نام جو بھی رہا ہو ، شہر میں وہ ڈاکٹر ڈاگ کے نام سے ہی مشہور تھا ۔حالانکہ وضع قطع کے اعتبار سے وہ ایک مصور یا کارٹونسٹ ہی لگتا تھا کیونکہ اُس کی بھوری رنگت کے لمبے بال آوارگی کی حد تک اُس کے شانوں تک نکل آئےتھے اور ہمہ وقت اس کے شانوں پر جھولتے اور خرمستیاں کرتے ہوے نظر آتے تھے ۔پھر صورت بھی بُری نہیں تھی ۔ لگ بھگ تیس سال کی عمر کا وہ ایک خوبرو نوجوان تھا ۔ لحیم شحیم اور صحتمند ۔ یہ اور بات تھی کہ کبھی کسی کافر حسینہ نے اُس پر اپنی نگاہِ کافرانہ سے وار کیا ہو اور اُسے ایسی ویسی نظروں سے دیکھا بھی ہو ۔لڑکیاں اُس کا نام سُنتے ہی بدک جاتی تھیں اور کترا کر نکل بھی جاتی تھیں۔ کیونکہ وہ ڈاکٹر ڈاگ تھا ۔ شہر کا مشہور و معروف ڈاگ اسپیشلسٹ ۔
وہ تنہا اپنے فلیٹ میں مُقیم تھا مگر ٹام کے ہوتے ہوئے وہ اپنے آپ کو تنہا نہیں سمجھتا تھا ۔ وہ ٹام کی ہر بات سمجھتا تھا اور ٹام بھی اُس کی ہر بات کو سمجھتے ہوے اُسے ہر دم خوش رکھنے کی کوشش میں جُٹا رہتا تھا۔صبح اور شام گھر کی بائی فخرو بھی گھر میں موجود رہتی تھی اور صفائی ستھرائی کے ساتھ ساتھ دونوں کا کھانا بھی بنا کر چلی جاتی تھی ۔ٹام کے نخرے اکثر اُس پر گراں بھی گزرتے تھے مگر ٹام کی گزبھر لمبی زبان اور عقابی تیور دیکھتے ہی اُس کی روح فنا ہو جاتی تھی اور وہ سہمی سہمی سی اپنے کام میں مگن ہوجاتی تھی ۔ ٹام مگر دل کا بُرا نہیں تھا ۔ بڑا سمجھدار تھا اور بلا مقصد کے کسی کو تنگ بھی نہیں کرتا تھا ۔
شام کواکثر ڈاکٹر ڈاگ سیر کی غرض سے ساحل سمندر کا رُخ کرتا تھا ، جو اُس کے فلیٹ سے ذیادہ دُور نہیں تھا ۔بھیڑبھاڑ سے پرے وہ دُور اگےتک نکل جاتا تھا جہاں بھیڑ نہ ہونے کے برابر رہتی تھی ۔ یہاں کالی چٹانوں کا بھی ایک سلسلہ تھا جو آگے دُور تک پھیلا ہوا تھا ۔ یہاں پرندوں اور سمندری جانوروں کی ایک اچھی خاصی تعداد بھی جمع رہتی تھی ۔ اِن پرندوں اور جانوروں میں نیل کٹھ سے لے کر کچھوے اور کیکڑے تک شامل ہوتےتھے ۔ کالی چٹانوں کے دور تک پھیلے سلسلے کی آڑ میں کہیں کہیں نوجوان جوڑے بھی نظر آتے تھے جو دنیا و مافیہا سے بے خبر اپنی ہی دُھن میں نظر آتے تھے ۔
حسبِ معمول ڈاکٹر ڈاگ شام کو ساحل سمندر کی سیر پر تھا ۔ ٹام بھی پیچھے پیچھے اپنی دُم ہلاتا ہوا اُس کے ہمراہ تھا ۔ دونوں کافی آگے نکل آئے تھے اور چٹانوں کے سلسلے کی نشیب میں ریت کے اُس کھُلے میدان تک پہنچ گئےتھے جو اکثر و بیشتر ویران ہی رہتا تھا ۔وجہ عیاں تھی، یہ علاقہ ویران اور خطرناک تھا ۔یہاں سمندری کیکڑوں سے لے کر زہریلے سانپ تک رینگتے ہوے نظر آتے تھے ۔ شام کو البتہ کچھووں اور کیکڑوں کی پریڈ دیکھنے کے لایق ہوتی تھی ۔یہ کچھوے شام کو کثیر تعداد میں نمودار ہوجاتے تھے اور ریت پر رینگتے ہوے ایک عجیب سا سماں باندھ دیتے تھے ۔ کیکڑے بھی ریت پر مستیاں کرتے ہوئے کچھوؤں کو اپنی موجودگی کا احساس دلاتے رہتے تھے ۔ فی الوقت کچھ ایسا ہی سماں بندھا ہوا تھا، جسے ڈاکٹر ڈاگ اور ٹام بڑے انہماگ سے دیکھ رہے تھے ۔ اچانک ان کی نظر ریتلے میدان کے اس حصے پر پڑی جہاں کتوں کا ایک بڑا سا مجمع لگا ہوا تھا ۔ بد وضع کالی چٹانوں کی چھوٹی سی پہاڑی کے دامن میں ایک ساتھ سینکڑوں کتے جمع تھے جو اگرچہ پُرسکون تھے مگر خاصے پُرجوش بھی تھے ۔ ربط و ضبط کا فُقدان ہو ، ایسا بھی نہیں تھا ۔ کتے کالی چٹانوں کی طرف منہ کیے ہوے تھے ۔
ڈاکٹر ڈاگ اور ٹام دونوں بڑے حیران تھے اور پھٹی پھٹی آنکھوں سے یہ سب کچھ دیکھ رہے تھے ۔ نسبتا" کچھ اونچائی پر درجن بھر کُتے بھی نظر آے جو اُوپر کی چٹانوں پر براجمان تھے اور اپنا مُنہ کتوں کے مجمع کی طرف کیے ہوے تھے ۔
" باپ رے باپ" ڈاکٹر ڈاگ کے مُنہ سے نکل گیا ۔ وہ اب حیران نگاہوں سے ٹام کی طرف دیکھ رہا تھا جو اپنی گز بھر لمبی زبان باہر نکالے خود بھی حیران تھا ۔
" ٹا۔۔۔م۔۔۔۔ یہ کیا ہے ۔؟ "
" اُوں ۔۔۔۔او ای ۔۔۔او۔۔۔۔او۔۔ ۔" ٹام نے اپنے لمبے منہ کو اِدھر اُدھر گھماتے ہوئے اپنی زبان کا استعمال کیا ۔ یعنی " آقا ابھی میری سمجھ میں کچھ نہیں آیا ۔ چل کر دیکھتے ہیں ۔"
" ہاں ہاں چلو ۔" ڈاکٹر ڈاگ کی دلچسپی کچھ بڑھ سی گئی ۔
دونوں کتوں کی نظریں بچاتے ہوئے پہاڈی کے عقب میں چلے آے اور پہاڈی کے ٹیلے پر چڑھ گئے ۔ اب وہ سب کچھ دیکھ اور سن بھی سکتے تھے ۔ ٹام تو خیر کتوں کی زبان سمجھ سکتا تھا، ڈاکٹر ڈاگ بھی ان کی زبان سے واقف تھا ۔ کیونکہ وہ ڈاکٹر ڈاگ تھا ۔ کتوں کا ماسٹر، ان کی رگ رگ سے واقف تھا اور ان کی نفسیات کو بہتر طور سمجھ بھی سکتا تھا ۔
" آقا۔۔۔۔ کتوں کا کنونشن ہے ۔" ٹام نے اپنی زبان میں مالک کو آگاہ کیا ۔
" ہوں ۔۔۔۔۔ تو یہ بات ہے ۔" ڈاکٹر ٹام سنجیدہ ہو گیا ۔
" ٹا۔۔۔۔م ۔۔ ۔" اُس نے ٹام کی پیٹھ تھپتھپائی ۔
" میرے خیال میں شہر کے نامی گرامی کتے کنونشن میں شامل ہیں ۔؟"
جوابا" ٹام نے اپنا لمبا سا مُنہ اثبات میں ہلادیا ۔
" کاروائی دیکھنی پڑ ے گی آقا ۔" وہ بولا ۔
" بے شک ۔" ڈاکٹر ڈاگ نے اتفاق کیا ۔
جبھی چٹانوں کی آڑ لیتے ہوے دونوں کاروائی دیکھنے میں مشغول ہو ے اور کاروائی میں دلچسپی لینے لگے ۔ تھوڑی دیر مندوبین یکے بعد دیگرے اپنی اپنی تقریریں کرتے گئے اور اپنے اپنے مسائل اُبھارتے رہے ۔پھر صدارتی تقریر بھی شروع ہوئی جو یقینا" سننے کے لائق تھی اور قابل داد بھی ۔ جوں ہی ایک ہمہ رنگی فربہ جسم کُتا کھڑا ہوا تو سارے کتوں نے ووں۔۔ووں۔۔۔۔ وو۔۔۔۔ ں۔۔۔۔۔ کی آوازیں نکالتے ہوئے اس کا استقبال کیا جبھی اس نے اپنی تقریر شروع کی ۔
