گرمیوں کی چھٹیاں تھیں۔ سب گھر میں قید تھے اس لئے دل بہت گھبرا رہا تھا۔بہت دنوں سے دل بہلا نے کا کو ئی سا مان بھی نہیں ہوا تھا اسی پرانے نظام سے الجھن سا گیا تھا اور اب کچھ نیا چاہتا تھا مگر کیا؟یہ شا ید اسے بھی پتہ نہیں تھا تبھی اچانک ایک دعوت نا مہ مو صول ہوا دل باغ باغ ہو گیا سو چا چلوتندروی کھائے ہوئے ایک عرصہ گزر گیا اور دل بھی بہل جا ئے گا۔دل انتظار میں جٹ گیا۔اللہ اللہ کر کے وہ گھڑیاں بھی آگئیں جس کا انتظار دعوت نامہ کے سا تھ ہی شروع ہو گیا تھا۔بہت سوچ سمجھ کر مو سم کے حساب سے کپڑوں کا انتخاب کیا اور تیار ہو گئے۔دس بجے گھر سے نکلے کیونکہ اب جلدی جانے والوں کو بیوقوف سمجھا جا تا تھا۔کچھ وقت ر کشہ میں لگا اس طرح گیارہ بجے ہم اس گیٹ پر اترے جو بقۂ نور بنا ہوا تھا جگ مگ کر تا گیٹ۔پھولوں سے جس کو ہر طرف سے ڈھک کر اس کا آہنی زنگ آلود وجود چھپا دیا گیا تھا۔بسم ا للہ پڑھ کر اندر قدم رکھا محفل میں ہر طرف روشنیاں،طرح طرح کی خو شبو ئیں،ر نگین آنچل،مہکتے مسکراتے لوگ ……آگے بڑھے اور لوگوں سے ملنا شروع کیا ”اسلام علیکم خیریت سے ہیں“۔یہ جملہ اللہ جھوٹ نہ بلوائے گیٹ سے نشست تک آتے آتے کو ئی بیس بار تو ادا کر چکے تھے زبردستی ہسنا پڑر ہا تھا کیونکہ گر می بہت لگ رہی تھی اور دل ڈر رہا تھا کہ کہی میکپ نے منھ کا نور نہ اڑادیا ہو ایسے کیسے پوچھ لیتے،کہیں کا لا تو کہیں سفید ہو جا تا تو ……ٹشو سے بہت احتیاط سے جگہ جگہ سے پسینہ خشک کر کے آگے بڑھتے چلے جا رہے تھے۔تلاش ایسی جگہ کی تھی جو پنکھے کے نیچے ہو ابھی کرسی ملی ہی تھ کہ برابر والی کرسی سے ایک بزرگ خاتون اٹھ کر کسی سے ملنے گئیں ان کے اٹھتے ہی ایک اور خاتون ان کی خالی کر سی دیکھ کر اس پر جم گئیں ان کی بلا سے وہ اب کہیں بیٹھیں ……حالانکہ چند لمحوں بعد ہی وہ بزرگ خاتون اپنی جگہ واپس آئیں اور اپنی کر سی پر کسی اور کو بیٹھا دیکھ جز بز سی ہو گئی اور نئی جگہ تلاش کر نے لگیں۔ہم نے ایک نظر ان کی نشست پر بیٹھنے والی خاتون کو دیکھا جو پڑھی لکھی مہذب خوا تین میں شمار کی جا تی تھیں مگر ہماری سوالیہ نظروں کا ان پر کو ئی اثر نہ ہوا۔ہماری غیرت نے اہمی للکارا اور ہم نے جھٹ اپنی کر سی ان بزرگ خاتون کو پیش کر دی اور کھڑے ہو گئے تبھی سا منے سے ہماری کچھ ملنے والی خواتین آتی نظر آئی اور ہم ان کی طرف بڑھ گئے
