مت ماری گئی تھی میری ، جو میں نے واٹس ایپ پر اُسے اپنی تصویر بھیج دی ۔ وہ اِیکدم سےاُکھڑ گیا اور پھر بس لینے کے دینے پڑ گئے ۔ وہ بجائے شادو شادماں ہونے کے سخت رنجیدہ ہوا اور ایک کٹھور پولیس والے کی طرح پُوچھ گچھ پر اُتر آیا ۔ یہ کوئی نئی بات نہیں تھی ، بلکہ اکثر ایسی نوک جھونک ہوتی ہی رہتی تھی اور وہ مجھے پریشان کرنے پر تُلا رہتا تھا۔ اب ہوا یوں کہ بڑی کٹھور گرمیوں کے بعد ایک روز جو برسات کے دیدار نصیب ہوئے تو مُجھ سے رہا نہ گیا ۔ بارش شروع ہوتے ہی اُفتاں و خیزاں مسرور سی چھت پر چلی آئی اور بغیر کوئی لمحہ ضائع کئے بارش میں بھیگنے لگی ۔ بڑا اچھا لگ رہا تھا ، جیسے اچانک جلتے بدن پر ٹھنڈک سی پڑ گئی ہو اور پورے شریر میں جیسے تازگی اُتر آئی ہو ۔ میں بڑی مسرور تھی اور ننگی چھت پر گنگناتی ہوئی رقص کررہی تھی ، اچانک رگِ رومانیت پھڑک اُٹھی اور مجھے وہ یاد آئے ۔ وہ جیسے میرے سامنے آکر کھڑے ہو گئے ۔
" یہ کیا ہورہا ہے یاسُو ڈارلنگ ۔۔۔ ۔؟ وہ بڑے پیار سے بولے ۔
" کیوں جی ، دِکھتا نہیں کیا ۔؟ ۔۔۔ بارش میں بھیگ رہی ہوں اور سسیلفی لے رہی ہوں ۔" میں اک اّدائے کافرانہ سے بولی ۔
" اووووو ۔۔۔۔۔۔ سیلفی ۔۔۔۔۔۔ ۔ میرے لئے۔۔۔۔ بہت خوب ۔؟" وہ چڑانے کے انداز میں بولے ۔
" تمہارے لئے نہیں کسی اور کےلئے ۔" میں بھی جیسے اُسے چڑانے لگی ۔
" بس ۔۔۔ بس ۔۔۔۔ نیچے چلی جاو ، کہیں سردی زُکام ہوگیا تو ۔۔۔۔۔" وہ میرے چِڑانے سے جیسے غُصہ ہوگئے۔
میری تو جان ہی نکل گئی ۔ میں اکثر اُس کے غُصے سے بہت ڈر تی تھی، کہیں وہ سچ مچ بُرا نہ مان جائے اور اُکھڑ نہ جائے ۔ یہ سوچ کر میں جھٹ سے نیچے چلی آئی اور اپنے کمرے میں اپنے گیلے بال جھٹکنے لگی ۔ وہ پھر جھٹ سے جیسے سامنے آکر کھڑے ہوگئے اور مجھے چھیڑتے ہوئے گُنگنانے لگے ۔
" نہ جھٹکو زُلف سے پانی ، یہ موتی پھُوٹ جائیں گے ۔
" بس ۔۔۔۔ بس ۔ زیادہ شعر وشاعری نہیں ۔ کوئی خرافات نہیں ۔مجھے بہت سارےکام کرنے ہیں ۔ اب آپ چلے جایئے ۔"
پھر وہ جیسے چلا بھی گیا اور میں ایک صوفے پر بیٹھتی ہوئی تھوڑی دیر پہلے کھینچی گئ سیلفیاں دیکھنے لگی ، جو میں نے چھت پر رِم جِھم برستی برسات میں کھینچی تھیں ۔ بڑی پیاری تصویریں تھیں ۔ میں ، میری بھیگی ہوئی زُلفیں اور میرے بھیگے ہوئے کپڑے ۔۔۔۔۔ شاید جواد کو اچھی لگیں ، میں بس سوچتی رہی ۔ کیوں نہ اُسے بھیج دوں ۔؟ میں زیرِ لب بڑبڑائی اور اپنا سر اثبات میں ہلاتی رہی ۔
