبی خدمات کے حوالے سے مجھ ناچیزطفل مکتب کاکچھ لکھناسورج کوچراغ دکھانے کے مترادف ہے،مگراس کے باوجوداپنے شہرکے قابلِ فخرسپوت چندٹوٹے پھوٹے الفاظ لکھ کرگویاانگلی کٹاکرشہیدوں میں شامل ہونے کی سعی لاحاصل کررہا ہوں۔ عمومی مشاہدہ کے مطابق اللہ بہت کم خوش نصیب لوگ ہوتے ہیں جن کواللہ تعالیٰ نے ہرفن مولابنادیاہے۔بہت سے نامورشعراایسے ہیں جو نثر کی ایک لائن لکھنے کی صلاحیت سے بھی محروم ہیں،اسی طرح بیشترنثرنگارشاعری کی سدھ بدھ سے کوسوں دورہوتے ہیں مگرحیدرقریشی وہ خوش نصیب شخص ہے جس نے بیک وقت بطورشاعر،ادیب،افسانہ نگار،انشائیہ نگار،خاکہ نگار،مضمون نگار،محقق،نقاد، دانشور اور ماہیا نگار کے طورپرنقادان فن سے اپنی صلاحیتوں کالوہامنوایاہے۔ان کاقلم آج بھی اسی رفتارسے رواں دواں ہے جیساکہ ان کے ادبی سفرکے آغاز کے وقت تھا، پچا س کے آنے والی معاشی،معاشرتی،سیاسی ،سماجی اورجغرافیائی تبدیلیوں نے ان کے قلم کی جولائی کومتاثرنہیں کیابلکہ مہمیز بخشی ہے جس کی وجہ سے آج بھی ان کی تحریروں میں شگفتگی،روانی ،فصاحت وبلاغت،ندرت خیال،معاشرتی عکس ،بلندخیالی اورباریک بینی جیسی خوبیاں بدرجہ اتم موجود ہیں جیسی اول روزتھیں،اب فنی پختگی کے سبب یہ خوبیاں بدرجہ کمال کوپہنچ چکی ہیں۔‘‘
منزہ یاسمین نے حیدرقریشی کی مختصرسوانح حیات میں ان نے آباواجداد،والدین،بہن بھائیوں،بیوی ،بچوں اوران کی تصانیف کی تفصیلات بیان کی ہیں۔بیوی ،بیٹے،بہو اوردوستوںکے حیدرقریشی کی شخصیت اورمزاج کے بارے میں تاثرات بھی مضمون نگارنے پیش کرکے تحریر کی دلچسپی میں اضافہ کیاہے۔حیدرقریشی کے دوست خورشیداقبال کی رائے ہے۔’’حیدرقریشی کی شخصیت کامنفردپہلوہی ان کے فن کے منفرد پہلوکاذمہ دارہے۔وہ ہے بیباکی اورصاف گوئی۔ان کی غزلوں،نظموں ،ماہیوں،افسانوں اورخاکوں میں سے اگران کی بیبا کی نکال کی جائے توان کے فن کاساراحسن ماند پڑجائے ۔سارے رنگ پھیکے پرجائیں گے۔‘‘
مدیر’’شعوروادراک‘‘محمدیوسف وحیدنے ’’حیدرقریشی کاگلشنِ ادب‘‘ میں تحریرکیاہے۔’’ پچاس سال علم وادب کی ترویج واشاعت کے لیے وقت کرنے والے اردو،سرائیکی کے معروف شاعر،نقاد،محقق،ادیب ومدیرحیدرقریشی کوامسال اپنی ادبی زندگی کے پچاس سال پورے ہونے پرتہہ دل سے مبارکبادپیش کرتے ہیں۔کسے خبرتھی کہ ایک عام سی غزل سے ادبی دنیامیں داخل ہونے والے نوآموزجوان غلام حیدر ارشدجواپنی مستقل مزاجی ،غیرمتزلزل طبیعت اورسچے جذبے ولگن کے ساتھ ترقی کی منازل طے کرتے ہوئے ادبی دنیامیں حیدرقریشی کے نام سے معروف ومتعارف ہوں گے۔‘‘ یوسف وحید نے حیدرقریشی کی ادبی زندگی کے مختلف مراحل کا جائزہ پیش کیاہے۔