" مُذکران و مونثان ۔۔۔ ۔ میں آپ سبھوں کا تہہ دل سے ممنون و مشکور ہوں جو آپ اپنی گونا گوں مصروفیات کے باوجود ہمارے اس کنونشن میں تشریف لے آئے ۔ آپ نے اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا، اپنے اپنے مسائل اُجاگر کئے اور اپنی اپنی تجاویز پیش کیں ۔ ان پر غور و فکر ہوگا اور ان کا ازالہ بھی ہوگا مگر ۔۔۔ ۔۔۔ ۔"
" اس وقت جو اہم مسئلہ ہمارے سامنے سر اُبھارے ایستادہ ہے، وہ ہماری کائنات کی بقا کا ہے جو بہر صورت سب سے بڑا ہے اور جس پرغور و فکر بڑا لازمی ہے ۔ اس وقت ہماری کائنات تباہی کے دہانے پر کھڑی ہے اور کوئی حیران کن بات نہیں کہ اگر قیامت آجائے اور کائنات لمحوں میں فنا ہوجاے ۔ اب اس میں اگرچہ قصور کتوں کے سماج کا نہیں ہے اور یہ صرف اور صرف حضرت انسان کی کارستانیوں کے سبب ہے مگر تباہی کی شکار تو پوری کائنات ہے، جس میں ہم بھی رہتے ہیں ۔"
" ایٹم بم، ہائیٹروجن بم، نائٹروجن بم اور دیگر مہلک ہتھیاروں کی ایجاد تو اشرف المخلوقات کہلانے والی اس مخلوق کی ہی دین ہے ۔ دو جنگ عظیم کو لڑنے اور لڑانے والے بھی یہی لوگ ہیں ۔ اب بھلا اس مخلوق کو کون سمجھاے کہ ایک کنکر مارنے سے بھی انسان کی ہلاکت ہو سکتی ہے ۔ پھر یہ بم کیوں؟ بارود کیوں، بندوق کیوں اور آگ و آہن کا کھیل کیوں۔؟"
ہمہ رنگی فربہ جسم کتا اک دم جذباتی ہوگیا اور زور زور سے گرجنے لگا ۔ جبھی مجمع میں شامل کتوں نے بھانت بھانت کی آوازیں نکالتے ہوئے تقریر کی داد دی اور اپنی آگے کی ٹانگیں ہوا میں لہرا لہرا کر اور تالیاں بجا بجا فربہ جسم نیتا کو داد و تحسین پیش کی ۔
" مُذکران و مونثان ۔۔۔۔ یہ وقت صرف تالیاں بجانے کا نہیں ہے بلکہ غورو فکر کا بھی ہے اور کچھ کر گزرنے کا بھی ۔حضرت انسان نے کائنات کی دیگر مخلوقات کی زندگی کو بھی اجیرن بنا کے رکھ دیا ہے ۔ ہماری کائنات پر قتل و غارت،کینہ پروری، فتنہ فساد اور دیگر جرائم پیدا کرنے والے یہی حضرات ہیں ۔ہم تو حیران ہیں کہ یہ لوگ اشرف المخلوقات کا تمغہ لگا کر کس صفائی اور بے باقی سے ہماری کائنات کو تباہ و برباد کر رہے ہیں ۔ ان کی کرتوت تو دیکھئے ۔ توبہ توبہ ۔۔۔۔۔ ۔"
" حاظرین و ناظرین ۔۔۔۔ ہماری اور دیگر چرندو پرند کی تو خیر چھوڑیئے ، یہ حضرت تو اپنی بیخ کنی پر تُلا ہوا ہے ۔ اپنی ہی بیخ کنی اور نسل کُشی کر رہا ہے ۔ جنسی تفاوت کی بنیاد پر اپنی ہی اولاد کو جنم دینے سے قبل مار رہا ہے ۔ نہ جانے کتنی ہی معصوم بچیاں جنم سے قبل ہی رحم میں دم توڑ دیتی ہیں ۔ عصمت ریزی کا وہ دور دورہ ہےکہ حضرت ابلیس بھی کان پکڑے شرمسار نظر آے ۔مکروفریب میں تو یہ مخلوق کافی ماہر ہے ۔ ہر ایک مکروفریب کی دوکان سجائے بیٹھا ہے اور اپنے کاروبار کو آگے بڑھا رہا ہے ۔ کوئی سیاست تو کوئی مذہب کی بنیاد پر ۔۔۔۔۔کیونکہ ۔۔۔۔۔۔ ۔"
