چُپ ریندی اے تے مر دی آں، بولاں گیں تے مار دین گے ۔
آج جب میں پارک میں مشق کے بعد بلاگ کا سوچا تو شاہ حسین کا یہ کلام فورا دماغ میں آیا ۔ دراصل شاید کل شام میں اپنی ایک مداح سے اس پر گفتگو کر رہا تھا تو یہ زہن میں نقش ہو گیا ۔
کیا بات کر گئے شاہ صاحب ۔ فقیر مادھو لعل حسین پر امریکہ کی نیویارک یونیورسٹی سے ایک امریکی Brian Bond پی ایچ ڈی بھی کر رہا ہے ۔ اسے میں نے ہچھلے سال جب اس کلام کی روح تک پہنچانے کی کوشش کی تو وہ بیچارہ اس کو سرے سے ہی سمجھنے میں ناکام رہا ۔ روحانیت کی کوئ زبان نہیں ، یہ ایک کیفیت ہے ۔ ایک احساس ہے ۔
کائنات کا پورا نظام سچ پر کھڑا ہے اور روحانیت اسی سچ کا نام ہے ۔ کچھ لوگ اس سچ کو زاتی مقاصد کی خاطر manipulate کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ استحصال کرتے ہیں ۔ حاکمیت کی بات کرتے ہیں ۔ دنیا فتح کرنے نکل پڑتے ہیں ۔ تاریخ گواہ ہے سب کو منہ کی کھانی پڑی ۔
کوئ بشر یہاں کسی سے جنگ اور لڑائ کے لیے پیدا نہیں ہوا ۔ میں تو تاریخ میں fight or flight کی instinct کو بہت احمقانہ سمجھتا ہوں ۔ عقل سے عاری لوگ تھے ۔ روح کو سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی گئ ۔ میں تو Universal Law of Abundance پر یقین رکھتا ہوں ۔ کچھ لوگ محض دھونس ، دھاندلی اور بدمعاشی سے باقی لوگوں کے ریسورز پر قبضہ کیے ہوئے ہیں کہاں کا انصاف ہے ۔ سب کے لیے سب کچھ ہے ۔
پچھلے دنوں جولین آسانجے پر gagging آرڈر پاس کیا گیا اس سے جس cell میں رہتا ہے ملنے پر بھی پابندی لگا دی گئ ۔ اس غریب نے تو پچھلے چھ سال سے سورج کی روشنی بھی نہیں دیکھی وہ کال کوٹھری سے اپنی جدوجہد میں مصروف رہا ۔ مجھے بہت ساری باتوں پر آسانجے سے اختلافات ہیں ۔ اور میں یقین کے ساتھ کہ سکتا ہوں امریکیوں اور روسیوں نے اسے استمعال کیا اب جان چھڑانا چاہتے ہیں ۔ لیکن میں اس کی استواری ، اس کی consistency اور determination کا بہت بڑا مداح ہوں ۔ آج غیر ترقی یافتہ ملکوں سے لوگ مرتے ہیں آسٹریلین نیشنیلیٹی کے لیے اور آسانجے وہ نیشنیلیٹی Enjoy ہی نہیں کر سکا ۔
خیر آتے ہیں اصل موضوع پر جو سچ پر قائم رہنے کا ہے ۔ میرا کل کا بلاگ بھی یہی تھا کہ پاکستانی معاشرہ سچ پر قائم ہی نہیں ۔ مجھے بہت سارے لوگوں نے سوال کیے کہ اب کیا کریں ، کیسے سچ پر آنا ممکن ہو سکتا ہے ۔ میرے اس جواب پر کہ بہت آسان ہے بہت حیران ہوئے ۔ یہ بلکل اسی طرح ہے کہ باہر سورج نکلا ہوا ہے ، دن ہے اور چند لوگ بندوق اور اقتدار کے زور پر یا چند ٹکوں کا لالچ دے کر ہمیں مجبور کر رہے ہیں کہ ہم کہیں کہ باہر اندھیرا ہے ، رات ہے ۔ ۹۰% ٹی وی اینکر یا main stream میڈیا یہی کر رہا ہے ۔ اس سے باہر نکل آئے ہیں ۔ میرے بلاگز سے اب تک پانچ سو زیادہ لوگ متفق ہیں اگر وہ نکل سکتے ہیں تو آپ کیوں نہیں ۔
ہمارے پاس چوائس ہے ۔ اپنے دل کی مانیں یا چند ٹکوں پر بک جائیں یا بندوق سے ڈر جائیں ۔ اتنی سادہ سی بات ہے ۔ میں جتنے سال پاکستان رہا بلکہ یہاں امریکہ میں بھی ، میرے اندر کا سچ میرا مرشد ہے میرا پیر ہے ۔ اسی لیے میں کائنات کی ہر چیز کو نہ صرف انجوائے کرتا ہوں بلکہ اس کا حصہ بن کے رقص کرتا ہوں ۔ میں تو کل کسی کو کہ رہا تھا میری holographic موجودگی تمہارے گھر میں تمہارے پاس ہر وقت ہے ۔ ہم سب simultaneously ہر جگہ موجود ہیں ۔ وقت اور جگہ کی قید تو ہماری اپنی اختراع ہے ۔ مومن یاد آ گئے ۔
مومن خان مومن غالب اور ذوق کے ہم عصر تھے ۔ وہ حکیم ، ماہر نجوم اور شطرنج کے کھلاڑی بھی تھے۔
ان کا شعر ہے :
تم میرے پاس ہوتے ہو گویا
جب کوئ دوسرا نہیں ہوتا
کہا جاتا ہے کہ مرزا غالب نے ان کے اس شعر پر اپنا پورا دیوان دینے کی بات کہی تھی۔
آئیں سب مل کر اس کائنات کو جنت بنائیں ۔ مولوی کی جنت کے چکر میں نہ رہیں ۔ فیض احمد فیض ٹھیک کہتے تھے ‘یہیں دوزخ ہے یہں جنت ‘ ایک اور جگہ کہا
زکر دوزخ بیان حور و قصور
بات گویا یہیں کہیں کی ہے
سچ کی دنیا قائم کریں ۔ جھوٹ سے جسمانی بیماریاں بھی جنم لیتی ہیں ۔ ایک جھوٹ کو چھپانے کے لیے ہزار جھوٹ بولنے پڑتے ہیں ۔ دفن کریں جھوٹ کو ، پلئتی ہے من کی ۔
ہمیشہ خوش رہیں ۔ میں آپ سب کے لیے دعا گو ہوں ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