(Last Updated On: )
درمیانہ قد، بھاری جسم، گندمی رنگت، سادہ شلوار قمیض ،سر پر ٹوپی، گلے میں فریدی رومال، ہر محفل کی جان اور چہرے پر خوش طبعی اور ظرافت کے آثار، یہ تھے بشیر دیوانہ صادق آبادی جو 28اپریل 2020ء کو ہم سے جدا ہوگئے، وہ گزشتہ دوسال سے فالج کا شکار تھے اور غربت کے سبب علاج نہ ہوسکا جس کی وجہ سے دھرتی کا یہ عظیم سپوت موت کے منہ میں چلا گیا۔ بشیر دیوانہ کو اپنی دھرتی اور وسیب سے شدید محبت تھی،انہوں نے اپنے شہر صادق آباد کو اپنے نام کا جزو بنا لیا جوان کی دھرتی سے محبت اور والہانہ عشق کا اظہار ہے، اس کے علاوہ ان کاتخلص دیوانہ بھی اپنی مٹی اور زبان سے دیوانگی کی حد تک محبت کرنے کی وجہ سے امر ہوگیا۔
بشیر دیوانہ 12اپریل 1965ء کوفقیر بخش ولیانی کے گھر صادق آباد میں پیدا ہوئے۔ گھریلو حالات بہتر نہ ہونے کے سبب مڈل تک تعلیم حاصل کی اور اس کے بعد فکرمعاش کے جھمیلوں میں پڑ گئے۔ 1980میں شاعری شروع کی اور معروف سرائیکی شاعر عبدالخالق مستانہ کی شاگردی اختیار کی، انہوں نے اپنی شاعری کے ذریعے اپنی دھرتی اور وسیب کے مسائل کو اجاگر کیا، حب الوطنی کا درس دیا، عوام کو وڈیروں جاگیرداروں کا اصل چہرہ دکھایا اورغریب اور مزدور طبقہ کو اپنے حقوق حاصل کرنے پر زور دیا۔ خود دار انسان تھے، ساری زندگی غربت سے لڑتے رہے مگر کبھی کسی کے آگے دست سوال دراز نہ کیا۔بیماری کی حالت میں علاج کی غرض سے کوٹ سمابہ آئے تو ان سے ملاقات کے دوران ان کے چہرے پر حزن وملال کے تاثرات نہ ہونے کے برابر تھے اور ان کی زندہ دلی اور شگفتگی دیکھ کر یہ محسوس ہی نہ ہوا کہ یہ شخص فالج سے لڑرہا ہے اور آخری سٹیج پر ہے۔
بشیر دیوانہ صادق آبادی اچھے شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ بہت اچھے انسان بھی تھے، ان کے چہرے پر ہروقت مسکراہٹ رہتی تھی اور وہ دوسروں کو ہنسانے کا فن بھی جانتے تھے۔ دوسروں کو ہنسانے والے اندر سے کتنے دکھی ہوتے ہیں، اس کا اندازہ ہمیں بشیر دیوانہ کے حالات زندگی کو دیکھ کر ہوتا ہے۔ وہ ہر محفل کی جان ہوتے تھے، شادی بیاہ کی محفل ہو یا سیاسی جلسہ، محفل مشاعرہ ہو یا سرائیکی پروگرام وہ اپنا پیغام بھی پہنچاتے تھے اور محفل کو کشت زعفران بھی بنا دیتے تھے، گویا ان کے آنے سے محفل میں رونق آجاتی تھی۔مجھے یاد ہے کہ ہمارے گائوں دھریجہ نگر میں ہونے والے ادبی و ثقافتی پروگراموں میں بشیر دیوانہ بھرپور شرکت کرتے تھے اور ان کی خوبصورت یادیں آج بھی ہمارے ذہنوں میں نقش ہیں۔