پھر تھوڑی ہی دیر بعد مُسکراتی اور اپنی آنکھیں کئی زاویوں سے گُھماتی ہوئی میں نے یہ تصویریں جواد کے واٹس ایپ پر ڈال دیں اور اُس کے ردِ عمل کا انتظار کرنے لگی ۔ تھوڑی ہی دیر بعد اچانک فون کی گھنٹی بجی اور طوفان کی وہ آندھی چلی کہ سنبھلنا مُشکل ہوگیا۔ جواد ایک دم سے اُکھڑ گیا اور مُجھ پر ایسے برسا کہ میں بس سہم کر رہ گئی۔ وہ خوب برسا، چھم کر برسا، کُچھ اس طرح سے کہ میں تھوڑی دیر پہلے ہوئی رِم جھِم برسات کی چھم چھم بھول گئی ۔ میری سٹی پٹی گُم ہو گئی اور میں چنار کے خزانی پتوں کی طرح پیلی پڑ گئی۔ وہ بہت غصے میں تھا ۔
" کیا ہوا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔؟؟؟؟؟" میں بدقِت تمام بولی ۔
" اّری، یہ سڑک پر کون ہے بائیک پر ۔" وہ فُون پر چلایا ۔
" مطلب، کون ۔۔۔۔ کہاں ۔۔۔۔۔۔ ۔؟ میری تو جان ہی نکل گئی ۔
" جو تصویر بھیجی ہے ۔ اُس کے پس منظر میں جھانک کر دیکھو ۔" وہ طنزیہ اور غصیلے لہجے میں بولا ۔
" ایک مِنٹ، دیکھتی ہوں ۔" میں پھنسی پھنسی سی آواز میں بولی ۔ میرا دل دھک سے رہ گیا ۔
کافی ڈر گئی اور میرے پیروں تلے کی زمین جیسے سرک گئی ۔ اکثر ایسا ہوتا تھا، وہ مجھ پر شک کرتا تھا اور مجھے بہت تنگ کرتاتھا ۔ طعنے مارتا تھا اور مجھ سے جھگڑتا تھا ۔میں اپنا سر پیٹتی تھی اور گھنٹوں رویا کرتی تھی۔ میں اب عاجز تھی اور اپنی قسمت کو روتی ہوئی اکثر و بیشتر اُداس رہتی تھی۔ مگر وہ مجھے دیوانوں کی طرح چہتا بھی تھا اور یہ اُس کی دیوانگی کی انتہا ہی تھی کہ وہ مجھ پر شک کرتا تھا ۔ اس بات کا مجھے احساس بھی تھا اور یہی وجہ تھی کہ اُس کی ایک مُسکراہٹ پر میں نِہال ہوجاتی تھی اور اُس پر قربان ہو جاتی تھی ۔ وہ تھا ہی ایسا ، خوبصورت ، جاذب نظر اور پُرکشِش ۔ جعفر جواد ۔۔۔۔۔۔۔ ادبی دنیا کا ایک جانا پہچانا نام ۔ چمکتا اور کھلکھلاتا ہوا ایک وجود اور اپنی مثال آپ ۔ میں ادب کی دیوانی تھی ہی ، بس اُس سے پیار کر بیٹھی اور اُس پر نچھاور ہوئی ۔ اب اگرچہ بُھگت بھی رہی تھی ، مگر اُسے دیوانگی کی حد تک چاہتی بھی تھی۔ کبھی کبھار میرا غُصہ دیکھ کر اُس کی بھی ہیکڑی نکل جاتی تھی اور وہ بڑی دانشمندی سے دو قدم پیچھے ہٹتا ہوا مجھے منا بھی لیتا تھا۔ میں اسے بہت چاہتی تھی، دیوانگی کی حد تک اور وہ بھی ۔ اب میں اُسے زیادہ چاہتی تھی یا وہ مجھے ، یہ ایک ایسی بحث تھی کہ جس کا کوئی جواب نہیں تھا ، مگر بعض اوقات بحث چھڑ بھی جاتی تھی اور اس موضوع پر گفتگو بھی ہوتی تھی ۔