پنڈال نہا یت خوبصورتی سے سجا یا گیا تھا۔میوزک کی گونج دار آواز سب کو زور زور بولنے پر مجبور کر رہی تھی۔ہر عورت خودکو نما یاں کر نے کی کو شش میں لگی ہوئی تھی۔پیاری پیاری لڑکیاں مو با ئل کان پر لگا ئے ادھر ادھر ٹہل رہی تھیں ہائے ہیلوکی آوازیں برابر ہمارے کانوں میں آرہی تھیں۔آخرمغربی تہذیب ہمارے دلوں پر راج کر رہی تھی ایسے دور میں ہم سلام جیسی پرانی فرسودہ رسم کو ادا کر کے ہم بیک ورڈ کیوں کہلاتے۔صدیاں گزر گئیں یہ کام تو ہمارے آباواجدادکیا کرتے تھے اب ہم ترقی یا فتہ زمانے میں جی رہے ہیں ہم بھی ہائے ہیلوں کی دنیا میں پناہ لیں گے۔ ابھی ہمارا جا ئیزہ پو را بھی نہین ہوا تھا کہ لگا لوگ ایک طرف اشارہ کر کے با تیں کر رہے ہیں ہم نے بھی نظرون کا تعاقب کیا تو دیکھا ایک خاتون جو ابھی ابھی محفل میں دا خل ہوئی تھیں لو گو ں کی نگاہوں کا مر کز وہی تھیں اس وقت بارہ بج ر ہے تھے۔اتنی دیر سے انھیں اتنی دیر کیوں ہوئی ہو گی اس با ت کا اندازہ انہیں دیکھنے والے ہر شخص کو بخوبی ہو رہا تھا۔اف میکپ کی چلتی پھرتی دکان،بلا کی گر می مین بھاری بھر کم والا سوٹ اور چہرہ دیکھ کر ایسا لگ رہا تھا جیسے میکپ اپ کی پوری بوری الٹ لی ہو،چہرہ تو نظر آرہا تھا مگر ان کے اصلی نقوش کیا تھے اس کا اندازہ لگانا ممکن تھا،ان کی آنکھ کا اصل سائیز کیا تھا یہ اندازہ لگانا ہمارے لئے بہت مشکل تھا ان کے گالون پر دانے تھے یا ان کا رنگ کیا تھا کہ حساب کے مشکل سوال کی طرح ہمیں پریشان کر رہا تھا۔بال کتنے اصلی تھے اور کہا سے نقلی جو ڑا شروع ہوا تھا پتہ لگا نا نا ممکن اور زیور ……ما نگ سے لے کر پیر کی انگلی تک کسی نہ کسی چیز سے قید تھی۔لوگ بڑے چاؤ سے ان سے مل رہے تھے اور ہمیں طبعیت انھیں دیکھ کر مکدر ہو رہی تھی یہ سوچ کر کہ ان کی پاس کتنا فالتو وقت ہے جو انہیں گھنٹوں خود پر صرف کر دئے چند لمحوں بعد ادھر سے نظرے ہتا ئیں تو کچھ اور لوگوں سے مل گئیں۔مسکراکر انہیں دیکھا شنا سا ئی نے ہمیں اٹھ کر ان سے ملنے پر مجبور کر دیا۔کیونکہ اب یہ بھی آداب محفل میں شمار ہوتا تھا کہ آپ کسی سے ملنے مت جاؤ،لوگ خود آپ کی طرف آئیں۔مگر ہم سے ملنے تو کو ئی آتا ہی نہیں تھا۔اس لئے ہر بار ہماری غیرت ہی ان لوگوں سے ملنے پر مجبور کر دیا کر تی تھی خیر اٹھ کر گئے۔ابھی پہنچ بھی نہ پا ئے تھے کہ ایک موٹی سی عورت ہم سے ٹکرائی۔بس ہم گر نے ہی والے تھے کہ اللہ نے رحم کر دیا ہم نے خود کو سنبھا لااور انہیں دیکھا۔وہ ہماری ملنے والی ہی خاتون تھیں انہیں دیکھ کر ایسا لگا کہ ان کا قد پہلے سے کچھ زیادہ اونچا ہو گیا ہے مگر کیسے یہ ہماری سمجھ سے بالا تر تھا۔ہم نے ان کا جا ئیزہ لیا تو اس کی وجہ سمجھ میں آئی۔بھاری بھر کم جسم پر پینسل ہیل کا سینڈل……ابھی ہم دیکھ ہی رہے تھے کہ اچانک لگا کوئی گرا ہے دھڑام کی آواز سے سب کو چو نکا دیا۔ ارے……ارے……بچاؤ……ہٹو……اٹھاؤ ……“ان آتی ہوئی آوازوں نے ہمیں وہ نظارہ دکھا یا ہم نے دیکھا وہی تندرست جسم والی خاتون جو ابھی ہمیں شکست دینے والی تھیں اس وقت کسی دوسری عورت کو پست کئے اس پر گری پڑی تھیں۔بڑی مشکل سے لوگوں نے اس بھاری بھر کم پہاڑ کو اٹھایا اور سب ان کی دیکھ بھال کر نے لگے۔