معروف شاعراورٹی وی پروڈیوسرایوب خاورکے مضمون کاعنوان’’حیدرقریشی کے نام‘‘ ہے۔’’حیدرقریشی سے میراتعارف دراصل محترم وزیرآغاکے موقرجریدے’’اوراق‘‘ کے صفحات پرچھپنے والی اس کی غزلوں اورنظموں نے کروایاتھا اورمیں نے اسے خان پورسے بلالیا۔ حیدر قریشی کی شخصیت نے مجھے موہ لیا۔سوٹیلی وژن پرایک نئے شاعر اوریک نئے پروڈیوسرڈائریکٹرکایہ عارضی رشتہ پرخلوص دوستی میں ایسے ڈھلا کے جیسے جیسے وقت گزرتاگیایہ اورگہراہوتاچلاگیا۔حیدرقریشی کا’جدیدادب‘ اسی کی دہائی کی زندہ نشانی ہے جسے حیدرنے خان پور کی آب وہوامیں جیسے تیسے زندہ رکھااورپھروہ کب جرمنی چلاگیامجھے معلوم نہیں۔ابھی ایک سال پہلے حیدرکے ٹیلی فون نے مجھے چونکادیا۔ آوازمیں وہی تازگی،پہچان،دوستانہ اورتعلقِ خاطر۔حیدرنے اپنانام لیاتومیں ششدررہ گیااورہمارے بیچ میں سے ستائیس اٹھائیس سال چپکے سے سرک کرایک طرف کوہوگئے۔میں سمجھاحیدرخان پورہی سے بول رہاہے مگروہ توجرمنی سے فون کررہاتھا۔چندمنٹ میں تیرہ انچ کے موٹے شیشے کی دیواردھڑام سے ہمارے درمیان دوبارہ کھڑی ہوگئی فاصلے کااحساس بھی کتناخوف ناک ہوتاہے۔‘‘
معروف ادیب وشاعراکبرحمیدی نے ’’حیدرقریشی،پوراآدمی‘‘ کے نام اورنذیرفتح پوری نے’’لفظوں کامسیحا‘‘ کے عنوان سے حیدرقریشی کے خاکے تحریرکیے ہیں۔اکبرحمیدی نے لکھاہے۔’’ حیدرقریشی کاشماران لوگوں میںہوتاہے جن کی قسمت میں سوائے کامیابی کے کچھ اورلکھاہی نہیں جاتا۔حیدرقریشی نے کامیابی کی شہرادی کووقت کے بہت بڑے دیوکی قیدسے نکال کرحاصل کیاہے۔میں اسے گزشتہ کم سے کم پچیس برسوں سے یاشایداس سے بھی زیادہ عرصہ سے جانتاہوں،پہچانتاہوں بلکہ اس کی دوستی کے اس حلقے میں داخل ہوں جہاں کسی پردہ داری کی ضرورت باقی نہیں رہتی ۔ہم دونوںبڑے اعتماد اورتسلی کے ساتھ دوسرے کے بارے میں جس قسم کی باتیں کرناچاہتے ہیں،کرلیتے ہیں ۔ وہ متوسط قامت کاکھلتے ہوئے گندمی رنگ کا،بھرے بھرے جسم والاآدمی ہے۔کبھی اس کے چہرے پرداڑھی نمابال ہوتے تھے جواب مرورایام کے ساتھ باقی نہیں رہے اوراب ان کی ضرورت بھی نہیں رہی کیونکہ اب وہ پاکستان میں نہیں رہتا،جرمنی میں رہائش اختیارکرچکا ہے۔اس کے مزاج میں ایک بات میں نے حیران کن حدتک دیکھی ہے،وہ عام طورپربے حدجذباتی ہے۔مگردوستوں کے ساتھ متحمل مزاج ۔یہی وجہ ہے کہ اس کے جھگڑے ہمیشہ دوسرے لوگوں سے ہوئے ہیں،دوستوں سے نہیں۔دوستوں کے ساتھ اس نے بعض اوقات زود رنج ہونے کامظاہرہ توکیاہے مگرناراضی کانہیں۔اس کے مزاج میں حسن پرستی کارنگ شروع سے ہی اچھاخاصاہے جواس کی غزلوں میں بھی نمایاں ہوتاہے۔یہی حسن پرستی کاجذبہ ہے جس نے ایک زمانے میں اسے کوچہ عشق کی سیربھی کروادی تھی،مگرکچھ اس طرح کہ وہ اس گلی میں ایک طرف سے داخل ہوا،اوردوسری طرف سے بخیروعافیت نکل آیااپنی خیروعافیت کے ساتھ بھی اوردوسرے فریق کی خیروعافیت کے ساتھ بھی ۔میرصاحب کی طرح اس نے بھی یہاں عزت داروں کی عزت کاپاس کیاہے۔یہی وجہ ہے کہ دشت وصحراکی خاک اڑانے سے بچ کرجرمنی پہنچنے میں کامیاب ہوگیا۔‘‘
