امریکہ کا رومانس ۔
جب میں ۱۹۸۱ میں امریکہ کے لیے اسٹوڈنٹ ویزا لینے لاہور کی امریکی قونصلیٹ میں گیا تو مجھے اس بنیاد پر امریکہ کا ویزا نہیں دیا گیا کہ “تم واپس نہیں آؤ گے کیونکہ پاکستان میں وکیلوں کا کوئ مستقبل نہیں “۔ جسٹس اعجازالحسن کو اسی قونصلیٹ نے دے دیا پتہ تھا واپس آ جائے گا ۔ اور میں نے واقعہ ہی واپس نہیں آنا تھا لہازا نہ کوئ رنج نہ ملال ۔
جب ۲۰۱۶ میں Asylum کے لیے امریکہ کی اسلام آباد ایمبیسی میں ویزا لینے گیا تو ‘غیر معینہ مدت کے لیے امریکہ رہنے “ کا اسٹیمپ لگا دیا گیا ۔ دونوں انٹرویو پانچ منٹ سے زیادہ کے نہیں تھے ۔ دونوں دفعہ ایک ہی بندہ تھا ، ایک ہی ملک تھا ، حالات مختلف تھے ۔ اگر میں ۱۹۸۱ میں امریکہ جاتا تو اور واپس نہ آتا تو آج میری زندگی بہت مختلف ہوتی ۔ یہ سارے قدرت کے فیصلے ہیں ۔ قدرت کا نظام جو وقت اور جگہ کی قید سے آزاد ہے ۔
کل مجھے نیو یارک سے ایک پاکستانی میری کل کی تحریر سے کہ رہا تھا کہ سرکار اب لوگ آپ سے تعویز گنڈے لینے شروع کر دیں گے ۔ میں نے کہا نہیں ہر شخص اپنی زات میں پیر ہے ، مرشد ہے ، مکمل ہے ، روحانی ہے صرف توجہ اور پہچان کی ضرورت ہے ۔
امریکہ دراصل میرے جیسوں یا ہر شخص کے رہنے کے لیے ایک بہت زبردست جگہ ہے ۔ مجھے یہاں تقریباً یہاں رہتے ڈیڑھ سال ہو گیا ہے ۔ اتنی آسان زندگی میں نے کسی اور ملک میں نہیں دیکھی ۔ ہر ایک چیز طے ہے ، ترتیب میں ہے اور ہر قانون common sense کے عین مطابق ۔ اکثر میں بچوں کو کہتا ہوں یہ قانون ہو گا ۔ اور ہر چھوٹا بڑا ، امیر غریب قانون کے سامنے برابر ۔ بس آپ سیدھا سیدھا چلتے جائیں اور امریکہ کہ مزہ لیتے جائیں ۔
میرے پاکستان سے ایک جج دوست امریکہ میں عشق و محبت کے طور طریقے کے بارے میں پوچھ رہے تھے ۔ وہ بھی بہت سادہ ہیں ، فرق کیا ہونا یہاں جعل سازی نہیں ، عشق ہیسے کے لیے نہیں ۔ date پر بھی bf اور gf اپنا اپنا بل بھرتے ہیں ، اتنا پوتر پیار کرتے ہیں ۔
انڈین یا پاکستانی فلموں کی طرح یہاں پیار ، ہوتا نہیں ، بلکہ امریکہ میں پیار کیا جاتا ہے ۔ ہمارے صوفیا کے فلسفہ عشق میں بھی عشق کیا جاتا ہے ہوتا نہیں ۔ یہ ایک احساس نہیں بلکہ ایک دانستہ عمل ہے ۔ عشق کی تپسیا میں جلنا پڑتا ہے ۔ میں مارنی پڑتی ہے ۔ دو جسم اور ایک روح والا معاملہ بنانا پڑتا ہے ۔ مجھے پاکستان کے ایک کرنل صاحب یاد آ گئے ایک دن کہنے لگے ، فلاں عورت مجھے ہر دفعہ کہتی ہے میں تم سے بہت پیار کرتی ہوں ۔ میں ہمیشہ کہتا ہوں damn it ثابت کرو ۔
تو امریکہ میں ہر چیز ثابت کرنی پڑتی ہے ۔ ہیر پھیر یا لوڈ ڈلوا نے والا عشق نہیں ۔ کسی قسم کی جعل سازی نہیںُ۔ امیر سے امیر آدمی بہت عاجز ، بس میں بیٹھا نظر آئے گا ۔
کام نہ کرنا پاکستان میں فخر سمجھا جاتا ہے ‘اوہ اسی ویلے جی، ابا پیسے چھڈ گیا’امریکہ میں نہیں ۔ ۹۵ سال کی عورت بھی خود گاڑی چلا کر گرا سری اسٹور آۓ گی ‘ ویسے بھی ہر وقت پریشان کے دنیا کو کچھ دے کے جانا ہے ۔ آنے والی نسلوں کا فکر ۔
میرا ایک ریاست واشنگٹن میں ۸۳ سالہ جرمن دوست رہتا ہے کل مجھے فون پر کہ رہا رھا تھا کہ ستمبر تک وہ ایک اور شہر Wenatchee شفٹ ہو جائے گا ۔ اور وہ میرے ساتھ روحانیت پر کوئ اکٹھے پراجیکٹ کرنا چاہتا ہے ۔
افسوس یہ ہوتا ہے کہ پاکستانی یہاں آ کر بھی نہیں بدلتے ۔ پاکستانی ڈاکٹروں کی وہی جعلی شیخیاں، پھوں پھاں۔ گردن میں سریا ۔ اتوار والے دن ایک مال کی پارکنگ میں نئ Audi پر ایک پاکستان یا ہندوستان سے باشندہ اس طرح سب کو دکھا رہا تھا جیسے اسی کے پاس یہ گاڑی ہے یا وہ کوئ کنگ ہے ۔
اس کے باوجود میرے نیوجرسی میں صرف تین دوست ہیں اور تینوں پاکستانی ہیں جن میں کوئ شرم حیا ہے ۔ انسانیت ہے ۔ ان میں سے کل ایک مجھ سے پوچھ رہا تھا کہ ‘عزت’ کا کیا مطلب ہے میں نے کہا یار کسی امریکی سے پوچھو ۔
روحانیت یا روح کو جو صاف ستھرا ماحول امریکہ میں ملتا ہے میرے تجربہ کے مطابق کہیں اور نہیں ۔ لیڈر یا چند کاروباری جن کی اجارہ داری ہے ان کی بدمعاشیوں اور زیادتیوں کے علاوہ ہر انسان ، سادہ ، سچا ، صاف ستھرا ، ہشاش بشاش۔ مقابلہ کا ڈیپریشن ضرور پایا جاتا ہے اس کا تدارک بھی حکومت ہر طریقے سے کر رہی ہے ۔ میرا بیٹا بتا رہا تھا کہ ہماری کمپنی میں جم کمپلسری ہے اور پیسے کمپنی دیتی ہے ۔
کیا ہم پاکستان کو بھی اس رومانس میں رنگ سکیں گے ؟ یہ میرا خواب ہے ۔ یہ میری خواہش ہے ۔ اللہ میری زندگی میں یہ خواہش پوری کرے ۔ امریکہ کو تو ۲۵۰ سال لگے یہاں پہنچتے ہم کم از کم کہیں تو پہنچیں ستر سال ہو گئے میں؟
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