دنیاوی شناخت کو گُم کریں۔
آج سے چھ مہینے پہلے جب میں ریاست واشنگٹن میں رہتا تھا نجانے کیسے ایک دن میرا بٹُوا گم ہو گیا ۔ اس میں پیسے تو نہیں تھے لیکن امریکہ کہ میرے بہت ضروری شناختی کارڈ۔ بلکہ میرا امریکہ کا ورک پرمٹ بھی۔ میرا وہاں ایک ۸۳ سالہ جرمن دوست بنا ہوا تھا جس سے میں روحانیت کے معاملات سیکھتا تھا ، سمجھتا تھا۔ اُس دوست کو جب میں نے بتایا ، اُس نے فورا کہا لو جی اب تم روحانیت میں داخل ہو گئے ہو ۔ تمہاری آج سے دنیاوی شناخت ختم کرنے کا روحانی حکم آ گیا ہے ۔ وہی ہوا کہ عموماً اگر پرس میں پیسے بھی ہوں تو ، پانے والا پیسے نکال کر کارڈ واپس پولیس کو یا آدمی کو بھیجھ دیتا ہے۔ میرے کیس میں ایسا ابھی تک نہیں ہوا ۔ اُس جرمن دوست نے مزید کہا کہ اب تم اپنے گھر نیو جرسی واپس چلے جاؤ اور وہاں سے پاکستان ۔ میں نے ویسے بھی نیوجرسی آنا تھا واپس آ گیا ۔یہاں نیوجرسی سے ایک دن شکاگو جانا تھا ، ایک دفعہ پھر نجانے کیسے بورڈنگ پاس بھی ہوتے ہوئے فلائیٹ مِس ہو گئی ۔تب سے اب تک میں اُس اپنی شناخت سے آھستہ آھستہ باہر آ رہا ہوں، اور محسوس کر رہا ہوں کہ کافی حد تک اُس سے آزاد ہو گیا ہوں ۔
یہ شناخت ہی ساری بیماریوں کی جڑ ہے ۔ بچہ جب ماں کے پیٹ سے نکلتا ہے تو اسی لیے روتا ہے کہ اب مارے گئے ۔ اور وہی ہوتا ہے، کانوں میں ازان سے ، گُھٹی ، ختنے اور قبر سے پہلے کا غسل اِس شناخت پر ہمیشہ کے لیے مہر ثبت کر دیتا ہے ۔ ایک ہندو استاد پُونجاجی ، جن کو کو پیار سے پاپا جی بھی کہا جاتا تھا، پیدا ویسے گجرانوالہ میں ہوئے تھے ، اسں سارے معاملہ کو بہت خوبصورت انداز میں بیان کرتے ہیں ، فرماتے ہیں
“اس شناخت والی فلم کے مرکزی کردار ‘خُودی ‘یا ego ہے ، اس فلم کا ڈائریکٹر ‘کرما’ہے ، اور پروڈیوسر ‘مایا’”۔ واہ کیا بات پاپا جی کر گئے ۔
تبھی تو شیکسپیر نے اس دنیا کو سٹیج stage کہا تھا جہاں روز نیا کھیل سجتاہے، نئے کردار رول پلے کرتے ہیں ۔
تو پھر سوال اُٹھتا ہے کہ قرار کہاں ہے ، سچ کہاں ہے ، خدا کہاں ہے ؟ کیا کر رہا ہے ؟
اس کا جواب ‘دل ‘ ہے ۔ جیسے میں نے پہلے ایک مضمون میں کہا تھا ، وہ دل کی دھڑکن ، وہ سمندر کی لہر ، دیوا کی شکتی میں ہے ۔ یہ وہ انرجی ہے جس نے پوری کائنات میں جان پیدا کی ہوئ ہے اصل میں ہم سب اُس کا حصہ ہیں ۔ خاموشی اور stillness سے ہم سب با آسانی وہاں پہنچ سکتے ہیں۔ اور ہم سب اُس کائنات کی خدائ کا حصہ بن جاتے ہیں ۔ وہاں اُس مقام پر پھر موت بھی غیر معنے ہو جاتی ہے ۔ اور ہم سب بشمول چرند پرند درخت پہاڑ صحرا اس infinity یا لا محدودی کا حصہ بن جاتے ہیں ۔
میرا اس مضمون سے ہرگز مطلب نہیں کہ آپ فورا اس شناخت سے جان چھڑوائیں، بلکہ صرف یہ کہ اگر آپ اپنی اِن عارضی زندگیوں میں چین یا سکون پانا چاہتے ہیں تو پھر اس نام نہاد شناخت کو روح کے تابع لانے کی کوشش کریں ۔ دل کی سُنیں اور سُنائیں ۔ دل کی مانیں ۔ دنیاوی شناخت تو عارضی ہے اور عارضی ہی رہے گی ۔ دنیاوی شناخت کو نکالے جانے کا فکر ہوتا ہے جیسے بچہ روتا ہے ، یا جیسے حضرت آدم پریشان ہو گئے تھے جنت سے نکالے جانے پر یا آجکل پاکستان کے وزیراعظم جو ابھی بھی رات کو سوتے ہوئے اُٹھ کر چیختے ہیں ‘مجھے کیوں نکالا’۔
دفعہ ماریں ایسی شناخت کو ، اپنی شناخت کائنات کی آکائ Oneness سے جوڑیں اور ابدی خوشی محبت اور سکون میں آ جائیں۔ یاد رہے دراصل ہم سارے اس آکائ میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے پروئے ہوئے ہیں، یہی کائنات کا رقص اور چاند کی شان ہے۔ خاموشی آپ کو وہاں لے جائے گی۔ بہت خوش رہیں ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