بھارتی قلمکارنذیرفتح پوری اپنے خاکے میں لکھتے ہیں۔’’ کچھ لوگ محض مشکلیں پیداکرنے کے لیے ہی عالم ِ وجود میں آتے ہیں،لیکن حیدر قریشی کی خوبی ہے کہ وہ جتنی مشکلیں پیداکرتے ہیںان سے کہیں زیادہ ان مشکلوں کاحل بھی فراہم کردیتے ہیں۔خوشی کی بات ہے کہ وہ محض ادبی میدان ہی میں مشکلیں پیداکرتے ہیں۔ادب بھی کس زبان کا؟اردوزبان کا۔استادہدہدگلشن آبادی فرماتے ہیں کہ اردوکے پرستاروں ، جانثاروں اورتنخواہ خواروںکے طفیل اردو کے لیے پہلے ہی کیامشکلیں کم تھیں کہ حیدرقریشی نے اس میں ماہیے کی دیوارکھڑی کردی۔اتناہی نہیں بلکہ اپنی تائیدوہم رکابی کے لیے ایک لشکرتیارکرکے ادب کے عالمی میدان میں جنگ کااعلان کردیا۔لاکھ سمجھایاکہ بھائی! تخلیقی ادب کا سمندرترقی پسندیت اورجدیدیت کے بعدتھک تھکاکرسویاہواہے اسے کچھ دنوں آرام کی سخت ضرورت ہے۔ابھی ایک دہائی پہلے مظہرامام نے آزاد غزل کاپتھرمارکراس خوابیدہ سمندرمیں طوفان اٹھانے کی کوشش ضرور کی تھی لیکن کچھ دنوں تک موجیں اچھال کرسمندرپھرسوگیا۔کبھی کبھی توایسالگتاہے کہ حیدرقریشی کسی طلسماتی شخصیت کانام ہے۔جہاں دیکھووہاں موجود،جب سوچوتب حاضر،اردوکے بیشتررسائل اور اخبارات پروہ آسمان کی طرح چھائے ہوئے ہیں۔جرمنی میں رہتے ہیں لیکن ادب کاریموٹ کنٹرول ان کے ہاتھ میں ہوتاہے،جس کا استعمال وہ تخریب کے لیے ہرگزنہیں کرتے۔البتہ ماہیے کی تحریک میں رکاوٹ پیداکرنے والوں کووہ اپنے ریموٹ کنٹرول سے خوفزدہ ضرور کرتے رہتے ہیں۔ریموٹ کنٹرول کے درست استعمال کووہ ماہیے کے درست وزن کی تحریک کے ساتھ ساتھ چلاتے ہیں اوراپنی ہنر مندی کی داد پاتے ہیں۔‘‘
ان دونوں خاکوں سے حیدرقریشی کی شخصیت وفن کے کئی گوشے قارئین کے سامنے روشن ہوتے ہیں۔حیدرقریشی کے فن وشخصیت پردیگر مضامین میں سہ ماہی عکاس کے مدیرارشدخالدکا’’حیدرقریشی کی ادبی تیزرفتاری‘‘،فرزانہ یاسمین کاانٹرویو’’حیدرقریشی کاتصورِ محبوب۔ایک مکالمہ‘‘ ڈاکٹرعامر سہیل کا’’حیدرقریشی کی یادنگاری‘‘ ڈاکٹرہردے ناتھ بھانوپرتاب کا’’حیدرقریشی کی نظم نگاری کاخصوصی مطالعہ‘‘ ،ڈاکٹر منا ظرعاشق ہرگانوی کا’’ حیدرقریشی کاماہیانگاری کاسفر‘‘، ڈاکٹررضینہ خان کا’’حیدرقریشی کی انشائیہ نگاری‘‘،خاوراعجاز کا’’حیدرقریشی کے انشا ئیے‘‘،یوسف وحیدکا’’حیدرقریشی کی اردوماہیانگاری‘‘، ناصرعباس نیرکا’’حیدرقریشی کی غزلیہ شاعری۔ایک تجزیہ‘‘ پروفیسرجیلانی کامران