”ارے چوٹ تو نہیں لگی ……بٹھاؤ ……بھئی پا نی پلا ؤ ……ارے چلا کر دیکھوہڈی وغیرہ سب ٹھیک ہے“۔ہمدردی کی آوازیں برابر ان خاتون کے کا نون میں پڑ رہی تھیں اور وہ اپنی سانس کو قابو ں میں کر نے کی کو شش میں تھیں ذراجو سانس قا بوں میں آئی تو بو لیں ……
”ارے مجھے دیکھ رہے ہو۔اسے دیکھو جس بے چاری پر میں گری تھی چوٹ تو اسے لگی ہو گی خدا کا شکر ہے اس کے ہونے نے مجھے بچا لیا“ہم بھی یہی سوچ رہے تھے اس بیچاری کا تو کچومر بن گیا ہوگا پچک کر اسٹیکر بن گئی ہو گی۔ہم نے دیکھا وہ بے چاری تھوڑی دور بیٹھی اپنی چوٹوں کو سہلا رہی تھی،توجہ دلانے پر خواتین نے یہ فریضہ انجام دیا اور اس کی طرف رخ کیا۔ہم پھر واپس اسی رنگ و نور کی محفل میں آگئے گھڑی دیکھی تو سوا بارہ بج رہے تھے اور ابھی تک کھانا بھی نہیں کھایا تھا۔ادھر ادھر نظریں دوڑائیں تو ایک گروپ کھا نے والے پنڈال کی طرف جا رہا تھا دکھائی دیا ہم نے بھی اپنے ہلکے کام والا دوپٹہ سنبھالا اور اسی طرف چل دئے۔وہاپہنچے تو سماکچھ اور ہی تھا ایک جم غفیر تھا لو گوں کا۔اور عجیب عجیب سی آوازیں آرہی تھیں تھو ڑی مشقت کے بعد ہمیں بھی ٹیبل پر بیٹھنے کا شرف حا صل ہو ہی گیا۔ابھی پچھلا کھا نا سمٹا نہیں تھا کہ لو گ بیٹھ گئے۔۔ٹیبل پر نظر ڈالی تو بچے کھچے سالن کے ڈونگے اور بر یا نی مسکراتی نظر آئی البتہ دستر خوان با لکل صاف تھا۔ایک طائیرانہ نظرڈالی اور ذرا پیر ہلا یا تو تو پیر کے نیچے کچھ نرم نرم سا محسوس ہوا۔ہم نے گھبراکر پیر ہٹایا اور نیچے نگاہ کی تو ……الامان ا لحفیظ……یہ کیا ……؟پو ری ٹیبل کے نیچے کھا نابچھا پڑا تھا۔ہما ری سمجھ میں نہیں آیا کہ کھانا کر سی پر بیٹھ کر کھا یا گیا ہے یا کر سی کے نیچے بیٹھ کر ……کیونکہ دسترخان تو نیچے بچھا ہوا تھا ذرا تفصیلی نظر ڈ الی تو دیکھا جا بجا مر غ کی چو سی ہوئی ٹانگیں اور با قی جسم کے حصے کچھ کھائے کچھ بغیر کھا ئے ادھر ادھر اپنی جوان گنوانے کے سوگ میں نو حہ خوانی کر رہے تھے تو کہیں بریا نی کی بو ٹیاں اور رنگین چاول مسکرا رہے تھے کہیں ذردہ کا چھینٹا تھا اس دستر خوان کو روٹ کے ٹکڑوں سے مزئن کیا گیا تھا۔اس نئی تہذیب کے درشن کر کے دل چا ہا کہ اٹھ جا ئیں۔مگر پیٹ کی آگ اور دئے گئے لفافہ کی گر می نے یہ سب بر داشت کرنے پر مجبور کر دیا اور ہم بیٹھے رہ گئے مگر اس بیکار ہو تے کھانے کو دیکھ کر ان لا کھوں لو گوں کی بھوک یاد آئی جن کو دو وقت کی تازہ روٹی کیا با سی روٹی اور چٹنی بھی اس مہنگائی کے دور میں نہیں مل پا رہی ہے ”۔