اب میری ساری توجہ اُس تصویر کی طرف گئی جو میں نے تھوڑی دیر قبل اُسے واٹس ایپ پر بھیجی تھی، اور جسے دیکھ کر وہ غُصہ ہوئے تھے ۔ جّبھی میں پریشان ہونے کے باوجود کِھلکِھلا کر ہنس پڑی ۔ تصویر کے پس منظر میں نیچے سڑک پر ایک آدمی اپنی بائیک پر یو ٹرن لیتا ہوا نظر ارہا تھا جو شاید اچانک بارش آنے کی وجہ سے واپس گھوم کر اپنے گھر جارہا تھا کہ بارش میں بھیگنے سے بچ جائے ۔ میں نے دیکھا تو میری جان میں جیسے جان آگئی ۔
" کیا ہے جان ۔۔۔۔۔ میں اسے جانتی بھی نہیں ؟" میں بڑے اعتماد سے فون پر بولی ۔
" کوئی عاشقِ نامراد ہی ہوگا ۔" جواد طنزیہ لہجے میں بولا ۔
" ایسا کُچھ نہیں ہے ۔" میں نے مُختصر سا جواب دیا۔
" ایسا ہی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔؟" وہ بے اعتباری سے بولا ۔
" تو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔؟" اچانک مجھے بھی غُصہ آگیا۔
پھر تو بات بگڑ ہی گئی ۔ وہ انا کا پاسدار اُکھڑ گیا ، مجھے صلواتیں سُنانے لگا اور اناپ شناپ کہنے لگا ۔ میں نے بھی اُسے آڑے ہاتھوں لیا۔ " آپ مجھ پر زیادہ حق نہ جتائیں تو بہتر ہوگا۔" میں غُصے میں بولی تو جیسے کولتی پر تیل چھڑک گیا ۔ وہ تلِملا اُٹھا اور اب برسنے ہی والا تھا کہ میں نے فون کاٹ دیا ۔ پھر کیا تھا ۔ وہ فون پر فون کرتا گیا اور میں فون کاٹتی گئی ۔ جب زیادہ تنگ آگئی تو میں نے فون سوئچ آف کردیا ۔
میں بہت دُکھی ہوئی اور رات دیر تک سوئی نہیں بلکہ پوری رات روتی رہی اور انرر ہی اندر کُڑھتی رہی ۔ اپنی قسمت پر روتی رہی اور یہ سوچتی رہی کہ جواد ایسے ، کیسے کرسکتا ہے ؟ اتنا پڑھا لکھا اور سُلجھا ہوا شخص اور اتنا چھچھورا پن ۔توبہ توبہ ۔ یہ شاعر اور ادیب لوگ بڑے سنکی ہوتے ہیں جھوٹ بولتے ہیں اور رائی کا پہاڑ بناتے ہیں ۔ اپنی محبوبہ کو اپنے کلام سے اتنا اُوپر چڑھاتے ہیں کہ اُس پر نعوذبااللہ اپنے خدا ہونے کا گماں گُزرتا ہے ۔ پھر جب وفا کرنے کی بات آتی ہے تو یہ حضرات کسی خارش زدہ چوہے کی طرح کسی گھور اندھیر پیچدار بِل میں گھُس جاتے ہیں اور اپنی محبوبہ کو سرِ عام سڑک پر پٹخ دیتے ہیں ۔ میں سنِ بلوغت سے ہی اِن لوگوں سے چِڑتی تھی اور میرا من ان کی طرف پہلے سے ہی صاف نہیں تھا بلکہ میں انہیں نِکما اور آوارہ سمجھتی تھی ۔ یہ لوگ باتیں بڑی بڑی کرتے ہیں اور کاغذی گھوڑے دوڑاتے ہوئے واہ واہی لوٹتے ہیں ۔ میرا ادب سے شروع سے ہی گہرا لگاو تھا اور میں پہلے سے ہی ادب کے پیچ و خم میں اُلجھی ہوئی تھی ۔ مگر جعفر جواد ایسا نہں تھا. وہ تو بڑا ہی سُلجھا ہوا شخص تھا۔ پُرکشش اور دلچسپ۔ پہلی ہی نظر میں میرے دل کے نہاں خانوں میں اُتر گیا تھا۔ اب میں اُس کی دیوانی تھی اور وہ میرا محبوب ۔ وہ میرے پیار میں کبھی کبھی طفلِ مکتب ہو جاتا تھا اور بچکانی حرکتیں کرتا تھا۔ حالت میری بھی کچھ کچھ ایسی ہی ہوتی تھی ۔
