کائنات سچائی پر کھڑی ہے ۔
ساری دنیا ، کائنات ، یہاں کی زندگی ، اس کے بعد کی ، سب اور سب سوائے سچائ کے کسی بھی اور چیز پر منحصر نہیں ۔
آپ اگر دنیا کا نقشہ بغور دیکھیں اور ان میں ترقی یافتہ ملکوں کا خاص طور پر جائزہ لیں تو علم ہو گا کہ وہاں کتنا عدل ، انصاف اور ایمانداری کا دور دورا ہے ۔ ہم میں سے اکثر لوگ جب یورپ یا امریکہ جاتے ہیں واپس آ کر یہ کہتے پائے جاتے ہیں کہ اصل میں ان لوگوں نے اسلامی اصول اپنائے ۔
قدرت کا سارا نظام سچ ، صفائ ، ستھرائ ،ایمانداری اور پیار محبت پر مبنی ہے ۔ آپ اپنے ارد گرد ، محلہ ، رشتہ داروں میں دیکھیں کہ کون ایسے لوگ ہیں جنہوں نے دھوکہ دہی اور جھوٹ کی زندگیاں گزاریں اور خوشحال ہیں ؟ یہ ممکن ہی نہیں ۔ احد چیمہ آج جیل میں کیوں ہے ؟ پورا نواز شریف خاندان آج زلیل و خوار کیوں ہو رہا ہے ؟ ان کے پاس سب کچھ تھا دنیا کی مال و دولت سے لے کر دنیا کی بڑی بڑی شخصیات سے تعلقات ، بس تھا نہیں تو سچ نہیں تھا ۔ دیانتداری نہیں تھی۔ ساری زندگی برباد ہو گئ ۔ رائیگاں گئ ۔ خود تو تباہ ہونا ہی تھا ۲۲ کروڑ لوگوں کو بھی اس جہنم میں دھکیل گئے ۔
امریکہ میں تقریباً دنیا کے ہر علاقے سے لوگ موجود ہیں ۔ ان علاقوں سے بھی جہاں جھوٹ اور دھاندلی کا نظام عروج پر ہے ۔ لیکن مجال ہے یہاں آپ کو کوئ پلئتی نظر آئے ۔ یہ چیزیں نظام میں نہیں بلکہ آپ کے اپنے بس میں ہوتی ہیں ۔ یہاں خوف سے لوگ ایماندار نہیں بلکہ اس لیے کہ ہر دوسرا شخص ایماندار ہے ۔ ہر شخص آنے والی نسلوں کی سوچتا ہے ۔ روشن مستقبل کا خواب لیے بیٹھا ہے ۔
پاکستان میں جھوٹ ، دھاندلی اور شوبازی کو برا سمجھنا تو درکنار بڑی شیخی سے اس کا چرچا کیا جاتا ہے ۔ آج کل تو بہت مشہور معقولہ ہے کہ ‘اسی تے پناما والیاں دے گھر اپنی بچی دینی اے’۔
لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس فرخ عرفان جن کا نام کئ آف شور کمپنیوں کی لسٹوں میں ہے بڑے دھڑلے سے اوپن ٹوائیل کا تقاضا کر رہے ہیں ۔ میرے وکیل اقبال جعفری ہیں اس کیس میں وہ آج کہ رہے تھے کہ سپریم کورٹ مان جائے ، لیکن lie detectors / polygraph کا استمعال بھی کرے ان بدمعاشوں پر۔
جھوٹ ، بددیانتی ، رشوت اور بے ایمانی اتنی بری طرح پاکستانیوں کے خون میں رچ بس گئ ہے کہ کوئ قدرت کی طرف سے بھی رحم ، مہربانی اور کرم والا سلسلہ بہت مشکل بلکہ نا ممکن دکھائ دے رہا ہے ۔ اور مزید زیادتی یہ کہ ان سب جھوٹوں کے ساتھ ۹۰% لوگ اور سچے ہم جیسے سارے تنہا۔ اکیلے لکھ لکھ کر ، بول کر ، درخواستیں دائر کر کر کے اس دنیا سے کُوچ کر جائیں گے فراڈ یوں کے سر پر جُوں بھی نہیں رینگے گی ۔
کل مجھے ایک پاکستانی ای میل پر کہ رہے تھے کہ آپ باہر بیٹھے لیکچر دے رہے ہیں پاکستان کیوں نہیں آتے ؟ میں نے عرض کی جناب آپ میرا کوئ کردار پاکستان میں واضح کر دیں میں پہلی فلائٹ سے واپس آ جاتا ہوں۔ میں نے تو جب ٹاپ سروس سے بھی استعفی دیا تھا یہی کہا تھا کہ ‘چونکہ میں اس cause سے مزید انصاف نہیں کر سکتا ، جس وجہ سے میں نے یہ سول سروسز جائن کی ۔ لہٰزا استعفی دے رہا ہوں’ اور ما شا ء اللہ پاکستان حکومت نے میرا یہ کنڈیشنل استعفی اسی طرح منظور کر لیا ۔ یعنی مان لیا کہ ان حالات میں آپ جیسے لوگ واقعی ہی ضرورت نہیں ۔ یہ بات تھی ۲۰۰۳ کی اور اب تو ۱۵ سال میں کئ فواد حسن فواد اور احد چیمہ پیدا ہوئے اور پورے نظام کا بیڑہ غرق کر کے الٹا دندناتے پھرتے ہیں ۔
برائ کا انجام برائ ہو گا ۔ یہ قدرت کے کمپیوٹر کی default settings ہیں ۔ کسی خوش فہمی میں نہ رہیں ۔ پاکستان جن حالات میں آج کل گھڑا ہوا ہے یہاں نہ باجوہ ڈاکٹرائن چلے گی نہ ثاقب نثار فارمولہ ، صرف اور صرف پھانسیاں ۔ اور وہ بھی چوکوں میں وگرنہ سب کو بھگتنا ہو گا ، قدرت کا تو یہی فیصلہ لگتا ہے ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