بشیر دیوانہ کا شعری سفر چار دہائیوں پر مشتمل ہے ، اس عرصہ میں ان کی درجن سے زائد کتابیں اور کتابچے چھپ کر سامنے آئے جن میں سوچ داسفر، سوہنْا ساوا روضہ، ماء دا پیار، خونی زلزلہ، چمکدے تارے، شہادت بے نظیر، سرائیکی ڈٖوہڑے، سرائیکی سہرے، کھلانونڑیں لطیفے، کھل دے ٹاہکے، روگ اندر دے، عطائی ڈٖاکدار ،دیوانے پروانے دے ڈٖوہڑے اور دعائے خورشید شامل ہیں۔انہوں نے سرائیکی زبان کے معروف شاعر بخت فقیر کے دیوان کو بھی مرتب کیا اور خواجہ فرید سرائیکی ادبی سنگت کے پلیٹ فارم سے بہت سی کتابوں کو شائع کیا۔ انہوں نے سرائیکی رسالہ ’’گامنْ سچار اور جٖانْ سنجٖانْ بھی شائع کرتے رہے۔خان پور کے سرائیکی اخبار میں بحیثیت سب ایڈیٹر بھی کام کیا ا س کے علاوہ مختلف اخباروں میں ان کا کلام اور کالم بھی شائع ہوتے رہے۔
بشیر دیوانہ کی شاعری کی کتاب’’سوچیں دا سفر‘‘ میں حمد، نعت، منقبت، سی حرفی،ڈوہڑہ، غزل، کافی،نظم اور گیت شامل ہیں۔ وہ نعت گو بھی تھے اور نعت خواں بھی، وہ پیغمبر اسلام کی نعت پڑھتے تو سماں بندھ جاتا ، ان کی نعت کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں
شہر مدینہ رب ڈٖکھلاوے روز پکاراں میں
سِک ڈٖاڈھی ہے کون پجٖاوے روز پکاراں میں
ہاں بے عملا تے بے سملا نہ کُئی گُٖنْ ہِن پلے
عربی مٹھل کوں کوئی تاں ڈٖساوے روز پکاراں میں
شہید کربلا حضرت امام حسین ؑ اورآل رسول سے محبت کا اظہار بشیر دیوانہ اس طرح کرتے ہیں
کربلا دی ریت تے آدیرہ لایا ہِے حسینؑ
دین نانے پاک دا سِر ڈٖے بچایا ہِے حسینؑ
سِرڈٖتا جیں ہتھ نہ ڈٖتا دین اُچا کرڈٖتا
نیزے تے قرآن کوں وی پڑھ ڈٖکھایا ہے حسینؑ
بشیر دیوانہ اپنی دھرتی اور وسیب کا عاشق ہے اور اپنی شاعری میں اس کا اظہار بھی کرتا ہے۔ ان کی نظم ’’ارداس‘‘ میں ان کی روہی کی منظرکشی اور وہاں بارش کے برسنے کی دعا اس طرح کرتے ہیں
ٹوبھے سُکے، روہی تَسی ساول گٖئی مُکلا
ایں واری تاں اللہ ساڈٖے ماڑ تے مینہ وسا
آجڑی اجڑ تنوارنْ بھُل گٖن روندن کرارداساں
تھیون چرانداں بھیڈٖاں بٖکریاں رجٖ کوئی کھاون گھا
گوپے سالھیں چھپرساڈٖے جنت وانگے گھر ہن
بٖلدن وانگ تنور دے ہُنْ تاں جیویں بٖلدی بھا
بشیر دیوانہ سرائیکی ماء بولی سے سچی محبت کرتے ہیں اور انہوں نے ساری زندگی اپنی ماء بولی سے محبت کا پیغام گھر گھر پہنچایا، ان کی نظم ’’مٹھڑی بولی‘‘ میں سرائیکی زبان سے محبت کا اظہار ملاحظہ فرمائیں
جئیں ویلے وی منہ کوں کھولوں
اپنڑی مٹھڑی بٖولی بٖولوں