میں رسوئی گھر میں اُسی کے بارے میں سوچ رہی تھی ۔ آٹھ دنوں سے آپس میں کوئی گفت و شنید بھی نہیں ہوئی تھی ۔ میں بار بار اپنا واٹس ایپ چیک کر رہی تھی ، مگر واٹس ایپ تھا کہ میرا منہ چِڑا رہا تھا۔ کوئی مسیج نہیں ، کوئی فون نہیں اور کوئی خبر نہیں۔ میں اُسے بڑا مِس کر رہی تھی ۔ اِن دنوں کافی روئی بھی تھی مگر میں بھی اکڑ گئی تھی اور میں نے بھی کوئی پہل نہیں کی تھی ۔ میں جانتی تھی کہ وہ بھی بڑا پریشان رہا ہوگا اور بہت رویا بھی ہوگا ، مگر کبھی کبھار وہ اکڑ میں مجھ سے بھی دو قدم آگے رہتا تھا اور مجھے اسے منانا بھی پڑتا تھا ۔ اس بار مگر میری کوئی غلطی نہیں تھی پھر میں کیوں جھُک جاوں ۔ میں اسی اُلجھن میں تھی کہ چُولھے پر رکھا ہوا دُودھ زیادہ اُبال کی وجہ سے اِدھر اُدھر بکھرنے لگا ۔ میں نے ہڑبڑاہٹ میں سنبھالنا چاہا تو ذرا سی چوک ہوئی اور گرم دُودھ سے لبریز برتن اُلٹ گیا۔ گرم دُودھ کے چھینٹے اِدھر اُدھر بکھر گئے۔ کچھ میرے گورے اور گداز ہاتھوں پر بھی گر گئے۔
" آہ ۔۔۔ ہ ۔۔۔۔ ہ ۔۔۔۔۔۔۔ ۔" میرے منہ سے ایک کریہہ الصوت چیخ نِکل گئی ۔ میں نے فورا" سے پیشتر اپنے ہاتھوں کو ٹھنڈے پانی میں بھگو دیا چنانچہ ٹھنڈک سی پڑ گئی ،جبھی گھر کی بائی سنجیدہ گھبرائی ہوئی دوڑتی چلی آئی ۔
" کیا ہوا میم صاحب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔" سنجیدہ زور سے چلائی ۔
" اری ہاتھ جل گیا ۔ اُوف ۔۔۔۔۔۔۔" میں درد سے بلبلائی۔
" آپ بھی نا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔" کہتی ہوئی وہ شروع ہوگئی اور پند و نصایح کرنے لگی اور پھر جلدی سے فسٹ ایڈ پِٹارے سے مرہم نکال کر لاتی ہوئی میرے ادھ جلے ہاتھوں پر لگانے لگی ۔ مجھے کچھ راحت سی محسوس ہوئی اور میں اپنے خوبصورت ڈرائینگ روم میں چلی آئی۔
جبھی باہر کسی گاڑی کے ہارن بجنے کی آواز میرے پردہء سماعت سے ٹکرائی ۔ پھر ہارن لگاتار وقفے وقفے سے بجتا رہا ۔ مجھے بہت بُرا لگا ۔ میں نے اپنے فلیٹ کے دالان میں آکر نیچے سڑک کی طرف دیکھا تو میری آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں ۔
" باپ رے باپ ۔۔ ۔۔۔ " اچانک میرے منہ سے نکل گیا ۔