" وہ اپنے ذہنی دیوالئیے پن کا شکار ہے، ساری سُدھ بُدھ کھو چکا ہے اور یقینا"اپنی راہ بٹھک رہا ہے ۔ ستم ظریفی یہ کہ گناہ وہ کررہا ہے اور خمیازہ کُرہ ارض کی دیگر مخلوق کو بھی بھگتنا پڑتا ہے ۔۔۔۔ ہم کیوں بگھتیں بھائی ۔۔۔۔۔۔ ؟ آخر ہم کیوں بگھتیں ۔۔۔۔ ۔؟"
فربہ جسم ہمہ رنگی نیتا دم سادھنے لگا اور اپنے لمبے منہ پر آیا ہوا پسینہ اپنے اگلی داہنی ٹانگ سے پونچھنے لگا ۔ اس دوران خاموشی چھائی رہی اور رنجیدہ و سنجیدہ کیفیت طاری رہی ۔جبھی نیتا پھر شروع ہوگیا ۔
" حد ہوگئی بھائی ۔حضرت انسان نے مکروفریب کی سیاست اب ہماری مخلوق و برادی میں بھی متعارف کرائی میں بھی متعارف کرائی ہے ۔ اس نے اپنی پہلی سی نوچی ہوئی ہڑیاں ہمارے سامنے پھینک کر ہمیں آپس میں لڑوا کر تقسیم کیا ہے ۔ہماری مخلوق میں ذات برادی کا تفرقہ کھڑا کیا ہے ۔ کسی کے گلے میں پٹہ ڈال کر اسے جرمن شفرڈ بنایا ہے،کسی کو بلڈہاونڈ تو کسی کو ڈابر مین بنایا ہے ۔ کسی کو اعلی نسل تو کسی کو پایہ نسل بنادیا ہے ۔۔۔۔۔ میں کہتا ہوں، حضرت انسان کی چالوں کو سمجھ لیجئے اور اپنی مخلوق کو بچالیجئے ۔ بھائی لوگو، دنیا میں سبھی مخلوق کے کاٹے کا علاج ہے مگر اللہ قسم کائنات میں حضرت انسان کے کاٹے کا کوئی علاج نہیں ۔ اگر ہم خبردار نہ ہوئے تو ہمیں بھی حضرت انسان بننے میں دیر نہیں لگے گی ۔ یہی ہماری تباہی و بُربادی ہوگی جو ہم کسی بھی صورت میں نہیں چاہیں گے ۔
فربہ جسم ہمہ رنگی کُتے کی تقریر طول کھینچتی جارہی تھی اور ڈاکٹر ڈاگ منہ بسورتا ہوا یہ تقریر سُن رہا تھا ۔اسے ڈر تھا کہ اس تقریر کا ٹام پر کہیں کہیں کوئی منفی اثر نہ پڑے اور وہ بغاوت نہ کر بیٹھے۔ کن اکھیوں سے اس نے ٹام کی طرف دیکھا ۔۔۔۔۔ ٹام کافی رنجیدہ تھا اور ہمہ تن گوش تقریر سُںن رہا تھا ۔
" توبہ توبہ، کیا خرافات ہے ۔" ڈاکٹر ڈاگ، ٹام کی پیٹھ تھپتھپاتے ہوئے بولا ۔
" چلو ٹام ۔۔۔۔ کافی دیر ہو چکی ہے ۔" اس نے ٹام کو جھنجوڑا ۔
" طوعا"وکرہا" ٹام اپنی جگہ سے اٹھتا ہوا ڈاکٹر ڈاگ کے پیچھے ہو لیا ۔ وہ کافی اُداس اور رنجیدہ تھا ۔ چہرے پر کرب و تفکر مترشح تھا ۔ اس نے اپنے آقا کی طرف دیکھا ۔ وہ بھی کافی پریشان تھا اور لمبے لمبے ڈگ بھرتا ہوا آگے بڑھ رہا تھا ۔
شام اب کافی گہری ہوچکی تھی اور رات میں ڈھلنے کی تیاری کر رہی تھی ۔ نیلے بیکراں آسمان کی وسعتوں میں بے شمار پرندے اپنے اپنے گھونسلوں کی طرف اُڑان بھرے ہوئے تھے ۔کچھوے کثیر تعداد میں ریت پر رینگتے ہوے سمندر کی طرف محو سفر تھے اور کیکڑے بھی اُچھلتے کودتے اپنے اپنے ٹھکانوں کی طرف رواں دواں تھے ۔ کُتوں کا کنونشن ہنوز جاری تھا اور تقریر تھی کہ تول ہی کھینچتی جارہی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