کاش یہ سب یوں ضائع ہو نے کے بجا ئے ان سب کے پیٹوں میں چلا جا تا اس احساس نے ہمارے دل کو تھوڑا سا ملول سا کر دیا۔ہم ایک لمبی سی سانس چھوڑ کر ٹیبل کی طرف متوجہ ہوئے جہاں کی کھڑ پٹر بتا رہی تھی کہ کھا ناشروع ہو چکا ہے ہم نے ڈونگے کی طرف ہا تھ بڑھا یا مگر ہم سے پہلے ہماری سامنے بیٹھی خاتون نے ڈونگا اپنی طرف کھینچ لیا اور اپنی پلیٹ میں مرغ کی تر ترالی ٹا نگ اور تین چار پیس نکال کر ڈونگا ہمار ی طرف بڑھا دیا۔اب اس بیچارے میں رہ ہی کیا گیا تھا ہم نے صبر شکر کے ساتھ تھوڑا سا سالن نکالا اور روٹی کی تلاش میں نظریں ادھر پھر ان خاتون کی طرف چلی گئیں ہم نے دیکھا کہ انھوں نے نہایت بے تکلفی سے مرغ کی تر ٹانگ اٹھا ئی اورا پنے دانتوں سے تو ڑنا چا ہی۔مگر گوشت ذرا سخت جان نکلا۔گوشت اور دانتوں میں کشتی ہوئی اور انھونے بو ٹی الگ کر نے کی کوشش میں اپنا ہاتھ کھنیچا۔ہاتھ ایک جھٹکے سے با ہر آیا اور برابر میں رکھے پانی کے جگ سے ٹکرا یا اور دیکھتے ہی دیکھتے پو را جگ بغل میں بیٹھی خاتون کی پلیٹ اور گود بھر گیا۔یہ سب اتنا اچانک ہوا کہ وہ خود نہ سمجھ سکیں اب تو ٹیبل کا حال ہی کچھ اور ہو گیا۔گیلی ہوئی خاتون نے زخمی شیر کی طرح انھیں دیکھا اور پھر اپنی پلیٹ کو۔ہماری نظروں نے بھی ان کی نظروں کا تعا قب کیا جو ان کی سا تھ پلیٹ پر جم گئیں۔ایک دلفریب مسکراہٹ ہما رے لبوں پر کھیل گئی ابھی ابھی انھو نے گرم گرم بر یا نی نکالی تھی جس کے چاول اب پانی میں کمل کی طرح تیر رہے تھے اور بوٹیا ں اپنی گرمائی کھو چکی تھیں۔اٹھنے والی بھانپیں اچانک رک گئی تھیں۔وہ بے چاری بڑ بڑاتی ہوئی اٹھیں کپڑے جھا ڑے ……ہم نے سو چا شا ید بے چاری کا کھا نا بھی گیا۔مگر یہ ہماری بھول تھی۔آخر لفافہ تو انہوں نے بھی دیا تھا۔جس کی گرمی نے یہ برداشت کرنے کی ہمت دی۔وہ دوسری پلیٹ لیکر اور سوری کا لفظ سن کر پھر بیٹھ گئیں۔وہ خاتون مرغ کی بو ٹیاں کھا تی جائیں اور نیچے لگے دستر خوان پر سجا تی جا ئیں۔
بڑی کراہیت سے ہم نے کھانا کھایا رب کا شکر ادا کیا اور آداب محفل کے تحت بیٹھے رہے کہ سب لوگ کھا چکیں تو اٹھیں۔اللہ اللہ کر کے یہ دعوت طعام اختتام پزیر ہوئی اور ہم نے ایک با رپھر رب کا شکر ادا کیا اور گھر جا نے کا ارادہ کیا۔دو چارلو گو ں سے الوداعی ملا قاتیں کیں کسی سے نہ آنے کا شکوہ کیا اورکسی کے یہاں جا نے کا وعدہ کیا اور اللہ اللہ کر کے رات کے ڈیڑھ بجے پنڈال سے با ہر نکلے۔باہر نکلتے ہی آدھی رات گزر جانے کا احساس ہوا اور ہمارے قدم بڑی تیزی سے گھر کی طرف چل پڑے مگر ہمارے ذہن میں بہت سے سوال اٹھ رہے تھے جن کے جواب نہ جا نے کہاں تھے۔کیا آپ ان کے جواب بتا سکتے ہیں۔
( ختم شد)