یہ تو وہی بائیک والا تھا جس کی وجہ سے میرا جواد سے جھگڑا ہوا تھا ۔ سڑک پر ٹھیک اُسی جگہ اور بلکل اُسی انداز میں یو ٹرن لے کر بیٹھا تھا، جیسا کہ تصویر میں آیا تھا اور اب وقفے وقفے سے ہارن بھی بجا رہا تھا ۔ اچانک مجھے بہت غُصہ آیا ۔ میرے تن بدن میں جیسے آگ لگ گئی ۔ اسی کمینے نے میری محبت کے خرمن میں آگ لگائی تھی ۔ مجھے خون کے آنسو رُلایا تھا اور میری راتوں کی نیند اُڑائی تھی ۔ میں اسے ضرور مزا چکھاوں گی ، میں نےارادہ باندھا اور کچھ تیاریاں کرنے لگی ۔
اب تھوڑی ہی دیر بعد غُصے میں بپھرتی ہوئی میں اُس کے قریب پہنچ چکی تھی ۔ میرا پورا چہرہ ڈھکا ہوا تھا ۔ میرے داہنے ہاتھ میں ہرے رنگ سے بھری ہوئی ایک بالٹی بھی تھی اور بائیں ہاتھ میں ایک چھوٹا سا ڈنڈا بھی ۔ خود موٹر سائیکل سوار کا چہرہ بھی ہیلمٹ سے ڈھکا ہوا تھا اور وہ مجھ سے بے نیاز اب بھی تھوڑے تھوڑے وقفے سے ہارن بجا رہا تھا ۔
" سالے رومیو کی اولاد ۔۔۔۔۔" اچانک میں غُصے میں بپھرتی ہوئی زور سے چلائی اور پھر بڑی ہوشیاری سے میں نے ہرے رنگ کی پوری بالٹی اُس پر اُلٹ دی ۔ نِشانہ اتنا صحیح تھا کہ اُس کے سارے کپڑے ہرے رنگ میں رنگ گئے اور وہ ہرے طوطےکی طرح ہرا ہوگیا ۔
" اے ۔۔۔۔۔۔۔ ے ۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔" وہ بڑے زور سے چیخا۔ "بدتمیز ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ "
چیختے ہوئے اُس نے اپنا ہیلمٹ اُتارا اور اپنے کپڑے جھاڑنے لگا ۔ وہ میری طرف قہر آلود نظروں سے دیکھنے لگا ، جبھی میرے پیروں تلے کی زمین جیسے کھسک گئی اور میں بُری طرح سے بوکھلا گئی ۔ یہ تو سو فیصدی جعفر جواد تھا ۔ میرا رومیو ، میرا مجنون ، میرا فرہاد ۔ میں تھر تھر کانپنے لگی اور سنبھلنے کی کوشش کرنے لگی ۔ " سوری ۔۔۔۔۔ پلیز ۔۔۔۔ " میرے منہ سے بےساختہ نِکل گیا ۔ جبھی اُس کے ہونٹوں پر ایک دلفریب سی مُسکراہٹ دوڑ گئی ۔ " کوئی بات نہیں ۔ اِٹ اِز آل رائیٹ ۔" وہ مُسکراتے ہوئے بڑے پیار سے بولا ۔ جبھی وہاں لوگوں کا جماوڑا ہونے لگا ، وہ کچھ گھبرا سا گیا۔ اُس نے اِدھر اُدھر دیکھا ، معاملے کی نزاکت کو سمجھا اور پھر اپنی بائیک ایک ہی کِک سے اسٹارٹ کرتا ہوا زوووووں ۔۔۔۔۔۔۔ کی آواز کے ساتھ فراٹے بھرتا ہوا وہاں سے نکل گیا ۔ میں بس دیکھتی ہی رہ گئی اور دانتوں تلے اپنی اُنگلی دبائے اُسے تب تک دیکھتی رہی ، کہ جب تک وہ میری نگاہوں سے اوجھل ہوگیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...