ماء بٖولی توں ودھ کُئی شئے ہے
ماء بٖولی توں جندڑیاں گھولوں
بشیر دیوانہ غزل بھی بہت عمدہ لکھتا ہے اور کلاسیکی غزل کی نمائندگی کرتا ہے، ان کی غزل کے چند اشعار دیکھیں
کون جانْے خدا توں کیا منگداں
ہر دُعا وچ میں دلربا منگداں
توں ملیں دل کریندے جیونْ کوں
توں نہ نظریں تاں ول قضا منگداں
بشیر دیوانہ شاعر کے ساتھ ساتھ اچھا گلوکار بھی تھا اور موسیقی کے اسرارورموز سے بھی واقف تھا اور کافی کی صنف موسیقیت سے تعلق رکھتی ہے، انہوں نے بہت سی کافیاں بھی لکھیں ، کافی کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں
جندڑی جیویں دلبر ماہی
نہ کر ایڈٖی بے پرواہی
تیڈٖے باجھوں جی نہ سگٖساں
پھٹ جگر دے سی نہ سگٖساں
مرویساں اصلوںبے واہی
بشیر دیوانہ نے ڈٖوہڑے اور قطعے بھی بہت عمدہ لکھے ہیں، ان میں بھی ہمیں عوامی رنگ ملتا ہے، ایک دعائیہ ڈٖوہڑہ ملاحظہ فرمائیں
شالا رب سئیں ڈھیر عروج ڈٖیوی نت اَسماناں دی سیر ہووی
ایہو خُلق خلوص آباد رہی گھر وچ خوشیاں دی لیر ہووی
رہی سیت ستارہ ٹاپ اتے نہ حسد کریندا غیر ہووی
ساڈٖی روز دعا ہے دیوانہ جتھ پیر ہووی اُتھ خیر ہووی
ان کا ایک قطعہ دیکھیں جس میں انہوں نے وسیب میں ہونے والی بے انصافی کا گلہ کیا ہے
ظالم دا دل صاف نی تھیندا
جرم غریب دا معاف نی تھیندا
ڈٖاڈھے دے ہِن ڈٖو ڈٖو بھانگے
کہیں جاہ تے انصاف نی تھیندا
بشیر دیوانہ نے سرائیکی ترانے بھی لکھے ہیں جس میں انہوں نے وسیب سے محبت کا والہانہ اظہار کیا ہے اور اپنی سوئی ہوئی قوم کو جھنجھوڑ کر اٹھانے کی کوشش بھی کی ہے اور ان کا پیغام سرائیکی نوجوانوں کے لئے بہت اہمیت کا حامل ہے
جے تئیں رات اندھاری راہسے
جنگ اساڈٖی جاری راہسے
جاگٖو جاگٖو ہِک مُٹھ تھیوو
نتاں قسمت ہاری راہسے
بشیر دیوانہ عوامی شاعرکے طور پر معروف ہوا، وہ کمال کے فی البدیہہ شاعر تھے، ان کی شاعری میں ہمیں عوامی رنگ ملتا ہے
خواجے پیر دے مزار مٹھن کوٹ جٖلوں
آئو میلے تے یار مٹھنْ کوٹ جٖلوں
تھی بٖیڑی تے سوار مٹھنْ کوٹ جٖلوں
آئو میلے تے یار مٹھنْ کوٹ جٖلوں
بشیر دیوانہ جیسے لوگ مرنے کے بعد بھی اپنے اخلاق پیار اور انسان دوستی کے سبب لوگوں کے دلوں میں زندہ رہتے ہیں ان کی یہ خواہش پوری ہوئی
خواہش اے، زندگی دے وچ کوئی کم چنگٖا کر ونجٖاں
لوک پچھوں یاد رکھن آپ تونْے مر ونجٖاں
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ بشیر دیوانہ کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے (آمین)