کا’’حیدرقریشی کی افسانہ نگاری‘‘ ،ڈاکٹرعامرسہیل کا’’حاصل ِ تحقیق‘‘ فرحت نوازکا’’حیدرقریشی کی کتابوں کی ایک جھلک‘‘ ،منزہ یاسمین کا’’حیدرقریشی کی مرتب کردہ کتب‘‘،اسحاق ساجدکا’’حیدرقریشی میری نظرمیں‘‘ ڈاکٹررمیشاقمرکا’’ہیں خواب میں ہنوز‘‘،یعقوب نظامی کا ’’ حیدرقریشی کاسفرنامہ۔سوئے حجاز‘‘،ڈاکٹررشیدامجدکا’’حیدرقریشی کی افسانہ نگاری‘‘، نصرت ظہیرکا’’حیدربھائی پرایک ادھورامضمون‘‘ افتخار عارف کا’’حیدرقریشی اورجدیدادب‘‘ مظہرامام کا’’عمرِگریزاں کی شاعری‘‘ ، ہارون الرشیدکا’’ غزلیں ،نظمیں،ماہیے ایک مطالعہ‘‘ نعیم الرحمٰن کا’’عمرلاحاصل کاحاصل‘‘ عبداللہ جاوید کا’’عمرلاحاصل میں شامل افسانے‘‘ منشایاد کا’’میری محبتیں‘‘ محمود ہاشمی کا’’ بنام حیدرقریشی‘‘ اکبرحمیدی کا’’ سوئے حجاز‘‘ نصرت بخاری کاانٹرویو’’حیدرقریشی کاتخلیقی سفر‘‘ ڈاکٹرالطاف یوسف زئی کا’’ہماراادبی منظرنامہ کامطالعہ‘‘ اور شہنازخانم عابدی کا’’مضامین ومباحث کی ایک جھلک‘‘ شامل ہیں۔ان تمام مضامین میں حیدرقریشی کے فکروفن کی تمام جہتوں کو تفصیلی طور پرپیش کیاگیاہے اوران کی مختلف کتب کابھی جائزہ لیاگیاہے۔اس طرح ان کی شخصیت وفن کاکوئی گوشہ قاری کی نظرسے پوشیدہ نہیں رہتا اورقاری اس سے اجمالی طورپرہی صحیح آشناضرور ہوجاتاہے۔اس کاوش پرمدیر’شعوروادراک‘محمدیوسف وحید بھرپورمبارک باد اورتحسین کے حقدارہیں۔
مضامین کے بعد تقریباً چھبیس صفحات پرحیدرقریشی کی غزلوں،نظموں اورماہیے کاانتخاب شامل کیاگیاہے۔جس سے ان کی مختلف اصناف میں شاعری کامعیارقاری کی نظرمیں آجاتاہے۔اگلاحصہ ’’تخلیقات‘‘ کے عنوان سے ہے ،جسے سعدیہ وحید نے مرتب کیاہے۔جس میں حیدر قریشی کے تین نمائندہ افسانے’’غریب بادشاہ‘‘،’’ گھٹن کااحساس‘‘ اور’’ اپنے وقت سے تھوڑاپہلے‘‘ شامل ہیں۔مصنف کے تحریرکردہ چھ خاکے’’ڈاچی والیاموڑ مہاروے‘‘،’’ مصری کی مٹھاس اورکالی مرچ کاذائقہ‘‘،’’ برگدکاپیڑ‘‘،’’ مائے نی میں کنوںآکھاں‘‘،’’پسلی کی ٹیڑھ ‘‘ ،’’پسلی کی ٹیڑھ دوسراحصہ‘‘منتخب کیے گئے ہیں۔ان کی یادوں پرمشتمل دلچسپ کتاب’’ کٹھی مٹھی یادیں‘‘ کے تین طویل اقتباسات دو انشائیے’’ اطاعت گزار‘‘ اور’’ فاصلے ،قربتیں‘‘ اوران سفرنامہ حج ’’سوئے حجاز‘‘ کاابتدائیہ بھی اس انتخاب میں شامل ہے۔مرتب نے بہت ذہانت سے یہ انتخاب کیاہے۔جس سے حیدرقریشی کے نثری ادب کاہرپہلوواضح ہوجاتاہے۔
’’حیدرقریشی گولڈن جوبلی نمبر‘‘ کاآخری حصہ’’ مضامین‘‘کاہے۔جس میں حیدرقریشی کے چارمضامین’’ اردوادب اورالیکٹرونک میڈیا‘‘، ’’ ہرمن ہیسے کاناول سدہارتھ‘‘،’’ میراجی‘‘اور’’ماہیے کاجواز‘‘ شامل ہیں۔خالدیزدانی نے ’’نظرے خوش گزرے‘‘اورحیدرقریشی کے چند انٹرویوزکوجگہ دی گئی ہے۔
اس طرح ’’شعوروادراک ‘‘ کا’’حیدرقریشی گولڈن جوبلی نمبر‘‘ اپنے موضوع کے اعتبارسے ایک بہت عمدہ اوربھرپورشمارہ ہے۔جس میں حیدر قریشی کی شخصیت وفن کاہرپہلو اورہرگوشہ ایک ہی شمارے میں پیش کردیاگیاہے اوریہ نمبرمستقبل میں حیدرقریشی پرکام کرنے والے محققین کے کام آئے گا۔ادب کی ایک ہمہ جہت شخصیت پراتناعمدہ نمبرمرتب کرنے پرمدیرمحمدیوسف وحید کودلی مبارک باد۔شعوروادراک کا اگلے شماروں کاانتظاررہے گا۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...